www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2020
وسوسئہ ابليس اور آدم كے جنت سے نكلنے كے حكم جيسے واقعات كے بعد آدم متوجہ ھوئے كہ واقعاً انھوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اس اطمينان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شيطانى فريب كى وجہ سے نكلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ھوئي زمين ميں رہيں گے اس وقت آدم اپنى غلطى كى تلافى كى فكر ميں پڑے اور مكمل جان ودل سے پروردگار كى طرف متوجہ ھوئے ايسى توجہ جو ندامت وحسرت كا ايك پہاڑساتھ لئے ھوئے تھى اس وقت خداكا لطف وكرم بھى ان كى مدد كے لئے آگے بڑھا اورجيسا كہ قرآن ميں خدا وندعالم كہتا ہے:
'' آدم نے اپنے پروردگار سے كچھ كلمات حاصل كئے جو بہت موثر اور انقلاب خيز تھے ،ان كے ساتھ توبہ كى خدا نے بھى ان كى توبہ قبول كرلى كيونكہ وہ تواب والرّحيم ہے ''۔( سورہ بقرہ ايت 37﴾
يہ صحيح ہے كہ حضرت آدم نے حقيقت ميں كوئي فعل حرا م انجام نہيں ديا تھا ليكن يہى ترك اولى ان كےلئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى كيفيت وحالت كى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار كى طرف پلٹے ۔
بہرحال جو كچھ نہيں ہونا چاہئے تھا وہ ہوا اور باوجود يكہ آدم كى توبہ قبول ہوگئي ليكن اس كا اثروضعى يعنى زمين كى طرف اترنايہ متغير نہ ہوا ۔
آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے
اس سوال كے جواب ميں اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا چاہئے كہ اگر چہ بعض نے كہا ہے كہ يہ وہى جنت تھى جو نيك اور پاك لوگوں كى وعدہ گاہ ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ وہ بہشت نہ تھى بلكہ زمين كے سرسبز علاقوں ميں نعمات سے مالا مال ايك روح پر ورمقام تھا كيونكہ:
اوّل تو وہ بہشت جس كا وعدہ قيامت كے ساتھ ہے وہ ہميشگى اور جاودانى نعمت ہے جس كى نشاند ہى بہت سى آيات ميں كى گئي ہے اور اس سے باہر نكلنا ممكن نہيں ۔
دوّم يہ كہ غليظ اور بے ايمان ابليس كے لئے اس بہشت ميں جانے كى كوئي راہ نہ تھى وہاں نہ وسوسہ شيطانى ہے اور نہ خدا كى نافرمانى۔
سوم يہ كہ اہل بيت سے منقول روايات ميں يہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے:
''دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھاجس پر آفتاب وماہتاب كى روشنى پڑتى تھى اگر آخرت كى جنتوں ميں سے ہو تى تو كبھى بھى اس سے باہر نہ نكالے جاتے''
يہاں سے يہ واضح ہو جاتا ہے كہ آدم كے ہبوط ونزول سے مراد نزول مقام ہے،نہ كہ نزول مكان يعنى اپنے اس بلند مقام اور سرسبز جنت سے نيچے آئے ۔
بعض لوگوں كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ يہ جنت كسى آسمانى كرہ ميں تھى اگر چہ وہ ابدى جنت نہ تھى ،بعض اسلامى روايات ميں بھى اس طرف اشارہ ہے كہ يہ جنت آسمان ميں تھى ليكن ممكن ہے لفظ ''سماء (آسمان ) ان روايات ميں مقام بلند كى طرف اشارہ ہو ۔
تاھم بے شمار شواہد نشاندہى ہيں كرتے ہيں كہ يہ جنت آخرت والى جنت نہ تھى كيونكہ وہ تو انسان كى سير تكامل كى آخرى منزل ہے اور يہ اس كے سفر كى ابتداء تھى اور اس كے اعمال اور پروگرام كى ابتداء تھى اور وہ جنت اس كے اعمال و پروگرام كا نتيجہ ہے۔آدم كا گناہ كيا تھا :واضح ہے كہ آدم اس مقام كے علاوہ جو خدا نے قران مجيد ميں ان كے لئے بيان كيا ہے معرفت وتقوى كے لحاظ سے بھى بلند مقام پر فائز تھے وہ زمين ميں خدا كے نمائند ے تھے وہ فرشتوں كے معلم تھے وہ عظيم ملائكہ الہى كے مسجود تھے اوريہ مسلم ہے كہ آدم امتيازات وخصوصيات كے ہوتے ہوئے گناہ نہيں كر سكتے تھے علاوہ ازيں ہميں معلوم ہے كہ وہ پيغمبر تھے اور ہرپيغمبر معصوم ہوتا ہے لہذا يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ كيا تھا؟
اس سوا ل كے جواب ميں تين تفاسير موجود ہيں : آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى تھا دوسرے لفظوںميں ان كى حيثيت اور نسبت سے وہ گناہ تھا ليكن گناہ مطلق نہ تھا، گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو كسى سے سرزد ہو اور اس كے لئے سزا معين ہو (مثلا شرك،كفر ،ظلم اور تجاوز وغير ہ)اور نسبت كے اعتبار سے گناہ كا مفہوم يہ ہے كہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلكہ مستحب بھى بڑے لوگوں كے مقام كے لحاظ سے مناسب نہيں انہيں چا ہئے كہ ان اعمال سے گريز كريں اور اہم كام بجالائيں ورنہ كہا جائے گا كہ انہوں نے ترك اولى كيا ہے ہم جو نماز پڑھتے ہيں اس كا كچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے كچھ بغير اس كے، يہ امر ہمارے مقام كے لئے تو مناسب ہے ليكن حضرت رسول اسلام(ص) اور حضرت على (ع) كے شايان شان نہيں ان كى سارى نماز خداكے حضور ميں ہو نى چاہئے اور اگر ايسا نہ ہو توكسى فعل حرام كا ارتكاب تو نہيں تاہم ترك اولى ہے ۔
جنت سے اخراج
قرآن داستان حضرت ادم عليہ السلام كو اگے بڑھاتے ہوئے كہا ہے، بالآخر شيطان نے ان دونوں كو پھسلاديا اور جس بہشت ميں وہ رہتے تھے اس سے باہر نكال ديا۔( سورہ اعراف آيت 20،21﴾
اس بہشت سے جو اطمينان و آسائشے كا مركز تھي، اور رنج و غم سے دور تھى شيطان كے دھوكے ميں آكر نكالے گئے، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:
''اور ہم نے انھيں حكم ديا كہ زمين پر اُترو ، جہاں تم ايك دوسرے كے دشمن ہوجائو گے ( آدم و حوا ايك طرف اور شيطان دوسرى طرف﴾
مزيد فرمايا گيا:'' تمہارے لئے ايك مدت معين تك زمين ميں قرار گاہ ہے، جہاں سے تم نفع اندوز ہوسكتے ہو''يہ وہ مقام تھا كہ آدم متوجہ ہوئے كہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور بہشت كے آرام دہ اور نعمتوں سے مالا مال ماحول سے شيطانى وسوسے كے سامنے سر جھكانے كے نتيجے ميں باہر نكا لے جارہے ہيں اور اب زحمت ومشقت كے ماحول ميں جاكر رہيں گے يہ صحيح ہے ،كہ آدم نبى تھے اور گناہ سے معصوم تھے ليكن جيسا كہ ہم آئندہ چل كربيان كريں گے كہ كسى پيغمبر سے جب ترك اولى سرزد ہوجاتا ہے تو خدا وند عالم اس سے اس طرح سخت گيرى كرتا ہے جيسے كسى عام انسان سے گناہ سرزد ہونے پر سختى كرتا ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh