www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

655713
بعض جوان جو علمی اعتبار سے اعلی رتبہ اور مقام رکھتے ہیں، ایک خاص طرز سے لباس پھننتے ہیں، کافی بڑی ڈاڑھی رکھتے ہیں اتنی بڑی کہ کبھی کبھی وہ ان کی تضحیک کا سبب بنتی ہے ایسی ڈاڑھی کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اسلام میں خود کو آراستہ کرنے، تیار بن ٹھن کے رھنے کی بھت تاکید کی گئی ہے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ اس بندہ کو دوست رکھتا ہے جو اپنے بھائی کے پاس جانے کے لئے اپنے آپ کو آراستہ کرے ، تیار ھو : ان الله یحب اذا خرج عبده المومن الی اخیه ان یتهیا له و ان یتجمل۔ ﴿بحارالانوار، ج 76، ص 307﴾
اس طرح سے کہ معاشرہ میں انسان کے وقار میں اضافہ ھو، مثلا اپنے حلیہ کو صحیح رکھے ، بالوں کو کاٹے سنوارے، لباس پر وقار پھنے ، خاص کر خوشبو اور عطر کا استعمال کرے ۔ ۔ ۔ اور حدیث میں وارد ھوا ہے کہ عطر میں جو خرچہ بھی ھو وہ اسراف نھیں: ما أنفقت في الطيب فليس بسرف. ﴿الكافي، ج 6، ص 512 ح 16.﴾
اسی کے ساتھ ساتھ ایسا حلیہ ایسا لباس نہ اپنائے جس سے انسان کا وقار مجروح ھو ، جس سے انگشت نمائی ھو ، جو انسان کی تضحیک کا سبب بنے ، اسی طرح لباس شھرت یعنی وہ جس سے کسی بھی طرح انگشت نمائی ھو اس سے پرھیز کرے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں انسان کی ذلت کے لئے یھی کافی ہے کہ لباس شھرت پھن لے : کفی بالرجل خزیا ان یلبس ثوبا مشهرا﴿ بحارالانوار، ج 76، ص 313﴾
امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں اللہ تعالی لباس شھرت سے غضناک ھوتا ہے: ان الله یبغض شهرة اللباس. ﴿وسائل الشیعه، ج 3 ح 1 ص 354﴾
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : جو اس دنیا میں لباس شھرت پھنتا ہے خداوند عالم قیامت کے دن اس سے منھ پھیر لیتا ہے اور اسے ذلت کا لباس پھنا دیتا ہے : من لبس ثوبا مشهورا من الثیاب أعرض الله عنه یوم القیمة. ﴿مجمع الزوائد، 5/135﴾
من لبس ثیاب شهرة فی الدنیا البسه الله ثیاب الذل یوم القیامة﴿بحارالانوار، جزء 76، صفحه 314﴾
اس مقام پر ایک بھت اھم نکتہ قابل غور ہے جس سے لمبی داڑھی والی بات بھی واضح ھو جائے گی، اور وہ یہ کہ لباس شھرت کی قباحت اور تضحیک و لذت کا معیار کیا ہے ؟ کون اسے طے کرے ؟ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی پیچیدہ ھو جاتا ہے جب دنیا والے حتی ان چیزوں کو بھی باعث تضحیک سمجھتے ہیں جو واجب ہے جیسے حجاب ، داڑھی وغیرہ ۔ ۔ ۔ ایسے میں معیار کا تعین بھت ضروری ہے ۔ اور اس کے متعین کئے بغیر بات ادھوری رہ جائے گی اور لوگ غلط فھمی کا بھی شکار ھو سکتے ہیں ۔
اس مقام پر وہ معیار جو مصادر شرعیہ سے ھمیں حاصل ھوتا ہے وہ عرف متشرعہ ہے ، یعنی یہ کہ ھمیں بے دین لاابالی ایرے غیروں کی باتوں کی پرواہ نھیں کرنی ہے ، ایسوں کی نظر کا کوئی اعتبار نھیں ؛ ھمیں دیندار معاشرہ کے عرف عام کو ملحوظ نظر رکھنا ھوگا کیونکہ معیار تشخیص عرف متشرعہ ہے ۔ اب اگر عرف متشرعہ میں اس طرح کی داڑھی رکھنا عیب مانا جائے اور باعث تضحیک ھو، جس کی بنا پر کسی خاص ٹولے سے اسے نسبت دی جانے لگے تو ایسی صورت میں یقینا اسے پرھیز کرنا چاھئے ۔ ورنہ فی نفسہ تو لمبی داڑھی رکھنا حرام نھیں ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh