www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایک جگہ تین مختلف قوموں کے آدمی جمع تھے ۔ سلمان فارسی ،صھیب رومی ، بلال حبشی ، اتنے میں وھاں قیس آیا اس نے تینوں کی اھمیت کو دیکھتے ھوئے کھا : اوس و خزرج تو خیر عرب تھے جنھوں نے اپنی خدمات و فدا کاری کے ذریعے رسول خدا کی مدد کی مگر یہ تین آدمی کھاں سے آٹپکے؟ کس نے ان کو پیغمبر کی مدد کے لئے بلایا تھا ؟ جب رسول خدا کو اس کی خبر ھوئی تو بھت ناراض ھوئے لوگوں کو مسجد میں جمع ھونے کا حکم دیا اور ان سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا :خدا ایک ھے ،تمھارا باپ ایک ھے ۔ تمھارا دین ایک ھے ، جس عربیت پر تم فخر کر رھے ھو ، نہ وہ تمھاری ماں کی طرف سے آئی ھے اور نہ باپ کی طرف سے عربیت تو صرف تمھاری زبان ھے ۔
مشھور فرانسیسی دانش مند ڈاکٹر گسٹاوے لیبون( GUSTAVELEBON)لکھتا ھے :مسلمانوں میں مساوات و برابری حد درجہ تھی ،یورپ میں جس مساوات کا ذکر بڑی شدت سے کیا جاتا ھے اور مختلف لوگوں کے زباں زد ھے یہ صرف کتابوںکی حد تک ھے ۔ خارج میں اس کا کوئی اثر نھیں ھے ۔ یہ چیز مسلمانوں میں عملی طور سے موجود تھی اور مشرقی معاشرت کا جزو تھی ، طبقاتی اختلافات جن کی بناء پر یورپ میں انقلاب آیا مسلمانوں میں نھیں ھے پیغمبر اسلام کی نظر میں ھر مسلمان برابر ھے ۔ دنیائے عرب میں ایک ایسی شخصیت پیدا ھوئی جس نے مختلف اقوام و قبائل کو ایک جھنڈے تلے جمع کردیا ۔ اور ان کو مخصوص قوانین و نظام کی مضبوط زنجیر میں باندہ دیا ۔ کسی بھی مملکت کا رھنے والا مسلمان دوسروں کے لئے اجنبی نھیں ھے ، مثلا ایک چینی مسلمان کا حق اسلامی ملکوں میں اتنا ھی ھے جتنا کسی اسلامی ملک کے رھنے والے کا ھے ۔ اگر چہ خود مسلمان نسل و ملیت کے لحاظ سے اختلاف رکھتے ھیں لیکن مذھبی رشتے کی بنا پر ان کے اندر ایک خاص قسم کا معنوی ربط موجود ھے جس کی بناء پر وہ بھت آسانی سے ایک جھنڈے کے نیچے جمع ھو جاتے ھیں ۔ (۷)
ایم یو لوپلائے(M.U.LEPLAV) لکھتا ھے : کاریگروں اور ستم دیدہ افراد کے اصلاح حال کے سلسلے میں برے نتائج سے یورپ میں انتظامیہ دوچار ھوئی ھے ، اسلامی معاشرے میں اس کا وجود نھیں ھے۔ مسلمانوں کے یھاں بھترین انتظامیہ ھے جس کی بناء پر امیر فقیر کے درمیان صلح و آشتی قائم رھتی ھے ۔ صرف اتنا کھہ دینا کافی ھے جس قوم کے لئے یورپ کا دعویٰ ھے کہ ان کو تعلیم دے کر تربیت دینی چاھئے واقعا ًخود یورپ کو اس سے سبق لینا چاھئے ۔ اسلام میں ممتاز طبقے ، موروثی منصب کا کوئی وجود نھیں ھے۔ اسلام کا سیاسی نظام بھت ھی سادہ ھے اور اس نظام کے تحت جن لوگوں کوادارہ کیا جاتا ھے اس میں شریف ، رذیل ، امیر فقیر سیاہ و سفید سب ھی برابر ھیں ۔( ۸)
گب(GOB) اپنی کتاب میں لکھتا ھے : اسلام میں ابھی اتنی قدرت ھے کہ انسان کی بزرگ و عالی خدمت انجام دے ۔ اصولی طور پر اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذھب یا گروہ ایسا نھیں ھے جو انسان کے مختلف نسلوں کو کسی ایک ایسے مقصد پر جمع کرا کے جس کی بنیاد مساوات پر ھو عظیم کامیابی سے ھمکنار ھو سکے ۔ افریقہ ھندوستان و انڈونیشیا میں عظیم اسلامی معاشرہ اور چین میں یھی چھوٹا معاشرہ اور جاپان میں بھت ھی قلیل اسلامی معاشرہ خبر دیتا ھے کہ اسلام کے اندر ایسی طاقت ھے جو ان تمام مختلف عناصر و طبقات کے درمیان اثر انداز ھو سکے ۔ اگر کبھی مشرق و مغرب کی بڑی حکومتیں اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے کسی ترازو کا سھارا لیں تو وہ سوائے اسلام کے اور کوئی نھیں ھو سکتا ۔
مراسم حج میں بھی وحدت فکر و عمل کی بنیا د پر اسلامی تعلیم استوار کی گئی ھے۔ ظاھری امتیازات کا وھاں کوئی شائبہ بھی نھیں ملتا ۔خانہ کعبہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کو اپنی عجیب و غریب قوت جاذبیہ کی بنا ء پر اپنی طرف کھینچ لیتا ھے ۔تمام لوگ صرف ایک قانون کی پیروی کرتے ھیں اور کسی سیاہ و سفید ، سرخ و زرد امتیاز کے بغیر ایک صف میںپھلو بہ پھلو پر شکوہ وباعظمت مراسم کو بجا لاتے ھیں ۔
فیلپ ھٹی(PHILIPHATTI) ایک یونیورسٹی کا استاد لکھتا ھے : اسلام میں فریضھٴ حج کی بنیاد تمام زمانوں میں ایک اھم اجتماع کا سبب ھے اور مسلمانوں میں سب سے بڑا اجتماع یھیں ھوتا ھے ،کیونکہ ھر مسلمان پر واجب ھے کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ۔بشرط استطاعت ۔ اس فریضہ کو بجالائے ۔ یہ عظیم اجتماع جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاروں طرف سے کھینچ لیتا ھے ، عجیب و غریب اثر رکھتا ھے جس کا انکار ناممکن ھے ۔
اپنے خدا کے حضور میں زنگی ، بربری ، چینی ، ایرانی ، ھندی ، ترکی ، شامی ، عربی ، غنی ، فقیر ، بلند ، پست سب ھی مل جل کراور متحد ھو کر کلمھٴ” شھادتین “ پڑھتے ھیں ۔ ساری دنیا میں غالباً ایک اسلام ھی ایسا مذھب ھے جس نے خون ،نسل ، رنگ ، قومیت کے حدود و فاصلوں کو ختم کر دیا ھے اور اسلامی معاشرے کی چار دیواری میں ایسا اتحاد اور یگانگت قائم کی ھے کہ اسلامی نقطھٴ نظر سے افراد بشر کے درمیان کفر و ایمان کے علاوہ کوئی حد فاصل نھیں ھے ۔ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ عظیم سالانہ اجتماع اس نظریہ کے ما تحت عظیم ترین خدمت انجام دیتا ھے ۔ اورلاکھوں ایسے آدمیوں کے درمیان جو دنیا کے مختلف گوشوں میں زندگی بسر کرتے ھیں، دین و مذھب الٰھی کو منتشر کرتا ھے ۔( ۹)
افسو س کی بات ھے کہ بعض اسلامی ممالک میں مختلف نسلی و قومی و ملی تعصب پیدا ھو گیا ھے جو روح اسلام کے قطعاً منافی ھے ۔ اسلام کا عدالتی نظام بھی ایسی برابری و مساوات پر مبنی ھے جس کی مثال آج کی متمدن دنیا میں نھیں مل سکتی ۔ حالانکہ متمدن دنیا کا مقصد برابری ھے لیکن اب تک یہ بات حاصل نھیں ھو سکی ۔ تاریخ کے تاریک ترین دور میں بھی انسانوں کے دلوں میں اسلام نے جو شعلہ روشن کیا تھا وہ خاموش نھیں ھو سکا ۔ ھارون رشید کو قاضی کے سامنے ایک واقعہ میں قسم کھانے کے لئے بلایا گیا تھا اور” فضل بن ربیع “نے ھارون کی موافقت میں گواھی دی تھی لیکن قاضی نے فضل کی گواھی کو رد کر دیا جس پر ھارون کوغصہ آگیا کہ فضل کی شھادت اور گواھی کیوں نھیںمانی جا رھی ھے ۔ قاضی نے کھا کہ میں نے فضل کو یہ کھتے ھوئے سنا ھے کہ وہ تم سے کھہ رھا تھا ” میں آپ کا غلام ھوں “ اگر فضل نے یہ بات سچ کھی تھی تو غلام کی گواھی آقا کے حق میں قبول نھیںھوتی اور اگراس نے جھوٹ کھا تھا تو جھوٹے کی گواھی اسلام میں قابل قبول نھیںھے اس لئے میں نے فضل کی گواھی رد کر دی ۔
منصور خلیفہ عباسی نے حج کے لئے کچھ اونٹوں کو کرایہ پر لیا ،لیکن مراسم حج تمام ھونے کے بعد مختلف حیلوں سے کرائے کو ٹالتا رھا اور نہ دیا آخر شتر بانوں نے قاضی مدینہ کے یھاں شکایت کی ۔ قاضی نے فوراً خلیفہ کو عدالت میں حاضر ھونے کا حکم دیا اور منصور شتر بانوں کے پھلو بہ پھلو عدالت میں آکر بیٹھا ۔ قاضی کا فیصلہ منصور کے خلاف ھوا اسی وقت قاضی نے منصور سے کرایہ وصول کر کے شتربانوں کے حوالے کر دیا۔
ڈاکٹر گوسٹاوے لیبون(GUSTAVELEON)لکھتا ھے : مسلمانوں کے عدالتی امور کا انتظام اور فیصلوں کی ترتیب بھت ھی مختصر و سادہ ھے ۔ ایک شخص جو بادشاہ کی طرف سے حج کے عھدے پر فائز ھوتا ھے ، تمام دعوؤں کو شخصی طور پر خود ھی سنتا ھے اور فیصلہ کرتا ھے اور اس کا حکم قطعی ھوتا ھے ۔ مدعی اور مدعا علیہ عدالت میں حاضر ھو کر اپنے دعوے پر دلیل پیش کرتے ھیں اور پھر اسی نشست میں قاضی کی طرف سے فیصلہ ھو جاتا ھے ۔ اور اسی وقت حکم صادر کر دیا جاتا ھے ۔ مراکش میں مجھے ایک قاضی کی عدالت میں فیصلہ سننے کا اتفاق ھوا ۔ قاضی دار الحکومت کے قریب ایک مکان میں مسند قضا پر بیٹھا تھا مکان چاروں طرف سے کھلا تھا ۔ مدعی اور مد عا علیہ اپنے اپنے گواھوں کے ساتھ اپنی اپنی جگھوں پر بیٹھے تھے اور اپنے مطلب کو سادہ مختصر لفظوں میںبیان کر رھے تھے بعض فیصلوں میں اگر کسی کو کوڑے لگانے کا حکم دیا جاتا تھا تو ختم مجلس کے بعد وھیں کوڑے لگا دئے جاتے تھے۔
اس طرح کی عدالت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ مدعی اور مدعا علیہ کا قیمتی وقت بچ جاتا ھے اور عدالتی کا رروائیوںکی پیچیدگی اور کمر توڑ مالی نقصان سے آدمی بچ جاتا ھے ۔ سادگی کے باجود تکلفات کے بغیرتمام احکام عدالتی طور پر نافذ ھو جاتے ھیں ۔ معاشرے کے افراد جب اس بات پرمطمئن ھوں کہ ان پر نافذ ھونے والا قانون الٰھی قانون ھے اور قاضی بھی لوگوں کی طرح برابر کا حقوق رکھتا ھے اور مسند قضا پر بیٹھنے والا قاضی ھر حکم خدائی قانون کے ما تحت دیتا ھے اپنی خواھشات سے نھیں دیتا تو ایسی صورت میں لوگوں کی تشویش ختم ھو جاتی ھے ۔ اور معاشرہ کا ھر فرد آرام و سکون سے رھتا ھے ۔
اگر دنیا عدالتی بے راہ روی اور اھر منی چنگل سے نجات چاھتی ھے اور نسلی امتیازات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاھتی ھے تو اس کو اسلام کے سیاسی و انتظامی اصول و قوانین سے روشنی حاصل کرنی چاھئے۔ لیکن آج کی دنیا میں قومی مسائل ، جغرافیائی منطقوںاور نسلی امتیاز کے ارد گرد گھومتے ھیں اس لئے آج کی دنیا موجودہ مشکلات کو حل کرنے پر قادر نھیں ھے ۔ اور نہ روئے زمین پر بسنے والی قوموں کو تمام اختلافات کے باوجود باھم مربوط کر سکتی ھے۔ دوسری طرف جدید نیشنیلیزم(NEW NATIONALISM)کی دل فریب باتیں آج بھت سے ملکوں میں جڑ پکڑتی جا رھی ھیں جس کی وجہ سے وہ ممالک خود ھی تشتت و پراگندگی ، نزاع و کشمکش کا شکار ھیں ۔
لویس ایل سنایڈر( LOESL.SNAEDER) امریکہ یونیورسٹی کا استاد اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتا ھے : جدید نیشنلیزم کے ضمن میں بے شمار تاریخی و طبیعی کشمکش پیدا ھو گئی اور اقتصادی و فرھنگی مناسبات جوان میں مدت سے برقرار تھیں ۔وہ بھی ختم ھو گئیں ۔ اس کا قھر ی نتیجہ بے امنی تھا جس کی وجہ سے بھت سی جگھوں پر شخصی آزادی کی محدودیت ،جنگی اسلحوں کی کثرت ، بین المللی روابط کی قلت کی صورت میں ظاھر ھوا ۔
استقلال و حاکمیت جوبیسویں صدی کے آخر میں زیادہ وسیع ھوئی اور جس کو مقدس شمار کیا جاتا ھے، اس میں یہ صلاحیت نھیں تھی جو شخصی آزادی کو وسعت دے سکے اور بین المللی روابط کے لئے اطمینان بخش ھو سکے ۔(۱۰)
صر ف ایک چیز جو سب کو ایک پرچم کے نیچے لا سکتی ھے اور بشریت کی خدمت کر سکتی ھے وہ وھی اتحاد و یگانگت ھے جو ایمان باللہ اور روحانی و اخلاقی فضائل کے محور پر گھومتی ھے ۔ کیونکہ اس قسم کے اتحاد میں برادری کی روح بیدار ھوتی ھے اور دل و فکر باھم مربوط ھو جاتے ھیں ۔ نسلی امتیاز ، قومی اختلاف قسم کی چیزیں اس میںخلل انداز نھیں ھو سکتیں ۔
اسلام انسانی معاشرے کو بھت اونچا کرنا چاھتا ھے اور چاھتا ھے مسلمانوں میں اتحاد رھے اور ان کے دل پاک اور انسانی احساسات سے بھر پور رھیں ۔ خدا نے دنیا اس لئے نھیں پیدا کی ھے کہ انسانی قلوب میں شگاف و فاصلے باقی رھیں ۔ ارشاد ھوتا ھے : ’ انسانو ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیز گار ھے وہ اللہ ھر شے کا جاننے والا اور ھربات سے با خبر ھے “۔( ۱۱)
اسلامی برادری ایک بھت ھی اھم و واقعی مسئلہ ھے جس میں ھر قسم کی محبت و عطوفت کو ھونا چاھئے ۔ اگر چہ مغربی غلط افکار کے تاثر کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں روح مادیت و سود خوری وسیع ھو گئی ھے لیکن پھر بھی بھت سے مسلمانوں کی زندگی ان خرافات سے خالی ھے ۔ اسی لئے ایک مغربی سیّاح کھتا ھے: شفقت ، مھربانی ، مھمان نوازی ، غریب پروری ، مشرقی لوگوں کا خاصہ ھے جس میںاسلامی تعلیمات نے اور زیادہ جلا بخشی ھے ۔ ان میں سے تھوڑی سی بھی خصوصیت یورپی لوگوں میں نھیں پائی جاتی ۔

Add comment


Security code
Refresh