www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

322002
بچپن سے علماء وذاکرین سے یہ حدیث سنی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی کاحد درجہ احترام کرتے [1]آپ نے اپنی بیٹی کے لئے فرمایا فاطمہ میرا پارہ جگر ہے اس کو اذیت دینے والا میری اذیت کا سبب ہے [2] اسکی مرضی خدا کی مرضی اور اس کے غضب سے خدا غضبناک ھوتا ہے[3]، تھوڑا فھم و شعور آیا تو ذھن سوچنے پر مجبور ھو گیا ایسے کیوں کر ممکن ہے کہ کوئی ذات محور رضائے پروردگار ھو اس کی رضا و ناراضگی پر خدا کی رضا و ناراضگی موقوف خدا کے نزدیک اتنا بڑا مقام کسی کو یوںھی تو حاصل نھیں ھو سکتا کیا وجہ ہے کہ جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی ذات محور رضائے الھی قرار پائی؟
اسی سوال کی جستجو نے کسی زنجیر کے حلقوں کی صورت میرے سامنے ایسے شواھد کے انبار لگا دئے جن پر غور میرے سوال کے جواب اور میری تشفی و تسلی کا سبب بنا ممکن ہے کسی اور زاویے سے آپ کے بھی کسی اور سوال کا جواب مل جائے اس لئے اپنی جستجو کا حاصل آپ کے ساتھ شیئر کر رھا ھوں بس گزارش ہے کہ آخر تک میرے ساتھ رھیں ۔۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک دن ایک کنیز کے ساتھ گھر میں داخل ھوئے کنیز کا ھاتھ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ھاتھ میں دیا اور فرمایا: بیٹی یہ کنیز آج سے تمھاری خدمت کرے گی یہ نماز کی پابند ہے تمھارے لئے بھتر ھوگی اس کے بعد کنیز کے حقوق کے سلسلہ سے کچھ نصیحتیں فرمائیں بی بی نے اپنے بابا کو دیکھا اور کھا بابا آج سے گھر کے کاموں کو تقسیم کر لیا ایک دن کا کام آپ کی بیٹی کرے گی اور ایک دن کا کام یہ کنیز [4]پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اللہ (ھی) بھتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کھاں رکھے‘‘[5]
فضہ گھر کی کنیز تھی بی بی کی معرفت بھی تھی شان و منزلت اھلبیت ع سے بھی واقف تھی لیکن بی بی نے گھر کا کام بانٹا ھوا تھا ایک دن فضہ کام کرتی ایک دن بی بی دو عالم سلمان فارسی کھتے ہیں ایک دن میں نے دیکھا کہ بی بی دوعالم بچوں کو سنبھالے چکی پیس رھی ہیں جبکہ ھاتھ زخمی ہے اور اس سے خون جاری ہے میں نے کھا بی بی آپ کے پاس فضہ ہیں پھر آپ ان سے کام کیوں نھیں لیتیں جواب دیا فضہ کی باری کل تھی جو گزر گئی آج میری باری ہے۔ [6]
عبادت کے لئے فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا اھتمام یہ تھا کہ عبادت کی جگہ معین تھی مصلی معین تھا پوری تیاری و انھماک کے ساتھ عبادت کرتیں مستحبات پر خاص توجہ ھوتی اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمایا: اسماء مجھے وہ عطر لا دو جو میں ھمیشہ لگاتی ھوں اور وہ لباس لا دو جس میں نماز پڑھتی ھوں اور میرے سرھانے بیٹھ جاو اگر مجھ پر غنودگی طاری ھو تو مجھے اٹھا دینا اور اگر تمھارے اٹھانے سے نہ اٹھ سکوں تو علی کو خبر کر دینا۔ [7]
عبادت کے سلسلہ سے خاص اھتمام کے باوجود اپنے بابا کا اتنا خیال رھتا کہ ایک دن نماز مستحبی میں مشغول تھیں جیسے ھی بابا کی آواز سنی نماز کو چھوڑ دیا دوڑی ھوئی بابا کے پاس آئیں سلام کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب ِ سلام دیا اور سر پر ھاتھ پھیرا اور یوں اپنے ھاتھوں کو اٹھا کر اپنی بیٹی کے لئے دعاء کی بارالھا اس بچی پر اپنی رحمت و غفران نازل فرما۔ [8]
ایک دن جناب سلمان فارسی سے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھا سلمان: یہ اعرابی ابھی نیا مسلمان ھوا ہے بھوکا ہے ،اس کے لئے کھانے کا انتظام کرو، جناب سلمان فارسی نے سیدھا در علی کا رخ کیا شاید جانتے تھے کہ کھیں ملے نہ ملے لیکن در علی سے خالی ھاتھ واپس نھیں پلٹوں گا ،دروازہ پر پھنچے دق الباب کیا اپنا مدعا بیان کیا علی گھر پر نھیں تھے چنانچہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے آنے کا سبب دریافت کیا سلمان نے جواب میں بتایا : آپ کے بابا نے کسی اعرابی کے کھانے کا انتظام کرنے کو مجھ سے کھا تھا اس لئے حاضر ھوا ھوں۔ جواب ملا سلمان خدا کی قسم گھر میں کچھ بھی نھیں ہے ،حسن و حسین کو میں نے ابھی ھی بڑی مشکل سے بھوکا سلایا ہے ،لیکن سلمان گھر میں آئے سبب خیر کے لئے کیونکر رکاوٹ بنوں جبکہ خیر و نیکی خود چل کر میرے گھر آئی ھو ؟ پھر فرمایا: سلمان یہ میرا لباس ہے اسے شمعون{ مدینہ میں رھنے والا ایک یھودی جو بعد میں مسلمان ھو گیا } کے پاس لے جاو اور اس کے بدلے خرما اور جو لے آو ۔سلمان لباس لیکر شمعون کے پاس پھنچے ، ماجرا بیان کیا جب شمعون کو پتہ چلا لباس دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے اور گھر میں کھانے پینے تک کو کچھ نھیں ہےتو بے ساختہ اس کے منھ سے یہ جملے نکلے:اسے کھتے ہیں زھد یہ تو وھی کیفیت ہے جس کے بارے میں تورات میں کھا گیا ہے اس کا مطلب فاطمہ سلام اللہ علیھا جس خدا کو مانتی ہیں وھی برحق ہے اور فورا کھا سلمان ''اشھد ان لا الہ الاللہ وان محمد رسول اللہ ''،یہ کہہ کر خرما اور جو جناب سلمان کے حوالے کر دیا سلمان خوشی خوشی لیکر آئے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو دیا بی بی نے نو مسلم اعرابی کے لئے اپنے ھاتھوں سے جو کو پیسا اس کا آٹا بنایا اور پھر خمیر تیار کر کے روٹیاں تیار کیں اور سلمان کے حوالے کر دیں جناب سلمان نے چلتے چلتے کھا بی بی آپ بھی ان میں کچھ روٹیاں اپنے لئے رکھ لیں ،حسنین بھی تو بھوکے ہیں بی بی سلام اللہ علیھا نے جواب دیا : جو چیز ھم راہ خدا میں دے دیتے ہیں اس میں تصرف نھیں کرتے۔ [9]
سلمان ھی سے نقل ہے کسی کام سے فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے گھر گیا تو محسوس کیا کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا چکی پیس رھی ہیں ساتھ ھی تلاوت قرآن بھی کرتی جا رھی ہیں۔
اکثر ایسا ھوتا کہ بچے رات کی تاریکی میں آپ کو گریہ کرتے پاتے دیکھتے کہ ماں عبادت میں مشغول ہے اکثر ایسا بھی ھوتا کہ رات کا ایک تھائی حصہ گزر جانے کے بعد ماں بچوں کو نیند سے اٹھاتی کہ اب وقت عبادت ہے۔ [10]
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک شبِ جمعہ میں نے اپنی مادر گرامی کو تا صبح محراب عبادت میں اپنے معبود سے راز و نیاز کرتے پایا میں طلوع آفتاب تک اپنی مادر گرامی کو کبھی رکوع میں دیکھا تو کبھی سجود میں میں نے دیکھا مادر گرامی نے خدا سے رازو نیاز کے ساتھ سب کے لئے دعاء کر رھی ہیں تو سوال کیا مادر گرامی اپنے لئے کیوں نھیں دعاء کی جواب ملا بیٹے پھلے پڑوسی پھر ھم۔ [11]
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں اس قدر میری ماں عبادت کرتیں کہ پیروں پر ورم آجاتا [12]
اپنے والد کےساتھ اس قدر مھربان کے حضور ص تعظیم کو کھڑے ھو جاتے جب سورہ نور کی ۶۳ ویں آیہ کریمہ نازل ھوئی[13] تو فاطمہ علیھا السلام کو شرم محسوس ھوئی کہ اس آیت کے نزول کے بعد اپنے بابا کو بابا کہہ کر پکاریں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آواز دے کر اپنی بیٹی کو بلایا اور کھا بیٹا تم نے اپنے بابا کو بابا کھنا کیوں چھوڑ دیا ہے یہ جو آیت نازل ھوئی ہے تمھارے لئے نھیں ہے مجھے پسند ہے کہ تم مجھے بابا کہہ کر پکارو تم مجھ سے ھو اور میں تم سے ھوں تم بابا کھو کہ تمھارا مجھے اس طرح پکارنا میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور خدا کی خوشنودگی کا سبب ہے۔ [14]
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت دلھن کا مخصوص لباس ھدیہ کیا ،ایک دن کوئی سائل آیا جس کے پاس لباس نھیں تھا آپ نے شادی والا لباس سائل کو دے دیا جب پیغمبر ص آپ کے گھر آئے تو دیکھا بیٹی کو دیا ھوا لباس تن پر نھیں اور فاطمہ سلام اللہ علیھا پرانا لباس پھنے ہیں کھا بیٹا تمھارا لباس کھاں گیا جو بابا نے تمھیں لا کر دیا تھا جواب دیا بابا ایک بار ایک سائل آپ کے پاس آیا تھا تو آپ کے پاس ایک ھی لباس تھا آپ نے سائل کو دے دیا اور خود حصیر اوڑھ کر گزارا کیا میں نے چاھا کہ آپ کے عمل کی تاسسی کرتے ھوئے ایسا کچھ کروں کہ آپ سے مشابہہ ھو جاوں بعض نے لکھا کہ بی بی نے کھا بابا میں نے چاھا کہ اس آیت پرعمل کروں جس میں بیان کیا گیا کہ تم اس وقت نیکی تک پھنچ ھی نھیں سکتے جب تک وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دو جو تمھیں محبوب ہے ۔[15]
شادی کے دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ جواب دیا : اطاعت الھی میں اپنا بھترین معاون و مدد گار ۔[16]
علی کھتے ہیں : فاطمہ سلام اللہ علیھا جتنے دن میرے گھر رھیں کوئی ایسا لمحہ نہ آیا کہ میری رنج کا سبب بنتا ، کسی کام پر مجھے بی بی نے مجبور نھیں کیا کبھی کسی بات پر مجھے پریشان نہ کیامیری مرضی کے خلاف کبھی قدم نھیں اٹھایا جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو دیکھتا میرے سارے غم ختم ھو جاتے۔ [17]
علی علیہ السلام کے گھر آنے کے بعد کبھی نہ کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ھی کسی چیز کی خواھش ظاھر کی بلکہ سخت ترین ضرورت کے وقت بھی جب گھر میں کچھ نہ تھا تب بھی آپ نے اپنے شوھر سے نہ کھا کہ علی گھر میں کچھ نھیں ہے کچھ انتظام کردیں بلکہ جب امام علی علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ گھر میں کچھ نھیں ہے تو خود ہے سوال کیا بی بی آپ نے مجھے کیوں نھیں بتایا کہ گھر میں کچھ نھیں ہے تو اس کے جواب میں بی بی دو عالم فرمایا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں کسی ایسے کام کو کہہ دوں جسے آپ انجام نہ دے سکیں۔ [18]۔
بچوں کو ایسا ماحول فراھم کیا کہ ہر وقت گھر سے تلاوت قرآن و تسبیح کی آوازیں بلند رھتیں اس کے باوجود بچوں سے تاکید کرتیں کہ مسجد میں جاکرسنا کرو کہ نانا نے کیا کھا اور جب بچے واپس پلٹتے تو سوال کرتیں تم نے کیا سنا اپنی ماں کو بتاو ،کبھی اپنے بچوں کو بابا کی طرح بننے کی تلقین یوں کرتیں بیٹا اپنے بابا کی طرح حق کے گردن میں پڑی ریسمان ظلم کو کاٹ دینا کبھی ظالموں کےساتھ نہ رھنا ۔[19]
گھر میں کھانا بھت کم تھا اور رات میں مھمان نے دق الباب کیا بی بی نے علی سے فرمایا کھانا تو بس اتنا ہے کہ بچے کھا سکتے ہیں لیکن میں انھیں سلا دیتی ھوں کہ مھمان ھم پر مقدم ہے ، کھانا لگ گیا اور مھمان نے سیر ھو کر کھایا ،رات یوں گزری کہ گھر میں رھنے والا مھمان سیر ھو کر سو رھا تھا باقی گھر والے بھوکے تھے[20] فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اس عمل پر آیت نازل ھوئی (یہ مال فیٔ) ان غریب مھاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یھی لوگ سچے ہیں۔ [21]،
بچے شدید مریض ھوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عیادت کے لئے تشریف لائے امام علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ھوئے فرمایا : علی نذر مان لو کہ جب بچے اچھے ھو جائیں گے تو تین دن روزہ رکھو گے پورے گھر نے نذر مان لی بچوں کو شفا ملی گھر میں کچھ نہ تھا علی کھیں سے مختصر سی جو لے کر آئے کہ افطاری ھو سکے جو کو پیسا گیا اور جب اسے خمیر کر کے پکایا گیا تو کل پانچ روٹیاں بن سکیں ایک گھر کی کنیز فضہ کے لئے دو بچوں کی اور ایک ایک علی و فاطمہ کی وقت افطار نزدیک آیا دسترخوان پر سادہ پانی اور جو کی روٹیاں ہیں ابھی افطار کرنے کا ارادہ ھی تھا کہ سائل کی آواز آئی : آئے اھلبیت پیغمبر مسکین ھوں کچھ کھانامل سکتا ہے ؟
سب نے اپنےاپنے حصے کی روٹیاں دے دیں مسکین خوش ھو کر چلا گیا افطار پانی سے ھو گیا اور دوسرے دن پھر سب روزے سے تھے علی نے پھر جو کا انتظام کیا پھر پانچ روٹیاں وقت افطار دسترخوان پر سجی تھیں افطار کرنے سب بیٹھے کے پھر سائل کی آواز یتیم ھوں کچھ کھانے کو نھیں ہے سب نے اپنا اپنا حصہ بشمول کنیز فضہ پھر یتیم کو دے دیا اور پانی سے افطار ھو گیا تیسرے دن پھر یھی ماجرا پھر دسترخوان پر پانچ روٹیاں اور نزدیک افطار کسی سائل کی آواز لیکن اب کی بار نہ تو مسکین نہ ھی یتیم بلکہ کوئی اسیر جو بھوکا تھا سب نے پھر اپنا اپنا حصہ دے دیا اور پانی سے افطار کیا جب صبح ھوئی تو حسن و حسین علیھما السلام کا ھاتھ پکڑ کر علی پیغمبر کے پاس آئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بچوں کو دیکھا چھروں کا رنگ زرد اور بھوک کی شدت سے لرز رھے تھے علی ع سے کھافورا گھر چلو گھر آئے دیکھا بی بی دو عالم محراب عبادت میں مشغول عبادت ہیں جبکہ آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ھوئے ہیں پیغمبر یہ حالت دیکھ کر بھت مغموم ھوئے اسی وقت جبرئیل امین نازل ھوئے : ائے میرے حبیب ایسے اھلبیت کے حامل ھونے پر خدا مبارکباد پیش کرتا ہے[22] اور اس کے بعد یہ آیت تلاوت کی [23]
یہ تو چند ایک نمونے تھے تاریخ کے جو میں پڑھ رھا تھا اور میرے سامنے فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا سراپا تھا کھیں ، بچوں کو سنھبالے ،کھیں چکی پیستی ، کھیں علی کے غموں کو سنتی کھیں کسی کی مدد کرتی ، کھیں کسی کو کھانا کھلاتی فاطمہ کی صورت جو مجھ سے کہہ رھا تھا کہ میں یوں ھی فاطمہ نھیں ھوں میرے درجہ کی بلندی و رفعت کے پیچھے ، بھوک ہے پیاس ہے ، عزم پیھم ہے ،سعی مسلسل ہے ، ضبط غم ہے تحمل ہے ، صبر ہے ،مسلسل عبادتوں کی بنا پر پیروں پر ورم ہیں ، انسانیت کا درد ہے ، راہ ولایت میں شکستہ پہلو ہے ، بازوپر نیل کے نشاں ہیں ، ٹولی پسلیاں ہیں مجھے یہ راز سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ذات حق میں جتنا خود کو فنا کر دوگے اتنا ھی بلندی حاصل کر لوگے ،لیکن کچھ بلندیاں ایسی ھوتی ہیں جن سے ھم آگے بڑھنے کا حوصلہ تو حاصل کر سکتے ہیں خود ان کو چھونا ھمارے بس کی بات نھیں کہ ھم خاکی ہیں اور یہ بلندیاں ان لوگوں کے لئے ہیں جو نورانی تھے لیکن پیکر خاکی میں ھماری رھنمائی کر رھے تھے ، البتہ اس کا مطلب یہ بھی نھیں کہ ھم تھک ھار کر بیٹھ جائیں اور یہ سوچیں کہ ھمارے بس کی بات ھی نھیں اس کے برعکس فارسی کھاوت شاید بھتر طور پر ایسے حالات میں ھماری ذمہ داری کی طرف اشارہ کر رھی ہے کہ ، آب دریا را اگر نتوان کشید. هم به قدر تشنگی باید چشید.پتہ نھیں آپ کو جواب ملا یا نھیں لیکن مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا کہ فاطمہ کیوں فاطمہ تھیں ، فاطمہ اپنے خلوص ، اپنے ایمان ، راہ حق میں جذبہ قربانی ،راہ ولایت میں اپنا سب کچھ لٹا دینے کی بنیاد پر فاطمہ تھیں ، فاطمہ اس لئے فاطمہ تھیں کہ اپنی نیت و اپنے عمل میں یکتائے روز گار تھیں ایک انتخاب پروردگار تھیں فاطمہ اسی لئے فاطمہ تھیں کہ ان کے نفس نفس پر مرضی معبود کی چھاپ تھی ھاں فاطمہ اسی لئے فاطمہ تھیں ۔۔۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
حوالہ جات
[1] عن عائشة ام المومنین قالت و کانت اذا دخلت علی النبی قام الیھا فقبلھا و اجلسھا فی مجلسہ ،صحیح ترمذی ٢ ص ٣١٩؛:ذخائر العقبیٰ ص ۴۰
[2]فاطمۃ بضعۃ منی من اذاھا فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔ مناقب ابن شهر آشوب،ج 3،ص 332 ؛ بحار الانوار،ج 43،ص 80؛ صحيح مسلم،ج 16،ص 2؛مستدرك حاكم،ج 3،ص 173؛حلية الاولياء،ج 2،ص 40؛
[3] ۔فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغبضھا اغبضنی ۔۔۔ ا بن ابى الحديد، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 64- از چاپ 20 جلدى، صحیح بخاری ،جلد ۳ کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ ص ۱۳۴۴
[4]۔ احقاق الحق، جلد ۱۰ ، ص ۲۷۷
[5]اَللہُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۰ۭسورہ انعام ۱۲۴
[6] ۔ یبابیع المودۃ ، ص ۲۰۰، احقاق الحق، جلد ۱۰ ، ص ۲۷۶۔ دلائل الامامہ ص ۴۸، بحارالانوار ، جلد ۴۳ ص ۷۶
[7]کشف الغمہ ، جلد ۲ ص ۶۲
[8] ۔ بحارالانوار جلد ۴۳، ص ۴۰
[9] ۔ ریاحین الشریعہ ، جلد ۱ ص ۱۳۰
[10] ۔ بحار الانوار جلد ۴ ص ۱۱۵
[11] ۔ علل الشرایع جلد ۱ ص ۱۷۳، کشف الغمہ جلد ۲ ص ۱۹۳، مستدرک الوسائل، جلد ۵ ص ۲۴۴، وسائل الشیعہ ، جلد ۴ ص ۱۵۵
[12]بحارالانوار جلد ۸۵، ص ۲۵۸
[13] ۔ لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۔ تمھارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ھو، نور ۶۳
[14] ۔ولقد کنت انظر الیھا فتنکشف عنی الحموم والاحزان ، ایضا جلد ۴۳ ص ۱۳۴ بحار الانوار ، جلد ۴۳، ص ۳۳، مناقب ابن شھر آشوب ، جلد ۳ ص ۳۲۰ ، سفینۃ البحار ، جلد ۲ ص ۳۷۴
[15] ۔لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ
[16]بحار الانوار جلد ۴۳ ص ۱۱۷
[17] ۔ ایضا ، جلد ۱ ص ۳۶۳
[18] ۔ لاستحی من الھی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ ، بحار الانوار جلد ۴۳، ص ۵۹
[19]بانوی بی نشان ص ۷۲
[20]فاطمۃ بھجۃ قلب المصطفی ص ۳۵
[21]۔ لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُھٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِھِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ۸ۚ
[22]تفسیر کشاف، ۸ویں آیت کے ذیل میں
[23] ۔وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا

Add comment


Security code
Refresh