www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

401480
سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۵۴ میں ارشاد ھوا ہے: "ومکروا مکراللہ واللہ خیرالماکرین " اور یھودیوں نے عیسی سے مکاری کی تو اللہ نے بھی جوابی مکاری کی، خدا بھترین مکر کرنے والا ہے -"
کیا اس آیہ شریفہ میں خدا وند متعال اپنی مکاری کے بارے میں فخر سے بات نھیں کرتا ہے؟ کیا مکاری ایک بری چیز نھیں ہے؟
جواب
اس آیہ شریفہ میں مکر الھی کی مراد کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عربی ادبیات میں مکر الھی کے کیا معنی ہیں؟
عربى لغت میں "مکر" کا لفظ موجوده فارسی ادبیات میں استعمال ھونے والے لفظ "مکر" سے کافی فرق رکهتا ہے- کیونکه آج کل کی فارسی زبان میں "مکر" شیطانی اور نقصان ده سازشوں کو کھاجاتا ہے، جبکہ عربی ادبیات میں ھر قسم کی چارہ اندیشی اور تدبیر کو مکر کھا جاتا ہے-
مفردات را غب میں آیا ہے کہ: "المکر صرف الغیر عمایقصد"﴿١﴾ "مکر کے معنی کسی کو اس کی مراد سے روکنا ہے" خواہ اس کی مراد اچهی ھو یا بری-
اس بناء پر قرآن مجید میں استعمال ھوئے لفظ "مکر" کے وہ معنی نھیں ہیں، جو فارسی میں اس لفظ کے نقصان دہ شیطانی سازشوں کے معنی ہیں بلکہ عربی ادبیات میں یہ نقصان دہ سازشوں کے بارے میں بھی استعمال ھوتا ہے اور اچهی تدبیروں کے بارے میں بھی استعمال ھوتاہے-
اس وجہ سے قرآن مجید میں کبھی "ماکر" لفظ "خیر" کے ساتھ بیان ھوا، جیسے: "ومکروا مکراللہ واللہ خیرالماکرین"﴿۲﴾"خداوند متعال بھترین تدبیر کرنے والاہے" اور کبھی لفظ مکر لفظ "سیئ" کے ساتھ آیا ہے، جیسے: ولا یحیق المکر السیئ الا باهلہ"﴿۳﴾ "برا نقشہ اور تدبیر کرنے والے کوھی اس کا نقصان پھنچے گا"
زیر بحث آیہ شریفہ میں "مکر" کو خداوند متعال سے نسبت دینے کے معنی یہ ہیں کہ دشمن، یعنی "عیسائی" اپنے شیطانی منصوبوں کے ذریعہ اس الھی دعوت میں رکاوٹ ڈالنا چاھتے تهے، لیکن خداوند متعال نے اپنے پیغمبر ﴿ص﴾ کی جان کے تحفظ اور دین کی ترقی کے لئے تدبیر کی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادیا-﴿۴﴾
اس معنی کی بنا پر مکر ھمیشہ اور ھر موقع پر بری چیز نھیں ھوتی ہے-
اس لفظ کو خداوند متعال سے نسبت دینا نقصان دہ سازشوں کو نا کام بنانے کے معنی میں ہے، اور جب یہ لفظ مفسدین کے بارے میں استعمال ھوتا ہے تو اس کے معنی اصلاحی پروگراموں میں رکاوٹ ڈالنا ھوتا ہے۔﴿۵﴾
حوالہ:
١۔ المفردات فی غریب قرآن، ص:۷۷۲۔
۲۔ آل عمران، ۵۴۔
۳۔ فاطر، ۴۳۔
۴۔ تفسیر نمونہ، ج۲، ص: ۵۶۷ و ۵۶۶۔
۵۔ تفسیر نمونہ، ج۱۵، ص:۴۹۸۔

Add comment


Security code
Refresh