www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام کے ذریعے پیش کردہ راہ حل

اسلام نے مختلف طبقوں میں اقتصادی توازن برقرار رکھنے کے لئے اور دولت کو ایک مرکز پر جمع ھونے سے روکنے کے لئے بھت سے طریقے ایجاد کئے ھیں ۔ چند طریقوں کا ذکر کیا جا رھا ھے ۔

۱۔ ٹیکس کا قانون مثلاً لوگوں کو جمع شدہ مال پر خمس ، زکوٰة قسم کے ٹیکس لازم قرار دئے ھیں تاکہ ھر سال مالداروں اور سرمایہ داروں کا مال گھٹتا رھے ۔

۲۔ انفال یعنی عمومی ثروت کو اسلامی حکومت کے سپرد گی میں دے دینا ، مثلا ًجنگلات ، نے زار ، چراگاہ ، بنجر زمینیں ، پھاڑ ، پھاڑوں پر اگے ھوئے درخت ، معدنیات ، موقوفات عامہ ، اموال مجھول المالک ، بغیر جنگ کئے حاصل ھونے والی زمینیں ، کفارات ، لا وارث افراد کی میراث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس قسم کی چیزیں انفال ( ثروت عمومی ) کھلاتی ھیں ۔ اگر چہ ان میں کی کچہ چیزیں رسول(ص)  یا امام علیہ السلام سے مخصوص ھیں مگر وہ حضرات ان کے منافع کواپنے اوپر نھیں خرچ کر تے  تھے بلکہ رفاہ عام میں صرف کرتے تھے ۔

۳۔ میراث کا قانون بھی ایک ایسی چیز ھے جو دولت کو متحرک رکھتی ھے اور ھر نسل پر دولت تقسیم ھوتی رھتی ھے ۔

۴۔ اضطراری حالت یعنی شخصی مالکیت کا احترام اسلام اسی وقت تک کرتا ھے جب تک اجتماع کسی خطرے سے دوچار نہ ھو اوراگر اضطراری حالت پیدا ھو گئی تو پھر عادل اسلامی حکومت مقررہ شرائط کے ساتھ اپنے اختیارات کو استعمال کر کے معاشرے کو اس خطرے سے بچائے گی ۔ مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت جس وقت بھی مقتضی ھو اور اسلامی اجتماع کا فائدہ ھو تو حکومت شخصی مالکیت میں حسب ضرورت دخل اندازی کریگی ۔اسلامی حکومت کو یہ حق اسی لئے دیا گیا ھے تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کر سکے ۔ اسلامی حاکم کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے ھاتھوں میں دولت کو جمع ھوتا ھوا دیکھے اور دوسروں کی محرومی و گرسنگی پر خاموش تماشائی بنا رھے کیونکہ یہ بات اسلامی اصول کے بالکل بر خلاف ھے ۔ آج کی مغربی دنیا میں جس قسم کی سرمایہ داری ھے اسلام اس کو صحیح نھیں سمجھتا ۔ قرآن میں ارشاد ھے : تقسیم مال کے جو طریقے ھم نے معین کئے ھیں وہ صرف اس لئے کہ تمھارے دولت مندوں کے ایک گروہ کے پاس دولت متمرکز نہ ھو جائے ۔(۴)

چونکہ اجتماع کا نقصان عین فرد کا نقصان ھے اس لئے اسلام نے دونوں کے حقوق میں کوئی تعارض نھیںھونے دیاھے ۔ اسی لئے اسلام نے شخصی ملکیت کو محترم شمار کرتے ھوئے اور انسان کی فطری خواھشات کا لحاظ رکھتے ھوئے ، نیز ان تمام باتوں کو باقی رکھتے ھوئے جن کو سرمایہ دار شخصی ملکیت کے لئے ضروری سمجھتے ھیں ، اس بات کی اجازت دی ھے کہ ضرورت کے وقت فرد کے مال سے اجتماع کو فائدہ پھنچایا جا سکتا ھے ۔

اگر چہ اسلام نے سرمایہ داری کے ظلم و ستم کو قانونی طور سے روک دیا ھے مگر پھر بھی صرف قانون بنا دینے پر اکتفا نھیں کیا بلکہ اور طریقوں سے بھی اس پر پابندی لگائی گئی ھے ۔

۵۔ سخاوت سرمائے کو متحرک کرنے کے لئے لوگوں کو راہ خدا میں انفاق و بخشش پر بھت آمادہ کیا ھے اور اس اخلاقی دعوت کو قانون سے ھم آھنگ کر دیا ھے ۔ اس سلسلے میں ایسے مضبوط دستور بنائے ھیں جو عاطفہ انسانی کے لئے شدید محرک ھیں ، ایسے محرک کہ ان کو دیکہ کر کوئی بھی شخص اپنے ھم جنس کے استحصال پر تیار ھی نھیں ھو سکتا ۔

۶۔ فضول خرچی کی مذمت ، اسلام نے ایک گروہ کے ھاتھ میں ثروت جمع ھو جانے کے جو نتائج ھوتے ھیں ( یعنی سرمایہ داری کے نتائج ) ان نتائج کی شدت سے مخالفت کی ھے تاکہ سرمائے میں جمود نہ ھونے پائے مثلا فضول خرچی ، عیاشی ، خوش گزرانی یہ چیزیں سرمایہ داری کی دین ھیں اور اسلام نے ان چیزوں سے شدت کے ساتھ منع کیا ھے ۔

۷۔ بخل کی مذمت ، اسی طرح بخل کی مذمت کر کے مالداروں کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی ھے تاکہ دولت و ثروت چند ھاتھوں میں منجمد ھو کر نہ رہ جائے ۔

۸۔ اجرت روکنے کی ممانعت ، اسی طرح اسلام نے شدت کے ساتھ اس بات سے بھی روکا ھے کہ خبردار مزدوروں کی مزدوری نہ روکو ، کیونکہ اس سے عمومی فقر کا اندیشہ ھے ۔ اسلام کی یہ روحی دعوت انسان و خدا کے درمیان ارتباط کاکام دے گی اور انسان کے ضمیر میں ایسے پاکیزہ احساسات پیدا ھوں گے جن کی وجہ سے انسان اخروی جزا اور رضایت پروردگار عالم کا خواھش مند ھو جائے گا اور جب یہ خواھش بڑھے گی تو اس کے حصول کے لئے تمام دولت و ثروت اور تمام لذتیں بیکار ھو جائیں گی کیونکہ بد نیتی ،حرص ، بے عدالتی ، ستم گری ، یہ ساری چیزیں قیامت پر ایمان نہ ھونے اور خالق و مخلوق کے رابطہ کے منقطع ھونے کی وجہ سے ھوتی ھیں ۔ اورجب خالق سے رابطہ قائم ھو جائے گا تو مرضی ٴ خدا کے حصول کے لئے مال بے قدر و قیمت ھو جائے گا اس کے نتیجے میں دولت میں جمود نھیں پیدا ھو گا ۔

تاریخ میں کھیں نھیں ملے گا کہ جھاں کھیں بھی عبادت الٰھی میں انحراف ھوا ھو اس کی علت آدمی کے افکار و پندار میں انحراف نہ ھو ، اور انسانوں کے آپسی روابط میں کو تا ھی نہ ھو ، یہ تو ممکن ھی نھیں ھے کہ کوئی شخص خدا سے بھت قریب ھو اور اس کے بعد وہ ظلم و ستم کا ارتکاب کرے اور دولت جمع کرنے کے لئے بندگان خدا پر ظلم و جور کرے ۔

اسلام میں فرد و اجتماع کے منافع کی نگرانی حکومت پر رکھی گئی ھے ۔ حکومت کا فریضہ ھے کہ غلط آزادی سے روکے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی قوانین کو نافذ کرے ۔ اجتماع کے اندر اخلاقی فضائل کے نشر کرنے اور نگرانی کے علاوہ بھی حکومت پر لازم ھے کہ معاشرے کو ان تمام انحرافات و پلیدگیوں سے روکے جن سے تمام افراد کا فائدہ ھو اور نتیجے میں فرد کی زندگی ایک فعال عنصر کے مثل ھو جائے ۔

اسلامی نظام جھاں سرمایہ داری بلاک کے نقصانات سے پاک و صاف ھے وھیں کمیونزم سے بھی زیادہ بھتر اور عادل تر ھے ۔ اسلام نہ تو دائیں بازو کی طرف مائل ھے اور نہ بائیں بازو کی طرف ، بلکہ سرمایہ داری اورکمیونزم دونوں سے کھیں بالاتر ھے ۔ اس میں اس کی بھی صلاحیت ھے کہ مشرق و مغرب دونوں میں توازن بر قرار رکھے ۔

ایک قابل توجہ چیز یہ ھے کہ اسلام بدیع نظام ھے ۔ اس نے دنیا کو اجتماعی عدالت کے مفھوم سے روشناس کرایا اور اقتصادی عوامل کے وزن و اعتبار کو سمجھایا ۔ اسلام کی نظر میں انسان مجبوریوں کا غلام نھیں ھے بلکہ اس دنیائے رنگ و بو میں انسان ھی تنھا فعال و مثبت قوت ھے جو اقتصاد کے جبری تحولات کا بندھٴ بے دام ھونے کے بجائے اپنے ارادے و اختیار سے اپنے اقتصاد کی بنیاد رکھتا ھے ۔ دیگر مذاھب کے مقابلے میں اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ھے کہ اس میں جبری تحول کا وجود نھیں ھے ۔

اس دور کے مفکرین و فلاسفہ کاایک بھت بڑا گروہ مثلاً ویلیم جیمس (WILLIAMJAMES)،امریکی فلسفی ھیرو لڈلاسکی (HAROLDLASKI)،جان اسٹریچی( JOHN STRACHEY)،برٹرانڈر اسل ( BERTRAND RUSSELL)،والٹرلپ مین (WALTER LIPPMANN) اور اسی قسم کے دوسرے سر برآوردہ مفکرین نے سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں پر اعتراضات کئے ھیں اور ھر ایک نے اپنی فکر و نظر کے مطابق ایک معتدل راستہ بنانا چاھا ھے۔یہ لوگ کھتے ھیں کہ کمیونزم افراد کی حریت، فطری آزادی ، ارادہ و اختیار کو سلب کرتا ھے اور تمام شخصی و اجتماعی امور میں حکومت کو حاکم مطلق مانتا ھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ فرد کی شخصیت اور اس کی ابتکاری صلاحیتیں زنگ آلود ھو جاتی ھیں اور فردی تکامل ، رشد و ترقی سے رک جاتا ھے ۔ اسی طرح سرمایہ داری میں یہ خرابی بھی ھے کہ فردی آزادی افراط کی حد تک پھونچ جاتی ھے ۔ اجتماعی ھم آھنگی کو ضرر پھنچاتی ھے ۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ تمام منابع ثروت ، دستگاہ تولیدی پر قابض و مسلط ھو جاتا ھے اور لوگوں کو اپنے ارادے کا تابع بناتا ھے نیز سیاست و حکومت پر اپنا پورا پورا اثر و رسوخ قائم کر لیتا ھے ۔

اس لئے بشریت کے لئے ایک تیسرے راستے کی ضرورت ھے جو دونوں کے افراط و تفریط سے محفوظ ھو اور فرد و اجتماع کے منافع کو محفوظ رکھتا ھو لیکن کیا ساری دنیا کے فلاسفہ و مفکرین جو آج کے ناقص سسٹم کو باقاعدہ سمجہ چکے ھیں اسلام سے بھتر کوئی راستہ بتا سکتے ھیں ؟ جس کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پھلے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔ اسلام ھی ایک ایسا معتدل مذھب ھے جو ایک طرف تو فرد کو معقول آزادی عطا کرتا ھے اور دوسری طرف سرمایہ داری کے سر کش اونٹ کو نکیل لگاتا ھے اور بالآخر انسان کو ایسے راستے پر لگا دیتا ھے جو بشریت کو سرگردانی اور بد بختی سے نجات دے سکتا ھے ۔

اسلامی نظام نے اپنے تمام دور حکومت میں اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کیا ھے اور اجتماعی زندگی چاھے وہ مسلمانوں کی ھو یا غیروں کی ، کو بھت ھی وسیع پیمانے پر منظم کیا ھے ۔ اسلامی معاشرہ اپنے طول تاریخ میں کبھی وضع قانون کے سلسلے میں دوسروں کا محتاج نھیں رھا ھے اسی طرح آج بھی اس زمانے کے تمام تحولات کے با وجود دنیا کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ھے اور اسلامی معاشرے کی رھبری کر سکتا ھے اور اس کی ضرورتوں کا صحیح جواب دے سکتا ھے ۔

اسلام ھی وہ آئین ھے جس نے مادی نیاز مندیوں اور روحانی ضرورتوں ( دونوں ) کو خصوصی طور پرمورد توجہ قرادیا ھے ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں ایک نادر اور متوازن قانون وضع کیا ھے ۔ اسلام ھی وہ مذھب ھے جو زندگی سے پوری ھم آھنگی رکھتا ھے ۔جن میں کبھی کھنگی پیدا نھیں ھو سکتی ۔

دنیائے بشریت نے جن مبادی، اصول کو پھچانا ھے ان میں سب سے محکم اور پیشرو اسلام کے مبادی و اصول ھیں ۔ اور اس کے قوانین انسانی نقطھٴ نظر سے تمام دیگر تعلیمات سے برتر اور آسان تر ھیںاگر اسلام کے مبادی و اصول کو دوسرے مکاتب فکر کے مبادی و اصول کے مقابلے میں دیکھاجائے تو یہ حقیقت بھت زیادہ واضح ھو جاتی ھے کہ خدائی قوانین انسانی خود ساختہ قوانین کے مقابلے میں کھیں زیادہ برتر و بالا تر ھیں ۔

دانش کدہ حقوق پیرس نے ۱۹۵۱ءء میں ایک ھفتہ فقہ اسلامی کی تحقیق کا منایا تھا ۔ ذمہ داروں نے دنیا کے علمائے اسلام کو فقہ اسلامی کے سلسلے میں چند موضوعات پر خاص طور سے اظھار خیال کی دعوت دی تھی ۔جن موضوعات پر اظھار خیال کی دعوت دی گئی تھی وہ حسب ذیل ھیں :

۱۔ فقہ اسلامی میں مالکیت کے اثبات کے طریقے ۔

۲۔ اجتماعی اور عمومی مصالح کے پیش نظر املاک خصوصی کے ضبط کر لینے کے شرائط اور ان کے مقامات کی نشان دھی

۳۔ مسئولیت جنائی

۴۔ فقہ اسلامی کے مختلف مکاتب فکر کا تقابل ۔

پیرس کے مرکزی و کلاء کاسربر آوردہ رئیس جو اس کانفرنس کی صدارت کر رھا تھا اس نے اختتام کانفرنس پر اپنے خیالات کا اظھار اس طرح کیا :مجھے نھیں معلوم کہ میں پھلے جو حقوق اسلامی کے جمود اور موجودہ دور کے جدید مسائل میں اس کی عدم صلاحیت کے بارے میں سنا تھا اور آج کی کانفرنس میں جو کچہ میں نے سنا ھے اور سمجھا ، اس کو میں کیونکہ کر جمع کروں ! اس کانفرنس میں یہ بات یقینی طور پر ثابت ھو گئی کہ حقوق اسلامی میں اچھی خاصی گھرائی ھے اور یہ بھت زیادہ وسیع ھیں ۔ ان میں اس بات کی گنجائش ھے کہ موجودہ دور میں پیدا ھونے والے مسائل کا مثبت اور اطمینان بخش جواب دے سکیں ۔ فقہ اسلامی کا ھفتہ جب ختم ھوا تو اس نے اسلام کے بارے میں اپنی یہ رائے ظاھر کی : فقہ اسلامی کے اندر یقینی طور پر ایسی صلاحیت موجود ھے کہ جو موجودہ دور کے منابع قانون گزاری کو پورا کر سکے ۔ فقہ اسلامی کے مختلف مذاھب کے اقوال و آراء کے اندر حقوقی سرمائے اتنے زیادہ ھیں کہ تعجب ھوتا ھے ۔ ان آراء و اقوال کے پیش نظر قطعی طور پر فقہ اسلامی کے اندر یہ صلاحیت موجود ھے کہ وہ آج کی زندگی کی جملہ ضروریات کا مثبت جواب دے سکے ۔

حوالہ جات:

۱۔ اقتصادنا ج۲ص ۲۱۶۔

۲۔یونائیٹڈ پریس انٹر نیشنل ۔۲۲/ فروری ۴۷ء۔

۳۔تاریخ مالکیت ص ۹۴۔

۴۔سورہ حشر/ ۷۔

Add comment


Security code
Refresh