www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

903552
ابن زیاد کو اس کے شھر میں پھیلے ھوئے مخبر اطلاع دیتے ہیں بنت علی کے آتشیں خطبوں کی بدولت کوفے کے لوگ حقائق کی تہہ تک پھنچ رھے ہیں... حکومت کے خلاف کبھی بھی بغاوت ھو سکتی ہے ، لوگ اپنے کئیے پر پشیمان ہیں اور سلیمان بن صرد خزاعی جیسے لوگ عملی توبہ کی صورت قاتلین امام حسین علیہ السلام کے خلاف قیام کی منصوبہ بندی کر رھے ہیں ۔
ابن زیاد شاطر زمانہ رہ چکے زیاد بن ابیہ کا بیٹا ہے تیز طرار ہے جوان ہے اور آنے والے خطرہ کو بھانپنا اس کی وہ خصلت ہے جس کے سب معترف ہیں سمجھ رھا ہے کہ دیر یا زود سید الشھداء کا کربلا کی زمین پر گرنے والا لھو زنجیر بن کر اسے جکڑ لیگا اور کوئی راہ فرار نہ ھوگی لھذا اپنے مشیروں کے ساتھ بیٹھتا ہے پریشان ہے، گھبرایا ھوا ہے حکومت تو ھاتھ سے پھسلتی صاف صاف دکھ ھی رھی ہے ساتھ ھی یہ بھی نظؓر آ رھا ہے کہ کس طرح انتقام حسینی کے شعلے اسے جلا کر راکھ کر دیں گے کوئی چارہ کار تلاش کرناضروری ہے.
دیکھتا ہے کہ پسر سعد دربار میں موجود ہے ۔سمجھ گیا حکومت رے کا پروانہ لینے آیا ہے ۔ ابن زیاد کی مکاریوں سے واقفیت برملا کرتی ہے کہ اسکے ذھن میں کیا چل رھا ہے '' بھت خوب کچھ ایسا کرتا ھوں کہ یہ پسر سعد مجرم قرار پائے اور قتل حسین کا دھبہ میرے دامن پر نہ آنے پائے اور ہے بھی ایسا ھی میں تو کوفہ میں تھا حسین کے مقابل قرار پانے والے لشکر کا سردار تو عمر سعد ھی تھا اور اسی نے جنگ کا فرمان صادر کیا تھا اسی کی فوج نے حسین کے ۷۲ جانثاروں کو چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دیا ،اور یہ کوفی لوگ تو بھت سادے ہیں جسکی حکومت ھوتی ہے اس کی بات مانتے ہیں اور ڈرتے بھی اسی سے ہیں اس سے پھلے کہ پسر سعد اپنے پیر اور مضبوط کرے ضروری ہے کہ اسے ھی اپنی سپر بنالیا جائے میں ایسا کر سکتاھوں کہ لوگوں میں یہ مشھور کرادوں کہ عمر سعد نے حکومت کی خاطر ملک ری کی خاطر میرے حکم سے سرپیچی کرتے ھوئے میرے منع کرنے کے باجود حسین و اصحاب حسین کو کربلا میں شھید کر دیا جبکہ میں آخری وقت تک صلح کا خواھاں تھا لیکن...... یہ تو تب ھوگا جب میرے خلاف کوئی ایسا ثبوت نہ ھوجس سے ثابت ھوتا ھو کہ قتل حسین کا حکم نامہ میں نے ھی صادر کیا تھا ، ماتھے پر پسینہ کے قطرے ہیں وجود لرز رھا ہے اب کیا ھو؟
حکم تو میں نے ھی دیا تھا میں نے ھی تو وہ مکتوب پسر سعد کو لکھا تھا کہ اگر اس نے یہ کام انجام دیا تو اسکے عوض حکومت رے کا مالک ھوگا ، نھیں تو یزید بن معاویہ کی جانب سے حکومت ری کے وعدہ پر مشتمل تحریر واپس کر دے تو کیا بھتر ھوگا کہ پسر سعد سے یھی حکم نامہ لے لیا جائے اور قتل حسین کا اصل مجرم قرار دے کر خود کو بچا لیا جائے اسکا مطلب ہے اگر یہ حکم نامہ میرے ھاتھ میں آ جائے تو کوفیوں کے وجود میں پلنے والے جذبہ انتقام سے خود کو بچا سکتا ھوں ۔
ھاتھ میں شراب کا جام لئیے نظریں پسر سعد پر پڑتی ہیں دربار میں آواز گونجتی ہے مرحبا فاتح ایران کے بیٹے لشکر اسلام کے عظیم سورما سعد ابن ابی وقاص کے شجاع بیٹے ابن سعد آو مل کر تمھاری کامیابی کا جشن مناتے ہیں آو خوشی کا موقع ہے ھر طرف تمھاری بھادری کے چرچے ہیں مل کر کچھ جام پتیے ہیں.
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جاموں کو ٹکرا کر منھ سے لگاتے ہیں ابن زیاد پسر سعد سے نزدیک ھوتا ہے ، سرگوشی ھوتی ہے میں نے تمھیں جو حکومت ری کے وعدہ کے ساتھ قتل حسین پر مشتمل حکم نامہ دیا تھا وہ ہے تمھارے پاس ؟
ذرا مجھے دے دو اس کی ضرورت ہے ؟ جیسے ھی یہ بات پسر سعد کے کانوں میں پڑتی ہے جام ھاتھوں سے گر جاتا ہے یہ تو بعینہ وھی بات ہے جو میں سوچ رھا تھا میں نے بھی تو یھی سوچا ھوا تھا کہ کوفے میں ھمارے خلاف ھوتی ھوئی رائے عامہ کبھی بھی ایسی بغاوت کی شکل اختیار کر سکتی ہے کہ ھمارا وجود خطرے میں پڑ جائے میرے ذھن میں بھی تو یھی خیال تھا کہ حکومت رے کا پروانہ ملتے ھی سیدھا نکل جاؤنگا اس سر زمین سے جھاں کے لوگوں کا پتہ نھیں کب کس کو حکومت پر بٹھا دیں کب کسے نیچے گرا دیں کب کس کی بیعت کریں کب بیعت توڑ دیں ایسے میں عافییت تو اسی میں ہے کہ یھاں سے بھت دور ملک رے کی طرف نکل لیا جائے اور جاتے جاتے ابن مرجانہ کا قتلِ حسین پر مشتمل حکم نامہ سرداران قبائلِ کوفہ کو دکھایا جا سکے کہ اصل قتل حسین کا حکم دینے والا یھی ہے اور میرے پاس تو اتنے گواہ بھی ہیں جو گواھی دے سکیں کہ آخر وقت تک میں اس کام سے پیچھے ھٹ رھا تھا لیکن ابن زیاد ھی کے اصرار کی وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ھوا لیکن اب پسر سعد کے پیروں سے زمین کھسکنے لگتی ہے جس حکم نامہ کی بنیاد پر وہ کوفے سے محفوظ باھر نکل سکتا ہے وھی حکم نامہ ابن زیاد کے ذھن میں بھی چل رھا ہے ۔
گوکہ مکار ھی مکار کی حیلہ گری میں گرفتار ھوتا ہے اپنے آپ پر قابو پاتے ھوئے کھتا ہے: لیکن امیر وہ حکم نامہ جو تم نے مجھے دیا تھا جنگ کے دوران کھیں مجھ سے گم ھو گیا ....۔
ابن زیاد کی آواز گونجتی ہے پسر سعد وہ حکمنامہ مجھے ھر حال میں چاھیے ،ابن زیاد کی سفاکیت سے واقف ہے پسر سعد اس سے پھلے کہ انتقام حسینی کے خونین طوفان میں غرق ھو ابن مرجانہ کی حیلہ گری کا شکار ھو سکتا ہے لھذا پینترا بدلنے میں ھی عافیت ہے امیر ، کوشش کرتا ھوں کہ کھیں سے ڈھونڈ نکالوں اور تیری خدمت میں پھنچاوں میں نے شاید کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیا تھا لیکن ابھی یاد نھیں؟ .
ابن زیاد کی آواز.... جیسے بھی ھو یہ حکم نامہ مجھے فورا چاھیے!
ٹھیک ہے امیر! اجازت دے کہ فورا اسے جا کر تلاش کروں ...۔
جاو جھاں ملے لے کر آو...(۱﴾
عمر سعد ایک ھارے ھوئے جواری کی طرح قصر سے باھر نکلتا ہے اسے گندم تو کیا وہ جو بھی نھیں مل سکی(۲) جسکی خاطر اس نے اتنا بڑا جرم انجام دیا اسے اچھی طرح پتہ چل چکا ہے حکومت ری اور اس کی ذات کے درمیان بھت فاصلہ ہے اور قتل حسین جیسی جسارت بھی اسے ری تک نھیں پھنچا سکتی ۔
وہ سوچ رھا تھا کتنی جلدی حسینؑ کی بدعاء قبول ھو گئی(۳) اوردنیا کی حقیقت اس کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کے پانی کی صورت واضح تھی اسے اس حقیقت کا علم ھو چکا تھا کہ ملک رے کو اسے بھول ھی جانا چاھیے۔ یہ تو دنیا و آخرت دونوں ھی میں گھاٹے کا سودا ھو گیا وہ بھی کتنا گھاٹے کا پسر سعد سرجھکائے کوفہ کی طرف نکل پڑا ملک ری اس کی پھنچ سے دور تھابھت دور اور اگر نزدیک بھی ھوتا تو اس لائق نہ تھا کہ نواسہ رسول کے قتل کا سودا اس سے کیا جاتا ادھار ونقد کے چکر میں پڑ کر وہ کتنا خسارہ کا سودا کر بیٹھا تھا یہ اسکے تھکے ھوئے ان بوجھل قدموں سے سمجھا جا سکتا ہے جو آگے بڑھاتا وہ جھنم کی سمت رواں تھا اور اس کے پاس اب کوئی اور راستہ نھیں تھا بس ایک ھی راستہ تھا جو جھنم کی طرف جا رھا تھا اور اسی راستہ پر اسے اسی دنیا میں ایک مختار سے بھی روبرو ھونا(۴) تھا اور اسی دنیا میں ایک مختار کے جھنم سے گزر کر دائمی جھنم کا سفر طے کرنا تھا۔
پسر سعد کے جھنم کی طرف بڑھتے قدم ان تمام لوگوں کے لئیے عبرت ہیں جو سلاطین زمانہ و حاکمان وقت کو خوش کرنے کی خاطر اپنے ضمیر کو تھپک کر سلا دیتے ہیں اور جب ضمیر بیدار ھوتا ہے تب بھت دیر ھو چکی ھوتی ہے سامنے کسی مختار وقت کی تلوار ھوتی ہے اس کے آگے لپکتے ھوئے جھنم کے شعلے کتنا گھاٹے کا سودا یہ ہے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی:
۱ ۔ قال عبید اللہ لعمر: ائتنی بالکتاب الذی کتبتہ الیک فی معنی قتل الحسین و مناجزتہ،فقال: ضاع، فقال لتجیئتنی بہ، اتراک معتذرا فی عجائز قریش " مثیر الاحزان، ابن نما ص ۸۸ ۔
۲ - جب سید الشھدا نے پسر سعد سے کھا کہ تجھے حکومت تو کیا گندم بھی کھانا نصیب نہ ھوگا تو اس نے جواب دیا کہ میرے لئیے جو ھی کافی ہے. اسے حکومت ری نے بدحواس کر دیا تھا کہ یہ اشعار پڑھا کرتا: أترک ملک الری و الری منیة ام ارجع مذموما بقتل حسین وفی قتله النار اللتی لیس دونها حجاب و ملک الری قره عین . ،ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۹۲-۹۳.خوارزمی، مقتل‌الحسین، ج۱، ص۲۴۵.
۳-فَاِنَّكَ لا تَفْرَحُ بَعْدِي بِدُنْيا وَلااخِرَةٍ... ذَبِّحَكَ اللَّهُ عَلي فِراشِكَ عاجِلاً اِنِّي لاَرْجُو اَنْ لا تَأَكُلَ مِنْ برِّ العراق اِلا يسيراً». الامامة والسياسه، ج 2، ص 24
۴- بعض روایات کےبموجب پسر سعد ۹ ربیع الاول جناب مختار کے ھاتھوں واصل جھنم ھوا. مجلسی، زاد المعاد، ص۲۵۸۔

Add comment


Security code
Refresh