www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

655714
تقلید ضروری نھیں ہے ، بلکہ اصول دین میں تو تقلید حرام ہے ، ھاں فروع دین میں تقلید جائز ہے ، اور یھاں اسی تقلید کی بات ھو رھی ہے ، یعنی وھی تقلید جو عام افراد فروع دین میں مراجع کرام کی طرف رجوع کرتے ہیں ، ورنہ اصول دین میں تو تقلید کی بات ھی نھیں ھو سکتی ، کیوں کہ وھاں تقلید حرام ہے ۔ تقلیدی دین کسی سے نھیں قبول کیا جائے گا ، کیونکہ تقلیدی دین، دین نھیں ہے، دین کی نقالی ہے ۔
زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
اب یہ اللہ سبحانہ تعالی کا لطف وکرم ہے کہ اس نے فروع دین میں خاص شرائط کے تحت تقلید کی اجازت دے دی ہے ، ورنہ اگر خداوند عالم فروع دین میں بھی تقلید کو حرام کر دیتا تو سب کو درجہ اجتھاد تک پڑھنا پڑتا ، مجتھد علی الاطلاق نہ سھی مجتھد متجزی تو بننا ھی پڑتا ، ورنہ وہ سر پٹکتا رہ جاتا ، اس کے سارے اعمال اکارت ھو کے رہ جاتے ۔ لھذا سب سے پھلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقلید اللہ کے لطف و کرم سے ایک سھولت اور نعمت کا نام ہے ۔
فروع دین میں تقلید جائز ہے ، واجب نھیں ہے ، ضروری نھیں ہے کہ آپ تقلید ھی کریں ، اگر آپ کسی کی تقلید نھیں کرنا چاھتے تو دو اور راستے ہیں ، یا آپ خود درجہ اجتھاد پر پھنچ جائیے ایسی صورت میں خود بخود تقلید حرام ھو جائے گی ، اور اگر اجتھاد نھیں کر سکتے تو احتیاط پر عمل کر لیجئے ، یعنی اس طرح عمل کیجئے کہ تمام احتمالات کو جمع کر لیجئے اور آپ کو فراغت یقینی حاصل ھوجائے ۔
یقینا اجتھاد اور احتیاط ، یہ دونوں راستے ایک عام انسان کے لئے ھرگز آسان نھیں ہے ، اسی خداوند عالم شریعت سمحہ السھلہ میں اس مقام پر عام لوگوں کے لئے خاص شرائط کے ساتھ تقلید کو جائز قرار دیا ہے ۔
تقلید کے جواز اور اس کے شرائط کے شریعت میں بھت دلائل ہیں من جملہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی یہ مشھور و معروف حدیث جس کے ایک ایک فقرہ میں غور کرنے سے معلوم ھو جاتا ہے کہ کس کی تقلید کی جا سکتی ہے ، کون تقلید کر سکتا ہے ، حدیث کے الفاظ ہیں : فاما من کان من الفقها حافظا لدینه مخالفا لهواه مطیعا لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه۔
کس کی تقلید کی جائے ؟ پھلی شرط یہ ہے وہ فقیہ ھو ، صرف معمولی عالم نھیں بلکہ فقیہ ھو یعنی صاحب نظر اور مجتھد ھو ، صرف دین کا علم پڑھ نہ لیا ھو بلکہ دین کو استنباط کے ذریعہ حاصل کیا ھو ، پھر من الفقها کی تعبیر سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ھر فقیہ کی بھی تقلید نھیں کی جاسکتی ، بلکہ فقاھت کے علاوہ اس اور بھی شرائط پائے جانے چاھئے ، حافظا لدینه ، مخالفا لهواه ، مطیعا لامر مولاه یہ تمام شرائط سے پتہ چلتا ہے کہ علمی صلاحیت سے زیادہ اخلاق اور کردار سے مرتبط شرائط زیادہ ہیں ، صرف علمی صلاحیت بلکہ محض علمی برتری کافی نھیں بلکہ وہ فقیہ دین کا محافظ بھی ھو ، اسی کے اندر ، شجاعت ، تدبیر، ھر میدان میں فعال ، اور جملہ تمام قائدانہ صلاحیتیں پوشیدہ ہیں ، مخالفا لهواه ، مطیعا لامر مولاه میں تذکیہ نفس اور اطاعت میں اپنے مولا کے ھمراہ ھونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ، تو جس میں یہ تمام شرائط پائے جاتے ھوں ، بس اسی کی تقلید کی جا سکتی ہے ۔ فللعوام ان یقلدوه میں عوام سے پھلے سے پتہ چلتا ہے کہ عوام پر تقلید ضروری ہے ۔
عقل کا بھی یھی فیصلہ ہے جب آپ مریض ھوتے ہیں آپ کی عقل کیا کھتی ہے کہ آپ کس کے پاس رجوع کریں انجینئر کے پاس، بقال کے پاس یا ڈاکٹر کے پاس؟ ظاھر ہے کہ عقل ڈاکٹر کے پاس جانے کا حکم کرتی ہے۔ جب انسان خود شریعت سے واقف نہ ھو اور جھنم میں جانے سے بچنے کے لیے شریعت پر عمل کرنا چاھتا ھو تو مسائل پوچھنے کے لیے کس کی طرف رجوع کرے؟ عالم دین کی طرف یا جاھل کی طرف؟ عقل سلیم یھی کھتی ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے جو دین کے احکام میں واقف ھو اور عالم دین ھو۔ وہ عالم دین یا خود دین میں اسپیشلسٹ ھو گا یا کسی اسپیشلسٹ کے نسخے کو بتائے گا اسی اسپیشلسٹ کو مجتھد کھتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے کو تقلید ۔

 

Add comment


Security code
Refresh