www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۵۹۔ مفھوم و مصداق کے اعتبار سے ” اصل “ ولایت فقیھہ کا اعتقاد عقلی ھے یا شرعی ؟

ج۔ بے شک ولایت فقیھہ ۔ جو کے معنیٰ دین سے آگاہ عادل فقیھہ کی حکومت ھے۔ شریعت کا تعبدی حکم ھے جس کی تائید عقل بھی کرتی ھے اور اس کے مصداق کی تعیین کے لئے عقلی طریقہ بھی ھے جس کو اسلامی جمھوریہ کے دستور میں بیان کیا گیا ھے۔

س۶۰۔ کیا ولی فقیھہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ کے پیش نظر شریعت کے حکم کو بدل سکتا ھے یا اس پر عمل کرنے سے روک سکتا ھے؟

ج۔ مختلف حالات میں اس کا حکم مختلف ھے۔

س۶۱۔ کیا ذرائع ابلاغ کو اسلامی حکومت کے سایہ میں ولی فقیھہ کے زیر نظر ھونا واجب ھے یا انھیں مراکز علوم دینیہ کی نگرانی میں ھونا چاھئیے یا کسی اور ادارہ کے زیر نظر ؟

ج۔ واجب ھے کہ ذرائع ابلاغ ولی امر مسلمین کے زیر فرمان اور ان کے زیر نظر ھوں اور انھیںاسلام و مسلمانوں کی خدمت ، الھی معارف کی نشر و اشاعت ، اسلامی معاشرہ کی عام مشکلوں کے حل اور فکری اعتبار سے اس سے مسلمانوں کی ترقی اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اوران کے درمیان اخوت و برادری کی روح کو فروغ دینے اور اسی طرح کے دوسرے امور انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔

س۶۲۔ کیا اس شخص کو حقیقی مسلمان سمجھا جائے گا جو فقیھہ کی ولایت مطلقہ کا معتقد نہ ھو؟

ج۔ غیبت امام زمانہ عج کے عھد میں اجتھاد یا تقلید کی بناء پر فقیھہ کی ولایت مطلقہ پر اعتقاد نہ رکھنا ارتداد اور دائرہ اسلام سے خارج ھونے کا باعث نھیں ھے۔

س۶۳۔ کیا ولی فقیھہ کو ولایت تکوینی حاصل ھے جس کی بنیاد پر اس کے لئے کسی وجہ سے جیسے مصلحت عامہ کی بنا پر دینی احکام کا منسوخ کرنا ممکن ھے؟

ج۔ رسول اعظم صلوات اللہ علیہ و آلہ کی وفات کے بعد شریعت اسلامیہ کے احکام منسوخ نھیں کئے جاسکتے البتہ موضوع کا بدلنا ، کسی ضرورت یا مجبوری کا پیش آنا ، یا حکم کے نفاذ میں کسی وقتی رکاوٹ کا وجود نسخ نھیں ھے اور ولایت تکوینی اس کے نظر میں جو اس کا قائل ھے معصومین (ع)سے مخصوص ھے۔

س۶۴۔ ان لوگوں سے متعلق ھمارا کیا فریضہ ھے جو فقیھہ عادل کی ولایت کو صرف امور حسیبہ میں محدود سمجھتے ھیں، جانتے ھوئے کہ ان کے بعض نمائندے اس نظریہ کی اشاعت بھی کرتے ھیں؟

ج۔ ھر زمانہ میں معاشرہ کی قیادت اور اجتماعی امور کی ھدایت کے لئے ولایت فقیھہ مذھب حقہ اثنا عشری کا ایک رکن رھی ھے اور اس کا تعلق اصل امامت سے ھے اور اگر کوئی شخص دلیل کے ذریعہ ولایت فقیھہ کا قائل نہ ھو تو وہ معذور ھے لیکن اس کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ تفرقہ اور اختلاف پھیلائے۔

س۶۵۔ کیا ولی فقیھہ کے اوامر پر عمل کرنا ھر مسلمان پر فرض ھے یا صرف اس کے مقلدین کا فریضہ ھے؟

نیز جو مرجع تقلید ولایت مطلقہ کا معتقد نہ ھو اس کے مقلد پر ولی فقیھہ کی اطاعت واجب ھے یا نھیں؟

ج۔ شیعہ فقہ کے اعتبار سے ولی امر مسلمین کے صادر کردہ ولائی شرعی او امر کی اطاعت کرنا اور اس کے امر و نھی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا تمام مسلمانوں ، یھاں تک کہ تمام فقھائے عظام پر بھی واجب ھے چہ جائیکہ ان کے مقلدین پر ۔ اور ھم ولایت فقیھہ کی پابندی کو اسلام کی پابندی اور آئمہ کی ولایت سے جدا نھیں سمجھتے۔

س۶۶۔ لفظ ” ولایت مطلقہ “ رسول (ص)کے زمانہ میں اس معنی میں استعمال ھوتا تھا کہ اگر رسول (ص)کسی شخص کو کسی چیز کا حکم دیں کہ تم خود کو قتل کر ڈالو ! تو اس پر خود کو قتل کردینا واجب تھا۔ اب سوال یہ ھے کہ کیا آج بھی ولایت مطلقہ کے وھی معنی ھیں؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ نبی(ص) معصوم تھے اور اس زمانہ میں کوئی ولی معصوم نھیں ھے؟

ج۔ جامع الشرائط فقیھہ کی ولایت مطلقہ سے مراد یہ ھے کہ دین اسلام تمام آسمانی ادیان کے آخر میں آنے والا اور قیامت تک باقی رھنے والا دین ھے۔ یہ دین حکومت ھے اور معاشرہ کے امور کی دیکہ بھال کرنے والا دین ھے، پس اسلامی معاشرہ کے تمام طبقات کے لئے ایک ولی امر، حاکم شرع اور قائد کا ھونا ضروری ھے جو امت کو اسلام و مسلمانوں کے دشمنوں سے بچائے، ان کے نظام کا محافظ ھو، ان کے درمیان عدل قائم کرے، طاقتور کو کمزور پر ظلم کرنے سے باز رکھے، معاشرہ کی ثقافتی ، سیاسی اور اجتماعی امور کی ترقی کے وسائل فراھم کرے۔

اس امر کا عملی میدان میں نفاذ بعض اشخاص کی خواھشات ، منافع اور آزادی سے ٹکراو ٴ رکھتا ھے۔ لھذا حاکم مسلمین پر واجب ھے کہ وہ اس کے نفاذ کے وقت فقہ اسلامی کی روشنی میں ضرورت کے تحت لازمی اقدامات کرے۔

اس بنا پر ضروری ھے کہ اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ کے پیش نظر ولی امر کا ارادہ اور اس کے اختیارات تعارض اور ٹکراو ٴ کی صورت میں عوام کے ارادہ اوران کے اختیارات پر حاکم ھوں اور یہ ولایت مطلقہ کا ایک معمولی سا پھلو ھے۔

س۶۷۔ جس طرح مجتھد میت کی تقلید پر باقی رھنے کے سلسلہ میں فقھا کا فتویٰ ھے کہ اس کے لئے زندہ مجتھد کی اجازت کی ضرورت ھے ، کیا اسی طرح مرحوم قائد کی طرف سے صادر ھونے والے حکومتی احکام و اوامر پر عمل کے سلسلے میں بھی زندہ قائد کی اجازت درکار ھے یا وہ اپنی جگہ ویسے ھی باقی ھیں۔

ج۔ ولی امر مسلمین کی طرف سے صادر ھونے والے حکومتی احکام اور اشخاص کی تقرریاں اگر وقتی نہ ھوں تو اپنی جگہ پر باقی رھیں گے ورنہ اگر موجودہ ولی امر مسلمین انھیں منسوخ کردینے میں مصلحت سمجھتا ھوگا تو منسوخ کردے گا۔

س۶۸۔ کیا اسلامی جمھوریہ ایران میں زندگی گزارنے والے اس فقیھہ پر، جو ولی فقیھہ کی ولایت مطلقہ کا قائل نھیں ھے، ولی فقیھہ کے احکام کی اطاعت کرنا واجب ھے؟ اگر وہ ولی فقیھہ کے حکم کی مخالفت کرے تو کیا اسے فاسق سمجھا جائے گا؟ اور اگر کوئی فقیھہ ولایت مطلقہ کا تو اعتقاد رکھتا ھے لیکن اس منصب کے لئے اپنی ذات کو زیادہ سزاوار سمجھتا ھے، اس صورت میں اگر وہ ولایت کے منصب پر فائز فقیھہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ھے تو کیا اسے فاسق سمجھا جائے گا؟

ج۔ ھر مکلف پر واجب ھے کہ وہ ولی امر مسلمین کے حکومتی اوامر کی اطاعت کرے چاھے وہ فقیھہ ھی کیوں نہ ھو اور کسی کے لئے جائز نھیں ھے کہ وہ خود کو اس منصب کا زیادہ حقدار سمجہ کر ولی امر مسلمین کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ یہ حکم اس صورت میں ھے جب کہ موجودہ ولی فقیھہ نے ولایت کے منصب کو اس کے مروجہ قانونی طریقہ کے مطابق حاصل کیا ھو ورنہ دوسری صورت میں مسئلہ کلی طور سے مختلف ھے۔

س۶۹۔ کیا جامع الشرائط مجتھد کو زمانہ غیبت میں حدود جاری کرنے کا اختیار حاصل ھے؟

ج۔ زمانہ غیبت میں بھی حدود کا جاری کرنا واجب ھے اور اس کی ولایت اور اختیار صرف ولی امر مسلمین سے مخصوص ھے۔

س۷۰۔ ولایت فقیھہ کا مسئلہ تقلیدی ھے یا اعتقادی؟ اور اس شخص کا کیا حکم ھے جو اسے تسلیم نھیں کرتا ؟

ج۔ ولایت فقیھہ اس امامت و ولایت کے سلسلہ کی کڑی ھے جو اصول مذھب میں سے ھے لیکن اس کے احکام کا استنباط بھی فقھی احکام کی طرح شرعی دلیلوں سے کیا جاتا ھے اور جو شخص استدلال کے ذریعہ ولایت فقیھہ کو قبول نہ کرے وہ معذور ھے۔

س۷۱۔ بعض اوقات ھم بعض عھدہ داروں سے ” ولایت اداری ، کے نام کا عنوان سنتے ھیں یعنی اعلیٰ عھدہ داروں کی بے چون و چرا اطاعت کرنا۔ اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ھے ؟ اور ھماری شرعی ذمہ داری کیا ھے؟

ج۔ وہ  اداری و انتظامی احکام جو اداری قوانین و ضوابط کی بنیاد پر صادر ھوتے ھیں ان کی مخالفت اور خلاف ورزی جائز نھیں ھے۔ لیکن اسلامی مفاھیم میں ” ولایت اداری “ نام کی کوئی چیز نھیں پائی جاتی۔

س۷۲۔ کیا فوجی عھدہ داروں اور افسروں کے لئے جائز ھے کہ وہ سپاھیوں کو اپنے ذاتی کاموں کی انجام دھی کا اس دلیل کے ساتھ حکم دیں کہ اگر وہ ان امور کو خود انجام دیں تو ان کا وقت ضائع ھوگا؟

ج۔ افسروں یا کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نھیں ھے کہ وہ سپاھیوں سے اپنے ذاتی کام لیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو اس کام کی اجرت دینا پڑے گی۔

س۷۳۔ نمائندہ ولی فقیھہ جو احکام اپنے اختیارات کی حدود میں صادر کرتا ھے کیا ان کی اطاعت واجب ھے؟

ج۔ اگر اس کے احکام ان اختیارات کی حدود میں ھیں جو اس کو ولی فقیھہ کی طرف سے تفویض کئے گئے ھیں تو ان کی مخالفت جائز نھیں ھے۔

 

Add comment


Security code
Refresh