www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تیسرا اشکال:
قارئین کرام ! موکل کو اپنے وکیل کو معزول کرنے کا حق ھوتا ھے، یا اس کے بنائے ھوئے منصوبوں کو لغو اور بے اثر کرنے کا حق ھوتا ھے لھٰذا اگر کوئی شخص ممبر آف پارلیمنٹ کو ووٹ دے کر انتخاب کرلے لیکن اس کے بعد اپنی رائے سے پلٹ جائے تو وہ اپنے نمائندہ کو اس مقام سے معزول کرسکتا ھے اس کے علاوہ وکیل کو صرف موکل کی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ھوتا ھے اور یہ حق نھیں ھوتا کہ اپنے موکلوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے اب اگر تمام عوام الناس یا ان میں آدھے افراد کسی قانون کے مخالف ھوں ، تو حکومت اس قانون کو کس حق کے تحت جاری کر سکتی ھے؟
خلاصہ یہ ھے کہ ڈیموکریسی حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے کوئی عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے! اور اس سلسلہ میں ڈیموکریسی نظریہ کے طرفدار لوگ یہ کھتے ھیں کہ ملک اور معاشرہ کوچلانے کے لئے ڈیموکریسی نظریہ سب سے بھترین نظریہ ھے کیونکہ اگر اقلیت کی مرضی کے مطابق حکومت بنے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے تو پھر اکثر عوام الناس کا حق ضایع ھوجائے گا جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ عوام الناس کی اکثریت مظاھرہ کرنے لگیں گے اور اس صورت میں ان کی شورش اور انقلاب کو روکنا مشکل ھوجائے گا یھی وجہ ھے کہ حکومت عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ھو اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے؛ نہ یہ کہ حکومت عقل پسند مشروعیت رکھتی ھے۔
4۔ اسلام میں حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ھونا
اسلامی نظریہ کے مطابق، وہ عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ فلاں کام اچھا ھے اور فلاں کام بُرا ھے، وھی عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ ماں باپ، استاد اور عوام الناس تم پر حق رکھتے ھیں لھٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا چاھئے، وھی عقل انسان سے کھتی ھے کہ وہ خدا جس نے تمام دنیا، تجھے او ر تمام مخلوقات کو پیدا کیا ھے اس کے حقوق دوسروں سے بھت زیادہ اور عظیم ھیں اور انسان کو چاھئے کہ ان کو ادا کرنا چاھتے اب چونکہ خداوندعالم نے ھمیں پیدا کیا ھے اور ھمارے وجود بلکہ تمام کائنات کا مالک ھے اور تمام چیزیں اس کے ارادہ سے وجود میں آتی ھیں، اور اگر وہ ارادہ کرلے تو تمام چیزیں نابود ھوجائیں گی، اس نے اگر کسی کو قوانین نافذ کرنے کے لئے معین کیا ھے تو اس کا حکومت کرنا قانونی اور مشروعیت رکھتا ھے اور پھر عوام الناس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت نھیں ھے جس وقت وہ خدا جو ھم پر سب سے زیادہ حقوق رکھتا ھے(بلکہ تمام ھی حقوق اسی کی طرف سے ھیں) اس نے حکومت اور ولایت کا حق پیغمبر، ائمہ معصومین علیھم السلام یا امام معصوم (ع) کے جانشین کو دیا ھے ، اس کو حق ھے کہ معاشرہ میں خدائی احکام نافذ کرے، کیونکہ یہ شخص اس ذات کی طرف سے منصوب ھوا ھے کہ کل ھستی، تمام اچھائیاں اور تمام حقوق وخوبصورتی اسی کی طرف سے ھے۔
اس بنا پر اسلامی حکومتی نظریہ میں جس میں حاکم اسلامی خداوندعالم کی طرف سے قوانین اور احکام الٰھی جاری کرنے کاحق حاصل ھوتا ھے،لھٰذا وھی مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائے اعمال تک پھونچا سکتا ھے، اور اس میں کسی بھی طرح کا کوئی تعارض نھیں ھے اور یہ نظریہ عقلی اصول پر (بھی) منطبق ھے البتہ یہ نظریہ ان لوگوں کے نزدیک قابل قبول ھے جو خداوندعالم پر ایمان رکھتے ھیں ورنہ اگر کوئی شخص خدا کو قبول نہ رکھتا ھو تو پھر وہ شخص اس نظریہ کو بھی قبول نھیں کرے گا، اور ھم پھلے اس کے لئے خداوندعالم کے وجودکا اثبات کریں اور اگر وہ خدا پر ایمان لے آتا ھے تو پھر اس موقع پر اس سے بیٹہ کر حکومت کے سلسلے میں اسلامی سیاسی نظریہ کے بارے میں بحث کریں لھٰذا جو افراد جو خدا ، رسول اور دین کو مانتے ھیں ان کے لئے بھترین راہ حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے یھی ھے کہ کل کائنات کا مالک خدا؛ معاشرہ کے مصالح کی رعایت کے لئے حق حکومت اپنے کسی (خاص) بندے کو عنایت کرتا ھے (تاکہ ا نسان معاشرہ کی خیر وبھلائی کے ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ھوجائے (
اسلامی معرفت کے پیش نظر اسی طرح اسلامی سیاسی نظریہ کی شناخت کی بنا پر معلوم یہ ھوتا ھے کہ انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق سے بالاتر خدا وند عالم حق ھے خداوندعالم کا، اس بنا پر اگر خداوندعالم اپنے کسی بندے کو کوئی کام کرنے کا حکم دے چاھے اس کے نقصان میں ھی کیوں نہ ھو تو اس کو انجام دینا چاھئے؛ البتہ خداوندعالم اپنے بے انتھا لطف وکرم اور مھربانی کی وجہ سے اپنی مخلوقات کے ضرر اور نقصان میں امر ونھی صادر نھیں کرتا، وہ کسی کا نقصان نھیں چاھتااور اس کے اوامر ونواھی انسان کی دنیا وآخرت کی مصلحت اور اس کی بھلائی میں ھوتے ھیں اور اگر خداوندعالم کے احکام کی تعمیل کی بنا پر انسان کو اس دینا میں کچھ نقصان بھی ھوتا ھے مثال کے طور پر اگر چند روزہ دنیا میں بعض لذتوں اور نعمتوں سے محروم رھتا ھے تو خداوندعالم اس کو آخرت میں جبران کردے گا اوردنیا میں ھوئے اس کے نقصان کے ھزاروں برابر اس کو ثواب اور اجر عنایت فرمائے گا۔
5۔ انبیاء علیھم السلام اور عوام الناس کی ھدایت کا طریقه
خدا وندعالم نے اپنی طرف سے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ عوام الناس کو دین اور دنیا کے خیر وبھلائی کی ھدایت کریں خدا کی طرف سے بھیجا ھوا نبی پھلے تو حق (خدا) کی طرف دعوت دیتا ھے اور خدا کی آیات کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتا ھے اور جب ان کو خدا کی شناخت اور معرفت ھوجاتی ھے اور وظائف اور تکالیف قبول کرنے کا زمینہ فراھم کرتا ھے در حقیقت اس مرحلہ میں نبی یا پیغمبر عقل منفصل کا کردار ادا کرتا ھے ، اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی زور اور دباؤ نھیں دیا جاتا اور ان کی آزادی سلب کئے بغیر ان کی عقل وفھم کو بلند کرتا ھے تاکہ ان میں آزادانہ طور پر انتخاب کا زمینہ فراھم ھوجائے اور آزادانہ طور پر اسلام اور اس کے عظیم احکام کو قبول کرنے کا مادہ پیدا ھوجائے۔
پیغمبر اس لئے مبعوث ھوتا ھے تاکہ لوگوں کو حق و باطل کی شناخت کرائے اور ان کو حق و باطل کے راستہ پر لاکر کھڑا کردے تاکہ اپنی مرضی اور آزادی سے یا راہ حق وحقیقت کا انتخاب کرلے یا باطل کا راستہ اپنالے اس کے لئے وہ اپنی طاقت کے ذریعہ رسالت کو قبول نھیں کراتا یا دباؤ ڈال کر اپنے نظریات لوگوں سے قبول نھیںکراتا،(کیونکھ) یہ ارادہ الٰھی کے برخلاف ھے، خداوندعالم کا ارادہ یہ ھے کہ عوام الناس حق وباطل کے راستہ کو پھچان کر آزادانہ طور پر کسی ایک کا انتخاب کریں لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ خدا کا بھیجا نبی پھلے مرحلہ میں عوام الناس سے رابطہ برقرار کرتا ھے اور ان کو اپنے سے مانوس کرتا ھے ان سے گفتگو کرتا ھے نیز عقل دلائل ، معجزات اور آیات الٰھی کے ذریعہ اپنا پیغام ان تک پھونچاتا ھے، اور حق (وحقیقت) کی پھچان کراتا ھے۔
انبیاء علیھم السلام خداوندعالم ، اس کی آیات اور الٰھی نظام کو مستقر ھونے کے سلسلہ میں عوام الناس پر کسی طرح کا کوئی سختی اور دباؤ نھیں ڈالتے تھے، ان کے اھداف میں لوگوں کی آزادی اور آگاھانہ انتخاب پر خاص توجہ رکھی جاتی تھی ، در حقیقت عوام الناس کی آزادی کا خیال دوسرے نظاموں سے زیادہ رکھا جاتا تھا، ان کی کوشش یہ ھوتی تھی کہ عوام الناس دعوت خدا اور نظام کو قبول کرنے میں مکمل طور پر آزاد ھوں اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ انسان کو خلق کرنے سے خداوندعالم کا ھدف اور مقصد یہ ھے کہ انسان آزاد اور خود انتخاب کرنے والا ھو اور اپنے مکمل اختیار اور آزادانہ طریقہ سے راہ حق کا انتخاب کرے اور اسی کی ھدایت حاصل کرے، انبیاء علیھم السلام کا دعوت خدا اور نظام الٰھی کا قیام کے لئے اپنی طاقت اور زور کا استعمال کرنا؛ خداوندعالم کے ھدف اور مقصد سے ھم آھنگ نھیں ھے اگر طے یہ ھو کہ انسان کسی راستہ کو مجبوری کی حالت میں یا طاقت کے زور پر قبول کرے تو ھوسکتا ھے کہ وہ اس راستہ کی حقانیت کو نہ پھچانے، یھاں تک کہ شاید اس راستہ کے صحیح (بھی) نہ مانتا ھو؛ کسی بھی راستہ کی حقانیت اور اس کے صحیح ھونے کومعین کرنے کے لئے پھلے اس کے بارے میں شناخت اور معرفت ضروری ھے اور آزاد طور پر اس راستہ کو انتخاب کرنے کا زمینہ ھموار کیا جائے اور پھر خداوند عالم کے اس ھدف کے تحت کہ انسان علم و آگاھی کے ساتھ آزادانہ طور پر حق و حقیقت کا راستہ انتخاب کرے، خداوندعالم نے معجزہ کے ذریعہ راہ حق کو عوام الناس پر نھیں تھونپا ھے اور اس کی مرضی بھی یہ نھیں ھے کہ معجزہ کے ذریعہ لوگوں کو آزادنہ انتخاب سے روک دے اور ان کی مرضی میں تصرف کرے تاکہ غیر اختیاری طور پر راہ حق کوقبول کرلیں، اوراس کے مقابلہ میں سست پڑجائے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:
( لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اٴَلاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ إِنْ نَشَاٴْ نُنَزِّلْ عَلَیْھمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اٴَعْنَاقُھمْ لَھا خَاضِعِینَ ) (1)
”(اے رسول)شاید تم (اس فکرمیں) اپنی جان ھلاک کر ڈالوگے کہ یہ (کفار)مو من کیوں نھیں ھو جاتے اگر ھم چاھیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کر یں کہ ان لوگوں کی گر دنیں اس کے سامنے جھک جائیں “
6۔ عوام الناس کی ھدایت میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت
قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رھے کہ خداوندعالم نے عوام الناس کی ھدایت کے لئے اپنی طرف سے انبیاء بھیجے تاکہ راہ حق و باطل میں شناخت کرائیں ، تاکہ وہ صحیح راہ کی شناخت اور معرفت کے بعد آزادانہ طور پر اس صحیح راستہ کا انتخاب کریں؛ بعض مستکبر اور منفعت طلب لوگ جو لوگوں کی جھل و نادانی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بھت زیادہ مال و دولت اکھٹا کرلیتے ھیں وہ لوگ انبیاء علیھم السلام کی دعوت حق اورلوگوں کی ھدایت میں اپنے شیطانی اھداف کی بنا پر مانع ھوتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام سے مقابلہ کے لئے کھڑے ھوجاتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام کو عوام الناس سے گفتگو بھی نھیں کرنے دیتے یا ان کو آیات الٰھی بھی نھیں سنانے دیتے تاکہ کھیں ایسا نہ ھوں کہ یہ لوگ ھدایت پاجائیں یہ لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام الناس کو بھت زیادہ آزار واذیت پھونچاتے ھیں اور ان کے لئے بھت سی مشکلیں پیدا کردیتے ھیں تاکہ عوام الناس ھدایت سے فیضیاب نہ ھوسکیں یہ لوگ جو عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھیں خداوندعالم نے ان کوقرآن مجید میں ”ائمہ کفر“ اور فتنہ وفساد کی جڑ کھا ھے ، اور حکم دیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی ان سے مقابلہ کریں اور ان کو اپنے راستہ سے ھٹا دیں؛ کیونکہ ان کا وجود اور ان کی شیطانی اور باطل حرکتیں خدائی اھداف میں مانع ھوتی ھیں کیونکہ خداوندعالم تو یہ چاھتا ھے کہ تمام انسان ھدایت سے سرفراز ھوجائیں اور راہ حق و باطل کو پھچان لیں، لیکن یہ لوگ مانع ھوتے ھیں:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے :
( فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاٰ اٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (2)
”تو تم کفر کے سربر آ وردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ان کی چار قسموں کا ھرگز کوئی اعتبار نھیں ھے تاکہ یہ لوگ اپنی شرارت سے باز آجائیں“
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سڑک پر گاڑی چلارھا ھے اور اس کے راستہ میں ایک بڑا سا پتھر موجود ھو تو اس کو اپنا راستہ طے کرنے کے لئے اس پتھر کو سڑک سے اٹھاکر دور پھیکنا پڑے گا، اور اس سلسلہ میں اپنی تمام تر کوششوں کو اس میں لگادے گا تاکہ اس پتھر کو اپنے راستہ سے ھٹا دے اصولی طور پر ھر صاحب عقل انسان اپنے راستہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرتا ھے خداوندعالم بھی اپنے اس ھدف کے تحت کہ انسان ھدایت یافتہ ھوجائے؛ حکم دیا ھے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب ، بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ھے کہ ھدایت کے سلسلہ میں موجود دنیا بھر کے استکبار ، بادشاہ، ستمگر، دولت پرست اور تمام شیطانی قدرتوں کے ساتھ جنگ کریں اور ان کو نابود کردیں۔
خلاصہ یہ کہ : خداوندعالم کا فرمان یہ ھے کہ انسانوں کی ھدایت میں جو لوگ مانع ھوں (اھل کفر وباطل)ان کے ساتھ طاقت کے ذریعہ مقابلہ کیا جائے اور شدت پسندی کو ان کے حق جائز قرار دیا گیا ھے خداوندعالم نھیں فرماتا کہ ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں اور خوش لھجہ، تبسم ، التماس اور التجا کریں کہ آپ حضرات اجازت دیں تاکہ ھم عوام الناس کی ھدایت کریں! اگر وہ اس درخواست کو قبول کرنے والے ھوتے اور اپنی خوش لھجہ زبان سے اپنی برے چال چلن سے رکنے والے ھوتے تو پھر وہ مستکبر ھی کیوں ھوتے ان میں بنیادی طور پر استکبار ، حیوانیت اور سرکشی ان کے اندر شامل ھے، وہ تو یہ چاھتے ھیں کہ دوسرے انسانوں کو اپناغلام بنا نا چاھتے ھیں اور ان کاخون پی لینا چاھتے ھیں ، وہ اس چیز کی اجازت نھیں دیتے کہ ان کے منافع خطرہ میں پڑجائیں،اسی وجہ سے یہ لوگ نھیں چاھتے کہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں اور انبیاء (علیھم السلام) کے فرمانبردار بن جائیں مومنین اور ھدایت کے طلبگاروں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نھیں ھے کہ ان لوگوں سے شدت اور تشدد کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے پیغمبر اکرم (ص) کو قرآن مجید میں حکم دیتا ھے کہ ان لوگوں سے جنگ کریں اور تشدد اور غصہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں وھی پیغمبرجس کی صفت خداوندعالم یوں بیان فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (3)
”(تو اے رسولیہ بھی)خدا کی ٍٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍایک مھربانی ھے کہ تم (سا) نرم دل )سردار) ان کو ملا اور تم اگر بد مزاج اور سخت دل ھوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے )تمھارے گروہ سے تتر بتر ھو گئے ھوتے “

Add comment


Security code
Refresh