www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بھر حال سوال یہ تھا کہ اتنے عروج کے بعد مسلمان تنزلی کا شکار کیوں ھو گئے ؟ میں پھر آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آغاز اسلام کی پھلی چار صدیوں کا بغور مطالعہ کیجئے ، دیکھئے عالم اسلام کی ان پھلی چار صدیوں کو ”ورڈیڈ “کس انداز میں بیان کرتا ھے ؟ خود مسلمان مورخین کیا کھتے ھیں ؟ خود اپنی جگہ ھماری کتاب و سنت نے کس عظیم تمدن کی تاسیس کی ھے ؟
اھل مغرب کیا کھتے ھیں یہ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ھوں ۔خود اھل مغرب کے بقول اسلام اس عروج پر تھا کہ اسلامی شھر علم و تمدن کا گھوارہ کھے جاتے تھے ،بغداد مرکز تمدن کے طور پر جانا جاتا تھا ۔اھل مغرب کو جس زمانے میں شھری زندگی کی خبر تک نھیں تھی مسلمان اسلامی ممالک میں علم و ھنر اور بھترین اجتماعی اخلاق کے ساتھ مھذب ترین شھری کی حیثیت سے زندگی گزار رھے تھے ۔ دشمن اپنی زندگی دیکہ رھا ھے ، جھاں تک خود اھل مغرب نے اعتراف کیا ھے ویل ڈورنٹ اعتراف کرتا ھے ۔ مغرب میں نشأ ت الثانیہ(renaissance) کا وجود میں آنا ،نشأت الثانیہ کا مطلب فارسی میں نوزائی ھوتا ھے یا میرے اپنے الفاظ میں ” تولد جدید “۔نشأ ت الثانیہ کے وجود میں آنے کے چند اسباب ھیں۔ ان میں سے ایک اھم ترین سبب صلیبی جنگوں کے دوران علم و تمدن کا مغرب کی طرف منتقل ھونا ھے ۔ آئیے پھر سے دیکھتے ھیں اھل مغرب نے کیا لکھا ھے ۔ کھتے ھیں کہ صلیبی جنگوں میں ایلٹیلیا جو سب سے بڑا مال غنیمت لے کر گیا وہ ، وہ چھوٹی چھوٹی کشتیاں تھیں جن میں مشرقی اور اسلامی ممالک کے کتب خانے اور علوم مغرب کی طرف منتقل کئے جارھے تھے ۔ میں آپ سے ایک بات کھنا چاھتا ھوں بڑی عجیب بات ھے خود اھل مغرب کھتے ھیں، بڑی توجہ کی ضرورت ھے، توجہ فرمائیے گا،کھتے ھیں کہ مغرب کو خود اپنی قدیم تھذیب کی کوئی شناخت نھیں تھی ، نہ ارسطو کو جانتے تھے نہ افلاطون کو اور نہ ھی سھراب کے بارے میں کوئی خبر رکھتے تھے ۔ صلیبی جنگوں کے دوران، قدیم یونانی کتب کے عربی تراجم کو دیکہ کر سمجھے کہ کوئی ارسطو ، سقراط اور افلاطون بھی تھے ۔ اس وقت انھیں خود اپنے قدیم علماء اوراسکالرز کی خبر ھوئی یعنی خود اپنے علماء کی انھیں کوئی شناخت نھیں تھی اور یہ شناخت بھی انھیں مشرق ھی سے حاصل ھوئی ۔ جیسا کہ میں نے کھا کل رھبر انقلاب اسلامی کا اشارہ بھی یھی تھا کہ ھم مغربیوں کے استاد تھے، انھوں نے ھر چیز ھم سے سیکھی، ھمارے شاگرد تھے اور آج ھمارے آقا و مولا بن گئے ۔ وہ سب کچھ یھیں سے لے کر گئے ھیں ۔ اب ھندوستانی مسلمانوں کی مشکلات اور ان کی پسماندگی کے کیا اسباب تھے ۔ میں کچھ بنیادی باتیں عرض کرنا چاھوں گا ۔
پھلی بات اور پھلا سبب جو سب سے زیادہ اھم اور قابل توجہ ھے وہ حقیقی اسلام سے دوری ھے ۔ اسلام میں تحریف کر دی گئی، اسلام کے ساتھ بھی وھی ھوا جو اس سے قبل کے ادیان کے ساتھ ھوا ۔ اس مقدس کتاب کی آیات اور الفاظ تو بدل نہ سکے جس طرح توریت اور انجیل میں الفاظ کی تحریف ھوئی ،وہ تو نہ کر سکے لیکن کلام الٰھی میں معنوی تحریف کر دی گئی ، مختصراً یوں کھا جائے کہ اسلام کی روح نکال کر اسے ایک بے روح نقش میں بدل دیا گیا ۔
ایک بورڈیا پردہ پر اگر شیر جیسے قوی درندے کی پینٹنگ ھو تو اس سے کون ڈرتا ھے ؟کون اس سے ڈرے گا؟ اس شیر سے وھی شخص بھاگے گا جس کے خیال میں یہ واقعی اور اصلی ھو ۔ لیکن پینٹنگ کے سامنے ایک دوسال کا بچہ بھی آکر کھڑا ھو جاتا ھے اور ھرگز نھیں ڈرتا۔،پانی کے کسی حسین چشمہ کی پینٹنگ کسی کی پیاس نھیں بجھاسکتی اور نہ کوئی اور فائدہ پھونچا سکتی ھے ۔ اسلام چشمہ حیات کا نام ھے ، اسلام ایک عظیم طاقت کا نام ھے، لیکن شرط یہ ھے کہ اسلام واقعی اور اصلی ھو، اسلام کی نقاشی یا پینٹنگ کسی کام کی نھیں ھے ۔ جب قرآن میں توریت وانجیل جیسی تحریف نہ کر سکے تو اس کے معنی اور تفسیر بدل دی تو مسلمان دھیرے دھیرے اصلی اسلام سے دور ھوتے چلے گئے ۔ اصلی اسلام وھی ھے جسے امام خمینی ۺ اسلام ناب کھتے تھے، یعنی روح و جان والا اسلام ، ترقی پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے والا اسلام،اسلام یعنی مکتب زندگی ۔اسلام شخصی اور انفرادی احکام اور چند آداب و رسوم کا نام نھیں ھے ۔ کچھ لوگ اس بات کو پھر سے زندہ کرنا چاھتے ھیں کہ دین ھر شخص کا انفرادی معاملہ ھے، آپ اس بات کو سنجیدگی سے لیجئے ،اس کے پیچھے ایک بڑی سازش کا ر فرما ھے ۔یہ دین کو بے کار کر دینے کا ایک حربہ ھے ۔ یہ لوگ کھتے ھیں کہ دین کا کام فقط بندے کو خدا سے جوڑنا ھے اس کے علاوہ دین کسی کام کا نھیں ھے ۔ انسان کا رابطہ خدا سے بر قرار کرانا ، یہ دین کا کام ھے۔ لیکن ایک انسان کا رابطہ دوسرے انسانوں سے کیسا ھو اس میں دین کا کوئی عمل دخل نھیں ھے ۔ دین آخرت آباد کرنے کے لئے آیا ھے نہ کہ دنیا آباد کرنے کی خاطر اور وہ بھی اس آخرت کو آباد کرنے کے لئے جو دنیا کے بالکل مقابل ھے ۔
مختصر یہ کہ دین کی بھت ساری تعریفات کی جاتی ھیں۔ میں اس موضوع پر کچھ نھیں کھنا چاھتا ۔ شروع سے یہ ھوتا چلا آیا ھے اور اب بھی کوئی نہ کوئی ایسا کرنے والا نکل ھی آتا ھے۔ ایک نمونہ عرض کرتا ھوں ۔رحلت پیغمبر اسلام کے بعدصحابہ کے زمانے میں ھی اسلام میں اتنی بڑی تحریف کی گئی کہ اسلام مر گیا یا دوسرے لفظوں میں کھوں نماز تھی ، محراب عبادت تھی ، لیکن کسی کام کی نھیں۔ یہ وھی اسلام ھے جس میں قرآن مجید ولایت اھلبیت (ع) سے جدا سمجھا جاتا ھے ۔لھذا یہ اسلام کسی کام کا نھیں ھوتا ۔ دیکھئے قرآن اور سنت دونوں نے یہ بات بھت زور دے کر کھی ھے کہ اسلام کے دو حصے ھیں۔ خدا وند کریم اس وقت اس دین سے راضی ھوا ھے جب قرآن اور وحی الٰھی جیسے آئین کے ساتھ ساتھ ولایت اھلبیت (ع) یعنی اس قرآن کے مفسر و مبین بھی ھوں ۔قرآن اور سنت دونوںنے اس بات کی بھت تاکید کی ھے، میں تفصیل میں نھیں جانا چاھتا آپ مجھ سے بھتر جانتے ھیں ۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں کھا کہ اسلام ایک کامل دین بن چکا ھے، خدا کی نعمتیں مکمل ھو چکی ھیں اور ان سب سے بڑہ کر یہ کہ خدا اس دین سے راضی ھو گیا ھے ۔ ” رضیت لکم الاسلام دینا “ یہ” رضیت “یعنی تائید اور دستخط یعنی میں نے پسند کر لیا ھے ، قبول کر لیا ھے ۔ مطلب یہ کہ خدا وند کریم نے اس اسلام پر مھر تائید لگائی ھے جو اسلام ولایت اھلبیت علیھم السلام کے ساتھ ساتھ ھو ۔ ولایت سے جدا اسلام سے خدا راضی نھیں ھے ۔یہ ایک حقیقت ھے ۔خدا نے کس اسلام کو دشمن کے لئے زور دار طمانچہ قرار دیا ھے ؟ کون سا اسلام استکباری طاقتوں سے نبر د آزما ھے ؟ کون سا اسلام دشمنوں کو آپ پر حکومت کرنے کی لالچ سے دور رکھتا ھے ؟ ” الیوم یئس الذین کفرو من دینکم “ کون سا اسلام دشمنوں کے لئے یاس و نا امیدی کا سبب ھے ؟ صرف وھی اسلام جس میں اھلبیت اطھار ولایت رکھتے ھوں ۔
 یہ بحث کافی مفصل ھے ، ساری تفصیلات میں جانے کا وقت نھیں ھے ۔ آپ سب جانتے ھیں مجھ سے زیادہ آپ نے اس موضوع پر کام کیا ھو گا ۔پیغمبر نے بھی اسی بات کی تاکید کی ھے ۔ بھت ھی کم کوئی حدیث ھو گی جو اپنی عظمت اور تواتر میں حدیث ثقلین کے ھم پلہ ھو ۔ ٹھیک ھے یا نھیں ؟! شیعہ اور سنی دونوں میں حدیث ثقلین جیسی حدیث متواتر شاذ و نادر ھی ملے گی ۔ حدیث ثقلین میں پیغمبر کس بات پر زور دے رھے ھیں ۔ میں دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاھوں گا اوریہ دونوں باتیں بھت ھی اھم ھیں ۔ پیغمبر اسلام انھیں دو باتوں پر زور دے رھے ھیں تاکید کر رھے ھیں۔ ایک یہ کہ ” قرآن کا عترت و ولایت سے جدا نہ ھونا “ اس کا مطلب کیا ھے ؟ قرآن مجید ولایت سے اور عترت سے جدا نھیں ھے۔ اس جملہ کا کیا مفھوم ھے ؟ کیا اس کا مفھوم یہ ھے کہ اگر قرآن ولایت سے جدا ھو گیا تو وہ قرآن نھیں رھے گا؛نھیں قرآن تو ھے لیکن اس میں وہ روح اور حیات نھیں ھے جس کے پیغمبرطلبگار ھیں ، قرآن مجید کھتا ھے کہ پیغمبر اور اس قرآن کا کام کیا ھے ؟ سورۂ انفال کی پچیسویں آیت میں قرآن مجید پیغمبر کی اطاعت کی کیا خاصیت بیان کر رھا ھے ؟ ” یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا لِلّٰہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم “ اسلام اس لئے آیا ھے تاکہ تمھیں حیات طیبہ عطا کرے، تمھیں حیوان کے درجہ سے نکال کر انسان کے درجہ تک پھونچا دے۔ اس ماڈرن دور میں ھیومنزم(Humanism)کھتا ھے کہ خدا کے بجائے مرکزیت انسان کوحاصل ھونا چاھئے ۔ ھیومنزم کی لغت میں وہ کون سا انسان ھے جو مرکز بن سکتاھے محور قرار پا سکتا ھے اگر خدا ملجاء و ماٴویٰ نہ ھو؟ کھتا ھے کہ خدا کی جگہ ھر انسان محو ر و مرکز بن سکتا ھے ۔ ھمارا اور آپ کا قرآن کیا کھتا ھے ؟ قرآن مجید چودہ سو سال پھلے فرما رھا ھے کہ انسان اس وقت تک انسان بن ھی نھیں سکتا جب تک کہ خدا کو محور و مرکز قرار نہ دے ۔
کتنی اچھی اور حسین بات ھے کہ تم انسان بن ھی نھیں سکتے، تم میں حیات انسانی آھی نھیں سکتی خدا کو محور بنائے بغیر،کیوں ؟ اس لئے کہ تمھارے وجود کا ایک بھت بڑا امر صرف خدا سے مخصوص ھے ۔ تم ایک نا محدود موجود ھو ، تم ایک ایسی مخلوق ھو جو کبھی سیر ھو ھی نھیں سکتی لھذا ایک دوسرے مقام پر ارشاد ھوا کہ مال و دولت جاہ و منصب ھر چیز سے ھٹ کر انسان جب خدا کو چھوڑ دے تو یہ انسان بے چینی و اضطراب اور نفسیاتی مرض کا شکار ھوتا ھے ” و من اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا“ ۔واقعاً بڑی پیاری بات ھے۔ قرآن مجید عجیب و غریب کتاب ھے۔ خدا ھم مسلمانوں کو توفیق دے کہ ھم قرآن کی طرف پلٹ آئیں ۔بھر حال ایک بھت بڑا انحراف وھاں سے شروع ھو گیا ، پھلے جملہ میں پیغمبر قرآن و اھلبیت علیھم السلام کے ایک دوسرے سے جدا نہ ھونے کا ذکر فرما رھے ھیں ، حدیث کا دوسرا جملہ بھی بھت اھم ھے ۔ حدیث ثقلین کی طرف کم توجہ دی جاتی ھے لیکن میرے لئے اس کا یہ نکتہ بھت ھی اھمیت رکھتا ھے ۔ صادق و مصدق پیغمبر نے اس حدیث میں ایک غیبی خبر دی ھے” ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا “ ۔یہ بات ھمارے موضوع سے متعلق ھے ۔ مسلمانو! جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھو گے کبھی گمراہ نہ ھو گے ، منحرف نھیں ھو گے ۔
اس کا مطلب کیا ھے؟ اس کا مطلب یہ ھے کہ اے نوجوانو! سنو تم مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب معلوم کرنے کے لئے یھاں جمع ھوئے ھو ۔ دیکھو تم کو جو بھی پریشانی لاحق ھو ،جو بھی بلا تمھارے سر پر نازل ھو تو یہ دیکھو کہ قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے کس قدر دور ھو چکے ھو؟ یہ سب اسی دوری کے باعث ھے۔اس لئے کہ پیغمبر خاتم نے ھم سے یھی فرمایا ھے کہ جب تک تم ان دونوں یعنی قرآن و اھلبیت (ع) سے متمسک رھو گے ” لن تضلوا ابدا “ ”لن“ نفی ابد کے لئے آتا ھے ۔اس کلمہ ابد کی تشریح یھی ھو گی کہ تا قیام قیامت تمھاری ھر قسم کی تنزلی ، کمزوری اور ھر طرح کا نقصان جو تمھیں اٹھانا پڑے وہ صرف قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے دوری ھی کی بنیاد پر ھو گا، یہ ایک حقیقت ھے۔ آپ جانتے ھیںکہ دشمن بھی اچھی طرح سمجھ چکے ھیں کہ اگر انھیں مسلمانوں کے سروں پر سوار رھنا ھے تو مسلمانوں سے قرآن مجید کے اثرات و برکات ختم کرنا ھے تو کیا کریںکہ یہ قرآن مسلمانوں میں تحرک پیدا نہ کر سکے،اس کے لئے کون سا حربہ اختیار کریں ؟ یا امام خمینی ۺ کے الفاظ میں کھا جائے کہ مسلمانوں کو جوش و خروش ، تحرک اور جھاد سے روکنے کے لئے کیا کریں ؟ اس کا فقط ایک راستہ ھے اور وہ قرآن و اھلبیت (ع) میں جدائی ڈالنا ھے۔”حسبنا کتاب اللہ “کا جملہ آپ سنتے رھتے ھیں ۔آپ نے کبھی سوچا ھے ”حسبنا کتاب اللہ “کے جملہ نے ایک تیر دو شکار والا کام کیا ھے ۔ ایک کھتا ھے کتاب کافی ھے قرآن ھمارے پاس ھے پس ولایت کی کوئی ضرورت نھیں ھے ۔ حضور آپ نے ھمارے درمیان دو ھی تو چیزیں چھوڑی ھیں نا ! قرآن و اھلبیت ۔سر کار آپ کا بھت بھت شکریہ ! ھم سب کے پاس قرآن ھے پس علی (ع) کی کوئی ضرورت نھیں ھے ۔ ولایت ھمیں نھیں چاھئے ۔ جناب سیدہ (س) کے شھادت کے ایام چل رھے ھیں آپ کو معلوم ھے زھرائے مرضیہ کی شھادت کا سبب کیا تھا ؟ سب سے زیادہ جس بات نے جناب زھرا(س) کو تکلیف پھونچائی وہ یہ تھی کہ پیغمبر اسلام کے بعد عالم اسلام میں انحرافات و تحریفات ایجاد کی جارھی تھیں ۔ زھرا و علی مرتضیٰ علیھما السلام اس پر غمزدہ ھو کر لوگوں سے کھتے تھے مسلمانو! تمھیں کیا ھو گیا ھے ،کیوں راہ راست سے منحرف ھو گئے ھو ؟ تو مسلمانوں کا جواب یہ ھوتا تھاکہ اے زھرا اتنی دنیا طلبی بھی اچھی نھیں ھوتی، آپ کو اس بات کا غم ھے کہ آپ کے شوھر خلیفہ نھیں بن سکے اور آپ ملکہ نھیں ھیں !! زھرا (س) کو پشت در سے یہ بھی سننا پڑا ، سیدہ (س) مار کھانے کی وجہ سے شھید نھیں ھوئیں ،بلکہ یہ سب دیکہ اور سن کر آپ کا دل پاش پاش ھو چکا تھا جس کی وجہ سے آپ شھادت سے ھم آغوش ھو گئیں ۔ مجھے غم ھے عالم اسلام میں انحرافات رونما ھونے کا اور تم مجھ پر دنیا طلبی کا الزام لگا رھے ھو ! یہ ایک مصداق ھے جس کا میں نے ذکر کیا ھے ۔
________________________________________
آغاز اسلام ھی سے دین میں ھونے والی یہ تحریفات بعد میں اشعری مکتب فکر کے وجود میں آنے کا سبب بنیں۔ مسلمانوں کی تنزلی میں اشعری مکتب فکر نے بڑاا ھم رول ادا کیا ھے ۔ آپ جانتے ھیں اکثر خلفاء اشعری مکتب فکر کی ھی طرفداری کرتے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ مسلمانوں کی تنزلی میں اس مکتب فکر کا بڑا اھم رول ھے، آپ پوچھیں گے کیوں ؟ اس نے ایسا کیاکیا ھے ؟ تو میں ان کی دو باتیں عرض کرتا ھوں اور اگر دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ یہ دو باتیں اسلام کا حصہ ھیں تو انھیں اسلام سے نفرت رکھنے کا پورا پورا حق ھے اور یھی دو چیزیں اشعری فکر کی بنیاد ھیں ۔ اشعری نے پھلی چیز جو پیش کی وہ یہ ھے کہ انسان کو کوئی اختیار نھیں ھے ، توحید یعنی جبر۔ توحید ، افعالی بھی ھوتی ھے اور توحید افعالی کا مطلب یہ ھے کہ فاعل مختار فقط خدا کی ذات ھے تو اگر فاعل مختار فقط خدا ھے تو بقیہ فاعل کس فھرست میں آئیں گے ؟ یقینا فاعل مجبور کی فھرست میں یعنی سب کے سب فاعل مجبورھیں ۔ اشعری نے انسان سے اختیار سلب کر لیا۔ اس کے بعد اسے ایک اور مشکل پیش آگئی اور وہ یہ کہ اگر فاعل مختار فقط خدا ھے اور انسان جو کچھ بھی کرتا ھے وہ خدا وند عالم کے حکم کے تحت کرتا ھے تو پھر انسان جو برے اعمال انجام دیتا ھے ان کی کیا توجیہ ھو گی ؟ کیا وہ بھی خداھی کرواتا ھے ؟ ؟!!ھم بعض ایسے افعال بھی انجام دیتے ھیں جو یقینا برے ھیں تویہ مکتب کھتا ھے کہ کس نے آپ سے کھا کہ فلاں کام اچھا ھے اور فلاں کام برا ھے ۔ اشیاء اور افعال میں حسن و قبح عقلی و ذاتی پایا ھی نھیں جاتا۔
 آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ اشعری نے دو چیز یں انسان سے سلب کیں، ایک اختیار اور دوسرے عقل اور قدرت تشخیص ۔ اب میں آپ سے پوچھتا ھوں کہ اگر یہ دو چیزیں انسان سے چھین لی جائیں تو پھر باقی کیا بچتا ھے ؟ اسلام کو اس طرح سے پھچنوایا گیا ، ایک ایسا اسلام جس میں انسان ایک بے ارادہ اور بے اختیار موجود ھو، جس میں انسان کو اتنا بھی فیصلہ کرنے کا حق نہ ھو کہ یہ پانی میٹھا ھے اچھا ھے یا برا ھے۔ تو میں آپ سے پوچھتا ھوں کہ کیا ایسا اسلام انسانوں کو زندگی عطا کر سکتاھے ؟ یھی میرا درد دل ھے۔ قرآن کو اھلبیت (ع) سے جدا کرنے کے نتیجہ میں عالم اسلام پر مصیبتوں کے پھاڑ ٹوٹے ھیں ۔ قرآن کو اھلبیت (ع) سے جدا کرنے کا نتیجہ تھا کہ خلفائے ثلاثہ ھی کے دور میں ، کعب الاحبار اور عبد اللہ بن سلام جیسے لوگوں کو قرآن میں اسرائیلیات وارد کرنے کا موقع مل گیا ، بھت سارے یھودی مفسر قرآن بن گئے۔،صحیح بات ھے جب علی (ع) سے تفسیر نہ پوچھی جائے گی جب آپ در علی (ع) سے دار القرآن میں داخل نہ ھوں گے ، ولایت کو قرآن سے الگ رکھیں گے تو کعب الاحبار جیسے لوگ منبر نشین ھوں گے اور عبد اللہ ابن سلام جیسے لوگ مفسر قرآن ۔آپ کے فقھاء وہ ھوں گے جنھیں روح قرآن کی خبر تک نھیں ھے ۔
اسلامی فقہ میں قیاس و استحسان کیسے وارد ھوا ؟ جب پھنس گئے اور جدید سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو امام باقر(ع) اور امام صادق (ع) کے پاس تو گئے نھیں، مجبور تھے کیا کرتے قیاس و استحسان کا سھارا لے لیا ۔ کلام میں کچھ لوگوں نے صرف آیات جبر پر توجہ دی۔ ” و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ “ کھنے لگے کام میں انجام دیتا ھوں لیکن بغیر اپنے اختیار کے ۔ بھت نقصان ھوا ھے اسلام کو ۔ اسلام میں جو بھی کجی آئی ھے وہ صرف قرآن کو ولایت سے جدا کرنے کا نتیجہ ھے ، اسلام میں تحریفات بھت زیادہ ھیں۔ میں نے توچند ایک باتیں بطور نمونہ پیش کی ھیں ۔ میرا دل چاھتا ھے کہ آپ خود اس موضوع پر کام کریں کہ طلوع اسلام کے آغاز ھی سے کیا کیا خرافات مذھبی کلچر میں داخل کر دیئے گئے، لیکن چونکہ اس دور میں ائمہ معصومین علیھم السلام موجود تھے لھذا اسلام نے عجیب و غریب ترقی کی ۔ اب بھی بھت سارے انحرافات دین میں داخل کئے جا رھے ھیں ۔ آغا ز اسلام کے خرافات کے چند نمونے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کئے اب ایک نمونہ آج کے خرافات کابھی سن لیجئے ۔ دین میں تحریف کی آج جو بڑی کوشش کی جارھی ھے اس کے دائرہ کار کو محدود کرنا ضروری ھے ۔ کھتے ھیں اسلام اچھا ھے ، دین اچھا ھے لیکن اس کا دائرۂ کار صرف انسان کے انفرادی اور عبادی مسائل تک محدود ھے ۔ اسلام میں نہ سیاست ھے اور نہ ھی اقتصاد ۔بعض اھل مغرب سے متاثر اور ان کی فکر سے دھوکہ کھائے ھوئے ھمارے اپنے پڑھے لکھے لوگ بھی کھتے ھیں کہ دین سے یہ امید رکھنا ھی نھیں چاھئے کہ یہ تمھاری دنیا آباد کر دے گا ،لھذا حکومت میں دین کو مرکزی حیثیت دینا فضول ھے یعنی وھی سیکولرزم کا الاپ ۔

Add comment


Security code
Refresh