www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

503421
امام مھدی(عج) کے عالمی حکومتی نظام میں سب سے اھم اور کلیدی عنصر "ایمان" ہے جس سے تمام مسائل کے بند تالوں کو کھولا جاسکتا ہے۔
امام مھدی علیہ السلام کے اصحاب خاص سب کے لئے مثالی حیثیت رکھتے ہیں، وہ صاحبان کرامت ہیں اور تمام مؤمنوں کے دلوں میں رھتے ہیں۔
اصحاب امام کی کئی قسمیں: ایک قسم کے اصحاب، اصحاب خاص ہیں جن کی تعداد احادیث میں 313 بیان کی گئی ہے۔ یہ وھی لوگ ہیں جنھیں سورہ ھود کی آیت 8 میں "امۃ معدودۃ" (1) کا عنوان دیا گیا ہے۔
دوسری قسم کے صاحاب وہ ہیں جو اصحاب خاص، سپہ سالاروں اور کمانڈروں کے پھنچنے اور اکٹھے ھونے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ھوں گے اور ان کی تعداد 10 سے 12 ھزار بتائی گئی ہے؛ جب یہ حلقہ مکمل ھوگا امام کی حرکت کا آغاز ھوگا۔
تیسری قسم کے اصحاب وہ مؤمنین ہیں جو انقلاب کے شروع ھونے کے بعد ان سے جا ملیں گے اور ان کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ھوگا۔
اصحاب مھدی علیہ السلام کا مشن
احادیث کے مطابق امام زمانہ (عج) کے اصحاب خاص کا نام، نسب، پیشہ، زبان، القاب وغیرہ ایک صحیفے میں ثبت ہیں اور یہ صحیفہ امام علیہ السلام کے پاس ہے۔
امام جواد علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد علیھم السلام سے روایت کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیه و آلہ نے فرمایا:
امام قائم علیہ السلام کے ساتھ ایک مھر شدہ صحیفہ ہے جس میں آپ کے اصحاب خاص، ان کے شھروں، ان کی زینتوں، کنیتوں وغیرہ کا تذکرہ بھی ھؤا ہے۔ (2)
اصحاب امام کا سب سے پھلا مشن دنیا پر مسلط مستکبرین کے خلاف ھمہ جھت جنگ کرنا ہے اور یہ جنگ امام کے عظیم انقلاب کے آغاز میں آپ کے تمام امور میں سرفھرست ھوگی۔ عملی پھلو میں اصحاب خاص امام زمانہ(عج) کے رکاب میں شجاع اور جان نثار سپاھیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور امام(عج) کے حکم کے منتظر اور گوش بہ فرمان ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہيں: قائم آل محمد علیہ السلام پانچ پیغمبروں سے شباھت رکھتے ہیں لیکن ان کی شباھت اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے، سب سے زیادہ ہے۔ (3)
اصحاب خاص کا دوسرا مشن، انحرافات، گمراھیوں، تحریفات اور دین و مذھب سے لئے گئے غلط تصورات کے خلاف جنگ ہے۔ ان انحرافات کے بانی یا تو سرمایہ دار اور اشرافیہ ہیں، یا صاحبان قوت اور غیر اسلامی اور بظاھر اسلامی حکومتیں اور حکمران ہیں اور یا پھر وہ لوگ ہیں جو دھوکے اور فریب کے ذریعے دین سے روزی کھاتے ہیں جن میں دنیا پرست ذاکرین و اھل منبر اور علماء کے لباس میں ملبوس اور طاغوتوں کے خدمت گذار اور حکام اور اشرافیہ کے در پر کرنش کرنے والے افراد ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: وہ جماعت جن کے ساتھ حضرت قائم علیہ السلام بوقت قیام کام کرتے ہیں، نجباء، قاضیوں، حاکمان شرع، فقھاء اور دین شناس علماء ہیں جنھیں اللہ کی طرف کا علم عطا ھؤا ہے اور ان پر کوئی بھی حکم مشتبہ نھیں ھو جاتا۔ (4)
اصحاب مھدی(ع) کی نفسانی خصوصیات
احادیث شریفہ میں اصحاب مھدی(عج) کے لئے بیان ھونے والی معنوی اور روحانی خصوصیات میں علم، معرفت، ایمان، اللہ کا خوف، طھارت، تقوی، زھد و پارسائی، دوراندیشی اور بصیرت، عبادت اور بندگی، اللہ کی طرف مسلسل توبہ، دعا، ذکر، عبادت، استغفار، تھجد اور شب زندہ داری، وسیع القلبی، صبر و تحمل اور بردباری وغیرہ جیسی خصوصیات شامل ہیں؛ تاھم ھم یھاں کچھ ھی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ایمان:
امام مھدی(عج) کے عالمی حکومتی نظام میں سب سے اھم اور کلیدی عنصر "ایمان" ہے جس سے تمام مسائل کے بند تالوں کو کھولا جاسکتا ہے۔ اصحاب امام کا ایمان گھرا، راسخ، استوار اور مضبوط اور بصیرت پر مبنی ہے جو ھمت اور حوصلے کو بڑھا دیتا ہے، بازؤوں کو مضبوط اور قدموں کو محکم کردیتا ہے، دلوں میں مضبوطی لاتا ہے اور وہ اس ایمان کے بدولت دنیا کے گوناگوں حوادث کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے پائے ثبات میں تزلزل کا تصور تک نھیں ہے۔ حکومت مھدویہ کے کارگزاروں کے دل ایمان محکم سے مستحکم ہیں۔ امام علیہ السلام مؤمن ترین افراد کو اپنی عالمی حکومت کے لئے بروئے کار لائیں گے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہيں: وہ خزینے ایسے مرد ہیں جن کے دل لوھے کے ٹکڑوں کی مانند ہیں، ان کے دلوں میں کسی قسم کا شک و تذبذب نھیں ہے، اللہ پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے چٹانوں اور پتھروں سے زيادہ مضبوط ہیں: "رِجالٌ كَاَنَّ قلُوبَهمْ زُبرُ الْحدیدِ، لا یشوبها شكُّ، فی ذاتِ اللّهِ اَشَدُّ مِنَ الحَجَر"۔ (5)
طھارت اور تقویٰ:
مثالی انتظام کا ایک ستون طھارت اور تقوی، عمل میں پاکیزگی، غیر مشروع، ناجائز، غیر مقبول اور غیر اخلاقی اھداف کے ساتھ عدم آمیزش سے عبارت ہے۔ اچھا منتظم ایسا منتظم ہے جو کسی بھی کام کو اخلاقی اصولوں کو ملحوظ رکھ کر پایہ تکمیل پر پھنچائے۔
روحانی طاقت، صبر اور بردباری:
عالمی مستکبرین کے خلاف جنگ اور کفر، شرک اور نفاق کے خلاف میدان کارزار میں اترنے کے لئے بھت زيادہ صبر و تحمل کی ضرورت ہے، ایسے افراد کو اس میدان میں اترنا چاھئے جو اس جنگ سے جنم والے مسائل و مصائب کے سامنے کمر خم نہ کریں اور خوفزدہ ھوکر پیچھے نہ ھٹیں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے بقول: وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے کام اور اپنی استقامت اور صبر کی بنا پر اللہ پر احسان نھیں جتاتے "قَوْمٌ لَمْ یَمُنُّوا عَلَی اللّهِ بِالصَّبْر"۔ (6)
شوق شھادت
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق: امام زمانہ(عج) کے اصحاب شھادت کے شیدائی ہیں، لقاء اللہ کے عاشق ہیں، ان کی آرزو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں شھادت کی آرزو رکھتے ہیں: "یتمنَّونَ اَنْ یقتلُوا فی سِبیلِا للّهِ"۔ (7)
اصحاب مھدی(عج) کی عملی اور سلوکی خصوصیات
امام مھدی علیہ السلام کی کچھ عملی خصوصیات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
سادگی اور بےتکلفی
اصحاب امام مھدی(عج) ظاھری جلال و جبروت اور جاہ و حشمت کے حامل نھیں ہیں، اسی بنا پر وہ زمینیوں کے درمیان انجانے ہیں۔ مستکبرین اور متکبرین انھیں چھوٹا سمجھتے ہیں لیکن عالم ملکوت میں معروف اور جانے پھچانے اور مؤمنین کے نزدیک عزت و عظمت کے مالک ہیں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان کے اوصاف بیان کرتے ھوئے فرمایا: (فتنہ گروں کے خلاف) اللہ کی راہ میں جھاد کرنے والی ایسی جماعت ہے جو متکبرین کی نگاھوں میں خوار اور چھوٹے ہیں، زمین پر انجانے ہیں اور آسمانوں میں جانے پھچانے ہیں: "يُجَاهِدُهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَوْمٌ أَذِلَّةٌ عِنْدَ الْمُتَكَبِّرِينَ فِي الْأَرْضِ مَجْهُولُونَ وَفِي السَّمَاءِ مَعْرُوفُونَ"۔ (8)
کام کاج اور کوششوں میں سنجیدگی
اصحاب امام مھدی(عج) شھید بھشتی(رح) کے بقول "خدمت کے شیدائی ہیں نہ کہ اقتدارکے پیاسے"، وہ مھدی موعود علیہ السلام کی عالمی حکومت میں اپنے امام(ع) کے فیصلوں اور ارادوں کو عملی جامہ پھنانے کے لئے، چین سے نھیں بیٹھتے، انھیں ھر وقت کام کی فکر رھتی ہے، سستی اور کاھلی، لاپروائی اور کام کو قضا و قدر کے سپرد کرنا، ان کی قاموس میں بےمعنی ہے۔
زیست کی سادگی
ھمارے معاشروں کے انتظام اور منتظمین کی ایک کمزوری، اشرافیہ افکار اور احساسات ہیں۔ امام خامنہ ای فرماتے ہیں کہ اشرافیہ کا انداز فکر و طرز عمل ایک ملک کے لئے آفت اور آسیب ہے، لیکن اشرافیت جب حکام اور منتظمین کے اندر سرایت کرے تو یہ دوگنا آفت ہے۔
اصحاب مھدی(عج) کی زندگی بھت سادہ اور معمولی ہے؛ ان کی زندگی کا رخ زیادہ سے زیادہ نعمتوں کے حصول اور عیش پرستی کی طرف نھیں ہے۔ انھوں نے اپنے امام کے ساتھ عھد کیا ہے کہ سادہ زندگی گذاریں گے، سادہ کھانا کھائیں گے، سادہ لباس پھنیں گے، معمولی سواری سے استفادہ کریں گے اور قلیل پر قناعت کریں گے اور کفایت شعاری کو کبھی نھیں بھولیں گے۔
اطاعت امام
حضرت مھدی(عج) کے اصحاب اپنے امام کو ایسا ھی پھچانتے ہیں جیسا کہ پھچاننے کا حق ہے اور امام سجاد علیہ السلام کے فرمان کے مطابق: "اَلْقائِلینِ بِاِمامَتِّهِ؛ اپنے امام کی امامت کے قائل ہیں"۔ (9) یہ معرفت شناختی کارڈ والی شناخت نھیں ہے، بلکہ یہ حق ولایت اور حق امامت کی معرفت ہے؛ اسی بنا پر وہ اپنے امام کے شیدائی ہیں، ان کے دل امام کے عشق و محبت سے سرشار ہیں۔ ان کے دل کے ورق پر مھدی آخرالزمان کے سوا کچھ اور تحریر نھیں ہے۔ یہ شیفتگی اس حد تک ہے کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق: تبرک کے عنوان سے ھاتھ امام(ع) کے گھوڑے کی زین پر ھاتھ پھیرتے ہیں اور تبرک حاصل کرتے ہیں۔ وہ جنگ کے دوران پروانوں کی مانند مھدی(عج) کی شمع وجود کے گرد اکٹھے ھوجاتے ہیں، اور آپ کے گرد حلقہ بناتے ہیں، اور آپ کی حفاظت کرتے ہیں: "یتمَسَّحُونَ بِسَرْجِ الاِمامِ یُطْلُبُونَ بِذلِکَ الْبَرَكَةَ وَیَحَفُّونَ بِهِ یَقُونَهُ بِاَنْفُسِهِمْ فِی الْحَرْبِ"۔ (10)
نظم و ضبظ اور تنظیمی فکر
نظم و ضبط اور انضباط (Discipline) ھر عسکری ادارے کی طاقت کی بنیادی شرط ہے۔ امام مھدی (عج) کی عالمی حکومت کا فوجی نظام آھنی انضباطی قواعد، منطقی نظم و ضبط اور تنظیمی تفکر پر استوار ہے اور آپ کے سپہ سالار نھایت منظم اور منضبط ہیں؛ کیونکہ ان کا مقصد ھی پوری دنیا کو ایک خاص نظم و ضبط کے تابع بنانا ہے اور وہ عالمی یکجھتی کے لئے کوشاں ہیں۔
عدالت پسندی اور انصاف
امام مھدی(عج) کے اصحاب خاص کا ایک مشن مختلف ممالک میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے آیت کریمہ "يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا" (11) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: "ایسا نھیں ہے کہ خداوند متعال زمین کو بارش کے ذریعے زندہ کرے، بلکہ ایسے مَردوں کو اٹھائے گا جو عدل و انصاف کو زندہ کریں گے اور زمین اسی عدل کی برکت سے زندہ ھوجائے گی۔
المختصر: اصحاب امام مھدی(عج) صلاحیتوں، شائستگیوں اور امتیازی خصوصیات کے لحاظ سے ایسے افراد ہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام کے مطابق نہ تو گذشتہ نسلوں میں کوئی ان پر سبقت لے سکا ہے اور نہ ھی اگلی نسلوں میں سے کوئی ان کے اعلی مرتبے تک پھنچ سکتا ہے: "لَمْ یَسْبِقْهُمُ الاْوَّلُونَ وَلا یُدْرِكُهُمُ الآخِرُون"۔ (12)
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مھدوی
حوالے
1۔ وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَى أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ أَلاَ يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفاً عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِؤُونَ؛ اور اگر ھم ان پر عذاب میں دیر کریں ایک مقررہ مدت تک تو وہ ضرور یہ کھیں گے کہ کون چیز اسے روکے ھوئے ہے؟ آگاہ ھونا چاھئے کہ جس دن وہ ان پر آئے گا تو اسے ان سے ھٹایا نھیں جا سکے گا اور گھیرلے گا انھیں وھی (عذاب) جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
2۔ الشيخ علي اليزدي الحائري، الزام الناصب، ص185۔
3۔ شیخ صدوق، کمال الدین، ج1، ص327۔
4۔ لطف اللہ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص485۔
5۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص308۔
6۔ ، شیخ کامل سلیمان، یوم الخلاص، ص223؛ بحوالہ: السيد مصطفى ال السيد حيدر الكاظمي، ، بشارة الاسلام في علامات المهدي عليه السلام، ص220۔
7۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص308۔
8۔ نھج البلاغہ (دشتی)، خطبہ 102۔
9۔ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص244۔
10۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 52، ص 308۔
11۔ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ؛ وہ نکالتا ہے جاندار کو بےجان سے اور نکالتا ہے بےجان کو جاندار سے اور وہ زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مردہ ھونے کے بعد، اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔ (سورہ روم، آیت 19)
12۔ سید ابن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنة، ج‏2، ص581۔

Add comment


Security code
Refresh