www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا


شیعہ افراد اور شیعہ مذھب کے لئے تاریخ میں سب سے زیادہ مشکل حالات معاویہ کی بیس سالہ حکومت کے دوران تھے جس میں شیعوں کے لئے کسی قسم کا امن و چین موجود نہ تھا ۔ ادھر شیعوں کے دو امام (امام دوم اور امام سوم )معاویہ کے زمانے میں حالات کو بھتربنانے او ر خلافت کو لوٹانے میں بے بس اور بے اختیار تھے حتیٰ کہ تیسرے امام امام حسین علیہ السلام یزید کی سلطنت کے پھلے چہ مھینوں کے دوران ھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے ۔ آپ(ع)اپنے دوستوں او ر اصحاب و اولاد کے ساتھ یزید کی مخالفت کرتے ھوئے شھید ھوگئے ۔ معاویہ کی آخری دس سالہ خلافت کے دوران اس بات کا امکان بھی نہ تھا کہ خلافت دوبارہ اھل بیت علیھم السلام کو واپس مل جائے ۔
اھلسنت کے اکثر افراد اس قسم کی خلاف ورزیوں اور ناحق قتل و غارت جو بعض اصحاب رسول اور خصوصا ً معاویہ کے ھاتھوں ھوئیں ،کی اس طرح توجیہ کرتے ھیں کہ وہ رسول اکرم (ص)کے اصحاب تھے اور اصحاب رسول مجتھد اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث کے مطابق ھرکام میں معذور ھوتے ھیں ۔لھذا خدا ان سے راضی ھے اورکسی بھی قسم کے جر م او ر قتل کا خداوند تعالیٰ ان سے حساب نھیں لیتا اورہ بخش دئے جاتے ھیں لیکن شیعہ اس عذر کو تسلیم نھیں کرتے ۔
سب سے پھلے تو یہ بات معقول او رصحیح نظر نھیں آتی کہ پیغمبر اکرم (ص) جیساایک عمومی اورمعاشرتی رھبر ایک جماعت یاگروہ کو عدل و آزادی کی خاطر اپنا ھم عقید ہ بنائے اور اس کو ظلم و ستم کے خلاف ابھارے ساتھ ھی اپنی تمام زندگی اسی مقدس او ر پاک مقصد کی خاطر وقف کردے اور اپنے خدائی نظریے کو عملی جامہ پھنائے لیکن جب اپنے مقصد اور مطلب کوحاصل کرنے میں کامیاب ھوجائے تو اپنے دوستوں اوراصحاب کو عوام اور مقدس قوانین کے بارے میںمکمل آزادی دیدے تاکہ ھر قسم کی حق کشی، خلاف ورزی ، تخریب کاری اور لاقانونیت وغیرہ ان کے لئے معاف ھو جائے ۔ اس کا مطلب یہ ھوگا کہ اس رھبرنے جن ھاتھوں سے اور جن ذرائع سے ایک عظیم الشان عمارت کی بنیاد رکھی تھی انھیں ھاتھوں سے اسے تباہ وبرباد کردیا۔
دوسرے یہ کہ وہ روایات جن سے صحابہ کرام کو مقدس ، پا ک اور ان کے ھر ناجائز اعما ل کو صحیح اور جائز کھے جانے کے ساتھ ساتھ ان کو قابل بحشش سمجھا جاتا ھے ،خود صحابہ ھی سے ھم تک پھنچی ھیں یا ان سے منسوب کردی گئی ھیں ۔ تاریخی شواھد کے مطابق خود صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں اس قسم کی معذوریت اور بخشش کے قائل نھیں تھے کیونکہ یہ اصحاب ھی تھے جنھوں نے سب سے پھلے ایک دوسرے کوبدنام کرنے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کھنے کے لئے زبان کھولی تھی اورایک دوسرے کے عیوب اور اشتباھات کوقطعاً نظر انداز نھیں کیا کرتے تھے ۔
مندرجہ بالانکات کی روشنی میں خود صحابہ کی گواھی کے مطابق یہ روایات واحادیث صحیح نھیں ھیں اور اگر ھوں بھی تو انکے معنی کچھ اور ھوں گے،ان سے صحابہ کی تقدیس (مقدس اور پا ک ھونے )یا قابل بخشش ھونے کا مقصد ھرگز نھیںھوگا ۔
اور اگر فرض کریں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے بارے میں کسی وقت اپنے کلام پاک میں ان کی خدمت دین کے صلہ میں یاکسی خدائی فرمان کے جاری اور نافذ کرنے کی خاطر ان سے راضی ھوجانے کا اعلان فرمایاھے تو اس کا مطلب ان اصحاب کی گزشتہ فرمانبرداری اور اطاعت کی ستائش ھوگا نہ کہ آئندہ اورمستقبل میں ھرقسم کی نافرمانی اورخلاف ورزی یا اپنی مرضی سے کام کرنے کی اجازت کے متعلق تصدیق ۔

Add comment


Security code
Refresh