www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

401483
بعض روایتوں سے استفادہ ھوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سب سے پھلے سوار ھونے والا جانور طوطی یا چیونٹی تھی، آور آخری جانور گدھا تھا اور ابلیس بھی گدھے کے ساتھ کشتی میں سوار ھوا۔
ھم اس قسم کی بعض روایات کو ان کی سند کے بارے میں بحث و تحقیق کے بغیر ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
١۔ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ:" سب سے پھلا پرندہ جوحضر نوح علیہ السلام کی کشتی میں داخل ھوا، وہ طوطی تھی اور سب سے آخر میں سوار ھونے والا حیوان گدھا تھا اور ابلیس بھی گدھے کی دم کے ساتھ کشتی میں داخل ھوا"۔﴿١﴾ اس روایت میں لفظ " الدورہ" آیا ہے جس کے معنی ایک قسم کی طوطی ہے۔
۲۔ بعض منابع میں "الدورہ" کے بجائے " الذّرہ" آیا ہے، جس کے معنی " چیونٹی" ہے، کہ اس بناء پر روایت کے معنی بدل جائیں گے:
پھلا جانور جو کشتی میں سوار ھوا، " چیونٹی" تھی اور آخری گدھا تھا۔ جب حضرت نوح علیہ السلام گدھے کو لائےاور اس کا سینہ کشتی میں داخل ھوا، ( اس وقت) ابلیس نے گدھے کی دم پکڑ لی اور گدھے کے پاؤں کو کشتی میں سوار ھونے سے روکا، حضرت نوح علیہ السلام نے گدھے سے خطاب کرکے فرمایا:" افسوس ھو تم پر! کشتی کے اندر داخل ھوجاؤ۔" لیکن گدھا داخل نہ ھوسکا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کھا:" افسوس ھو تم پر ! کشتی میں داخل ھوجاؤ، اگر چہ شیطان بھی تیرے ساتھ ھو۔"
جوں ھی یہ جملہ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان پر جاری ھوا، شیطان نے گدھے کو رھا کیا اور گدھا کشتی میں سوار ھوا اور شیطان بھی اس کے ساتھ کشتی میں سوار ھوا۔﴿۲﴾
3۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:" جب حضرت نوح علیہ السلام حیوانوں کو کشتی میں سوار کر رھے تھے۔ تمام حیوان سوار ھوئے لیکن ان میں گدھا سوار نھیں ھوا۔ اس وقت ابلیس گدھے کے دو پیروں کے بیچ میں تھا۔ در نتیجہ حضرت نوح علیہ السلام نے گدھے سے خطاب کرکے فرمایا: اے شیطان! سوار ھو جاؤ، شیطان نے اس کلام کو حضرت نوح علیہ السلام سے سنا اور گدھے کی دم کو پکڑ کر گدھے کے ھمراہ کشتی میں سوار ھوا۔"﴿۳﴾
حوالہ
١۔ طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج ‏12، ص 23، بیروت، دار المعرفة، طبع اول، 1412ق؛ و با اندکی تفاوت در این منابع آمده است: ابن کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج ‏1، ص 111، بیروت، دار الفکر، 1407ق؛ بغدادی، علاء الدین علی بن محمد، لباب التاویل فی معانی التنزیل، تصحیح، شاهین‏، محمد علی، ج ‏2، ص 485، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، 1415ق.
۲۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق، ابراهیم، محمد أبو الفضل، ج ‏1، ص 184، بیروت، دار التراث، طبع دوم، 1387ق.
۳۔ قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، قصص الأنبیاء(ع)، محقق، عرفانیان یزدی، غلامرضا، ص 83، مشهد، مرکز پژوهش‌های اسلامی، طبع اول، 1409ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ‏11، ص 323، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، طبع دوم، 1403ق.

Add comment


Security code
Refresh