www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مجھے نھیں معلوم اس طرح کی مجالس میں سیکولرزم سے متعلق کس قدر گفتگو کی جاتی ھے۔ عالم اسلام کے دشمنوںکی طرف سے اس وقت مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یھی سیکولرزم ھے ۔ پھلا اھم ترین مورچہ اور سب سے بڑا چیلنج سیکولرزم ھے۔ سیکولرزم کا کھنا یہ ھے کہ ایسا اسلام جس میں سیاست نہ ھو ، اقتصاد نہ ھو ، حکومت نہ ھو، ایسے اسلام سے ھمارانہ کوئی اختلاف ھے اور نہ جھگڑا ۔ جھگڑے اور اختلاف کی بات یہ ھے کہ حکومت ایک ولی فقیہ کے ھاتہ میں ھو ،ایک دینی رھبر کے ھاتہ میں ھو۔آج اکثر مسلمانوں کے ضعف اور انحطاط کا باعث سیکولرزم کو قبول کر لینا ھے ۔ سیکولرزم کے حامی انقلاب اسلامی کے دشمن ھیں۔ وہ کھتے ھیں کہ اسلامی انقلاب نھیں ھونا چاھئے اس لئے کہ اسلامی انقلاب سیکولرزم کی مخالفت کرتا ھے ۔ ان کا کھنا ھے کہ اسلام دین زندگی نھیں ھے ۔ارے بھائی! اسلام دنیا ھی کوتو آباد کرنے کے لئے آیا ھے ،دنیا آباد کرنے کے ھی نتیجہ میں آخرت بھی آباد ھوتی ھے ۔ بنیادی طور سے دنیا اور آخرت کا تقابل ھی غلط ھے ۔ دین ھمیں سکھاتا ھے کہ اپنی آخرت اسی دنیا ھی میں بنا لیں۔ دین دنیا کو آباد کرتا ھے ،دنیا کے لئے اسلام کے بھترین قوانین ھیں۔ ایک دو کی طرف میں اشارہ کرنا چاھوں گا ۔ مثلا ً وھی جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ انسان یہ نہ سوچے کہ خدا کو چھوڑ کر وہ مالک بن جائے گا ،یہ نہ سوچے کہ خدا کو چھوڑ کر اسے مرکز یت حاصل ھو جائے گی بلکہ خدا سے الگ ھٹ کر انسان چوپائے میں تبدیل ھو جاتا ھے۔ تمھیں اگر انسان بننا ھے تو خدا کو محور بنانا ھو گا۔ ” ھیومنزم “ انسان کو مرکز بنانا چاھتا ھے ۔ دوسرے یہ کہ انسان آزادی چاھتا ھے یعنی ”لبرالزم “ ،تو آپ کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں وھی کاٹ سکتے ھیں۔ لوگو ! تمھیں عوامی حکومت چاھئے تو سنو کہ عوامی حکومت بھی صرف قانون الٰھی ھی کے سایہ میں قائم ھو سکتی ھے ۔ میں نے امام خمینی ۺ فاونڈیشن میں ” عوامی حکومت :نظام ولائی کے سائے میں “ کے عنوان کے تحت ایک مقالہ پیش کیا تھا ۔اس مقالہ میں میں نے ثابت کیا ھے کہ بنیادی طور سے لبرل۔ ڈموکریسی کے تحت عوامی حکومت قائم ھی نھیں ھو سکتی ، لبرل۔ ڈموکریسی میں لوگوں کو آلۂ کار بنایا جاتا ھے ۔ دین میں ھونے والی بھت ساری تحریفات کا میں نے ذکر کیا ھے ۔ ایک اوربڑی تحریف یہ کی گئی ھے کہ یا خدا یا عوام۔ غور کیجئے ! خدایا عوام یعنی حکومت یا خدائی ھو گی یا عوامی ، اس طرح کا تقابل اور یہ جھوٹا تضاد دین کے ساتھ بھت بڑی نا انصافی ھے ، خوب غور کیجئے تعبد یا تعقل ، آپ کو بھت ھی محتاط رھنا چاھئے، اس طرح کی باتیں ضرور آپ کے سننے میں آتی ھوں گی جن میں دو چیزوں میں تضاد دکھایا جارھا ھو، لیکن اس کی کوئی واقعیت نھیں ھوتی ۔مثلا ًیھی تحریف کہ کھا جا تا ھے تعبد یا تعقل یعنی مانعة الجمع ھیں دونوں ایک ساتھ آھی نھیں سکتے۔ اسی طرح کھا جاتا ھے دنیا یا آخرت ، جبکہ قرآ ن مجید چلا چلا کر کھہ رھا ھے کہ لوگوں کی خدمت کے بغیر خدا سے قریب ھوا ھی نھیں جا سکتا ۔یھاں ایک قرآنی نکتہ عرض کرنا چاھتا ھوں جو انشاء اللہ میری طرف سے آپ کے لئے ایک یادگاری تحفہ ھو گا ۔ یہ بات میں ایک سوال کی شکل میں آپ سے کھنا چاھوں گا ۔
 آپ جانتے ھیں کہ اصحاب پیغمبر کے درمیان حضرت علی بن ابی طالب علیھما الصلوٰة و السلام کو نمایاں حیثیت حاصل تھی ، حضور کے زمانے میں آپ نے بھت سارے کمالات حاصل کئے ، عمر و بن عبدود جیسے نامی پھلوان کو پچھاڑا ، خیبر فتح کیا ، شب ھجرت پیغمبر کے بستر پر سوئے یہ سب اپنی جگہ پر لیکن جس وقت خدا نے یہ بتانا چاھا کہ مسلمانو! جانتے ھو تمھارا رھبر بننے کی صلاحیت کس شخص میں ھے تو فرمایا ایک خدا ، دوسرے رسول اور تیسرے وہ شخص کہ جو حالت رکوع میں زکوٰة دیتا ھے۔ سوال یہ ھے کہ علی کے اتنے فضائل و کمالات ھونے کے باوجود خدا نے آپ کو ولایت امت کا خطاب حالت رکوع میں زکوٰة دینے پر ھی کیوں دیا ؟ سورۂ مائدہ کی ۵۶ویں آیت ھے آیۂ ولایت ” انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلوٰة و یوتون الزکوٰة و ھم راکعون “ ۔سوال یہ ھے کہ خدا نے یہ کیوں نھیں کھاکہ عمر بن عبدود کے مقابلے میں جب تم سب نے سر جھکالیا تھا اور علی نے اٹھ کر کھاکہ میں جاؤں گا اس کے مقابلے میں۔لھذا بس یھی علی ولی ھے ، فتح خیبر کے بعد علی کو ولایت کا خطاب کیوں نھیں دیا ؟ شب ھجرت بستر رسول پر سونے کے بعد علی کو ولی کیوں نھیں کھا ؟ یہ کیوں نھیں فرمایا کہ جس شخص کی ولادت خانہ کعبہ میں ھوئی ھے وہ تمھارا ولی ھے اور اگر زکوٰة دینے ھی کی بات ھے، خدا کی راہ میں خرچ کرنے ھی کی بات ھے تو ایک انگوٹھی سے سو گنا زیادہ علی (ع) پھلے ھی راہ خدا میں خرچ کر چکے ھیں !!؟ اس کی وجہ کیا ھے کہ خدا نے فرمایا کہ رھبری کی صلاحیت اس شخص میں ھے جو حالت رکوع میں زکوٰة دے جبکہ یہ وھی علی (ع) ھیں کہ حالت نماز میں جن کے پیر سے تیر نکال لیا جاتا ھے اور انھیں خبر تک نھیں ھوتی۔ آخر بات کیا ھے، خدا کھنا کیا چاھتا ھے کیا پیغام دینا چاھتا ھے ؟
میں نے اس کا راز جو سمجھا ھے وہ آپ کے سامنے بھی بیان کرنا چاھتا ھوں اور اس سے پھلے ایک بزرگ عالم کے سامنے بھی عرض کر چکا ھوں۔ انھوں نے بھی اس کی تائید فرمائی ھے۔ وہ نکتہ یہ ھے کہ خدا کھنا چاھتا ھے کہ دینی سماج کی رھبری کی صلاحیت صرف اس شخص میں ھے جو اس وقت بھی خلق خدا سے غافل نہ ھو جب اس کا خد ا سے راز و نیاز منزل عروج پر ھو۔ نماز میں علی کی خدا سے گفتگو اور راز و نیاز اپنے عروج پر ھوتا ھے ۔ نماز میں علی خدا کے ساتھ گفتگو میں اس قدر محو ھو جاتے ھیں کہ پیر سے تیر نکل جائے لیکن انھیں خبر تک نھیں ھوتی یعنی خود کو بھول جاتے ھیں لیکن علی (ع) خدا سے اس قدر محویت کے عالم میں بھی بندگان خدا سے غافل نھیں ھیں لھذا تمھارے امام ھیں ۔
یہ ھوتی ھے عوامی حکومت ، مسلمانو! کیاتمھیں حق ھے کہ علی (ع) سے بڑہ کر کسی کو عوامی حکومت کا علمبردار قرار دو ، کیا گھر میں علی (ع) کی گریہ و زاری مظلوموں سے ھمدردی کی نشانی ھے یا بنی امیہ کے زرق و برق محل ؟! کیا علی (ع) کی جوکی روٹی سے سجا ھوا دسترخوان عوام اور مظلوموں سے ھمدردی کی علامت ھے یاکارل مارکس کا ڈائننگ ٹیبل ؟! خدا ھر جگہ ھے، آپ کو عوامی حکومت چاھئے تو یھاں بھی خدا ھے۔جو جھوٹے تضاد اور تقابل پیش کئے جاتے ھیں ان سے ھوشیار رھنے کی ضرورت ھے۔ قرآن و اھلبیت (ع) سے ھم اور آپ جو تعبد رکھتے ھیں یہ تعبد قوی ترین تعقل پر مبنی ھے ، تعبد کا مطلب اندھی تقلید نھیں ھے ۔ عقل کھتی ھے کہ اگر تمھیں کسی بیماری کے علاج کا نسخہ نھیں پتہ تو کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کرو اور اس سے نسخہ لو ! کیا خدا سے بڑہ کر بھی کوئی اسپیشلسٹ پایا جاتا ھے ؟ قرآن مجیدھماری زندگی کا نسخہ ھے ، قرآن ھدایت کا سر چشمہ ھے، خدا تک پھونچنے کا راستہ ھے ، میں مقصد تک رسائی حاصل کرنا چاھتا ھوں تو یہ قرآن سعادت ، کمال اور خوشبختی کا پتہ ھے ، آپ اسلام کی جامعیت خود پیغمبر اسلام کی زبان سے سنئیے جو آپ نے اپنی عمر کی آخری سال حجة الوادع کے موقع پر بیان فرمائی ھے۔یہ پیغمبر اسلام کا بھت ھی مشھور خطبہ ھے۔ آپ سے بڑہ کر کون اسلام کو جامعیت عطا کر سکتا ھے ؟ میں جب حضور کے اس خطبہ کا مطالعہ کرتا ھوں اور دیکھتا ھوں کہ اسلام کو کس خوبصورتی سے ایک جامع دین بنایا گیا ھے اور ھمیں ایک کامل شریعت عطا کی گئی ھے تو واقعاً لطف آتا ھے ۔ پیغمبر فرماتے ھیں ” ما من شئی یقربکم من الجنة و یباعدکم من النار الا و قدامرتکم بہ و ما من شئی یقربکم من النار و یباعدکم من الجنة الا و قد نھیتکم عنہ “ ۔کتنے خوبصورت جملے ھیں! ”مسلمانو! میری شریعت کا خلاصہ بس دو باتوں میں ھیں، بخدا کوئی ایسی چیز بچی نھیں ھے کہ جو تمھیں جنت سے قریب اور جھنم سے دور رکھنے کا باعث ھو اور میں نے تمھیں اس کا حکم نہ دیا ھو اور کوئی ایسی چیز بھی نھیں بچی ھے جو تمھیں جھنم سے قریب اور جنت سے دور کر دے اور میں نے تمھیں اس سے روکا نہ ھو ، یعنی میری شریعت کا خلاصہ دو باتوں پر منحصر ایک نسخہ ھے جس میں کھا گیا ھے کہ ان کاموں کو انجام دو اور ان کاموں کو انجام نہ دو، کچھ میرے اوامر ھیں جو مقربات الی الجنة ھیں اور کچھ میری نواھی ھیں جو مقربات الی النار ھیں ۔ ھر وہ چیز جو راہ سعادت میں تمھارے لئے رکاوٹ بن رھی ھو اسے انجام نہ دو ۔ بالکل ایک طبیب کے مثل ، حضرت علی (ع) پیغمبر اسلام کے بارے میں فرماتے ھیں: ” طبیب دوّار بطبہ “۔ پیغمبر کھتے ھیںکہ میں نے اپنا کام انجام دے دیا ،یہ نسخہ تمھارے حوالہ کر دیا۔
 بھر حال مسلمانوں کے زوال کا اولین سبب جو میں آپ سے عرض کر چکا ھوں وہ دین و دنیا کو آپس میں جدا کر دینا ھے یعنی سیکولرزم ؛اور قرآن و اھلبیت (ع)کو ایک دوسرے سے جدا کر دینا ۔ اب اگر مسلمان زندہ ھونا چاھتے ھیں تو انھیں اسلام کا احیاء کرنا ھو گا ، مسلمانوں کو اسلام کی طرف پلٹ کر آنا ھو گا ۔ امام خمینی ۺ جیسے بزرگ مصلحین بھی یھی کھتے تھے کہ اے مسلمانو! ایک ارب تیس کروڑ یا ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں سے کہ مسلمانو! مسلمان ھو جاؤ ، اگر زوال سے نجات حاصل کرنا چاھتے ھو تو مسلمان ھو جاؤ ۔ھم اور آپ جو حوزۂ علمیہ قم میں ھیں، ھمارا سب سے پھلا کام اور سب سے پھلی کوشش یہ ھونی چاھئے کہ اسلام حقیقی کی شناخت حاصل کریں۔ امام خمینی ۺ کا ارشاد ھے کہ ” عالم اسلام کی ایک مشکل یہ تھی کہ ھمارے علمائے اسلام خود اسلام سے ناواقف تھے “۔اگر وقت ھوتا تو اس بات کو میں کچھ تفصیل سے عرض کرتا ، بنیادی کمزوری ھم لوگوں کی ھے۔ ھم لوگوں نے اسلام کا صحیح تعارف نھیں کروایا ، لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ تو کیا لیکن روح نماز کیا ھے یہ نھیں بتایا ۔ھم نے نھیں بتایا کہ قرآن کے پاس بھترین اقتصادی اور سیاسی نظام ھے۔ اصل قرآنی توحید سے استفادہ کرتے ھوئے میں نے نظام سیاسی پر کئے جانے والے بھت سارے مشکوک وشبھات کاجواب دیا ھے ،اور مجھے یقین ھے کہ نئی نسل کے کچھ اسکالروں کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کا جواب خود توحید ھے، توحید ربوبی نہ کہ توحید ذاتی ۔
 بھر حال مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب ادھر ادھر کی کافی باتیں کرکے میں نے آپ کے سامنے عرض کیا ۔ مسلمانوں کے زوال کا دوسرا سبب یہ ھے کہ مسلمانوں نے اغیار کی تھذیب سے متاثر ھو کر ھتھیار ڈال دئے ۔یہ ایک اھم سبب ھے ، اپنی شناخت کھو دینا ، اغیار کی اندھی تقلید کرنا۔ یہ بڑی مفصل باتیں ھیں۔ اس کے لئے الگ سے ایک جلسہ رکہ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ھے ۔میں صرف قرآن سے ایک بات عرض کرنا چاھوں گا ۔ قرآن جھاں بنی اسرائیل کی مذمت کرتا ھے اور ان کی تحقیر کرتا ھے کہ تم نے کتنا برا عمل انجام دیا، تو کھتا ھے کہ میں نے تمھیں فرعون سے نجا ت دی ، توحید کی طرف ھدایت کی ، تمھیں دریا سے گزارا، دریا سے پار ھو کر جب تم نے کچھ لوگوں کو بت کی پوجا کرتے ھوئے دیکھا تو تمھارے اندر دوسروں کی تقلید اور ان سے متاثر ھونے کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ تم یہ بھول ھی گئے کہ تم خدا پرست ھو اور موسیٰ سے کھنے لگے ” اجعل لنا الٰھاً کما لھم آلھة “یعنی موسیٰ ھمارے لئے بھی اس طرح کے دو خدا بنا دو ۔ بالکل ویسے ھی آج باوجود اس کے کہ ھمارے پاس بھترین الٰھی تمدن ھے ، بھترین قانون زندگی ھے پھر بھی ھم دیکھتے ھیں کہ اھل مغرب کا کیا کھنا ھے ؟ عجیب بات ھے ، ھمارا لباس ، معماری ، ھنر ، بات چیت کا انداز ، طرز زندگی ، حکومت ، پڑھے لکھے لوگوں کی خامہ فرسائی اور مقالہ نگاری ھر چیز میں ھم اھل مغرب کی تقلید کر رھے ھیں ۔ اغیار کی تقلید تنزلی کا ایک اھم سبب ھے ۔ سید جمال الدین اسد آبادی ۺ کے نزدیک بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یھی ھے ،وہ کھتے ھیں کہ ھم نے مغرب سے علم نھیں لیا بلکہ مغرب کاکلچر اپنا لیا ۔عجیب بات ھے کہ دین نے ھم سے کھا ان سے علم و حکمت لے لو لیکن اپنی شناخت اور تھذیب نہ کھونا۔اس کے برعکس ھم نے اھل مغرب سے نہ ھی علم و ھنر لیا اور نہ ھی صنعت و ٹکنالوجی سیکھی بلکہ لباس پھننے کا طریقہ اور کلچر ان سے لیا ،تو اغیار کی تقلید بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب ھے۔ اس میں کافی تفصیل کی ضرورت تھی لیکن صرف عنوان عرض کر کے میں تیسرے سبب کی طرف آرھا ھوں۔ صرف عنوان ھی عرض کر سکتا ھوں اس لئے کہ وقت ختم ھو رھا ھے ۔
مسلمانوں کے زوال کا تیسرا سبب مسلمان حکمرانوں کا استبداد اور نفس پرستی ھے ، ان کے لئے اپنی بادشاھت اور حکومت سب کچھ ھوتاھے۔ اگر ان سے کھا جائے کہ مسلمانوں کو چھوڑ دو یا حکومت کو چھوڑ دو تو وہ تمام مسلمانوں کو اور پورے اسلامی تمدن کو ترک کرنے کے لئے تیار ھو جائیں گے لیکن حکمرانی چھوڑنے کے لئے آمادہ نھیںھوں گے۔ اسی لئے استعماری طاقتوں سے ساز باز کر کے کرسی اقتدار پر برا جمان ھیں ۔ مسلمان کی یہ بد بختی آج ھم اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر رھے ھیں ۔ یھی لوگ جب جمھوری اسلامی میں آتے ھیں تو جب سامنے کیمرہ نہ ھو ٹیپ ریکارڈر نہ ھو یعنی ان کی بات کھیں ریکارڈ نہ ھو رھی ھو تو یھی سر براھان مملکت اسلامیہ دھیمے سے کھتے ھیں ” ھم آپ کی باتوں کی تائید کرتے ھیں لیکن کیا کریں اگر سر عام ھم آپ کی باتوں کی حمایت کرنے لگیں تو ھمیں حکومت سے معزول کر دیا جائے گا ، کویت کے سربراہ ھوں یا سعودی عرب کے، امریکہ ھم کو آپ کی حمایت میں کوئی بات نھیں کھنے دیتا لھذا ھم مجبور ھیں اس طرح کی کوئی بات نھیں کھہ سکتے “ یہ ھے مسلمانوں کی بد بختی ۔ اس سے پھلے بھی بنی امیھ، بنی عباس اور ھر دور میں ایسا ھی رھا ھے ۔ یہ بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک اھم سبب ھے ۔ صلیبی جنگوں کے دوران اھل مغرب تمدن پر قابض ھو گئے اور مسلمان ان جنگوں میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ،آپ کو پتہ ھے کہ ان جنگوں میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ شکست کا سامنا کب کرنا پڑا ؟ انھیں سب سے زیادہ شکست کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب خود آپس ھی میں لڑنے لگے ۔
 بھر حال مسلمانوں کی تنزلی کے بھت سارے اسباب ھیں، دامن وقت میں اتنی گنجائش نھیں ھے کہ میں تفصیلات میں جا سکوں ۔میں ایک دوسری بات کی طرف اشارہ کرنا چاھتا ھوں ۔ جتنی بھی تحریفات اور انحرافات اسلام میں رونما ھوئے ان کے مقابلہ میں ماضی میں بھت ساری تحریکیں وجود میں آتی رھی ھیں ۔ آزادی کی تحریکیں اور اسی طرح اسلامی تحریکیں ، مسلمانوں کو زندہ کرنے کے لئے بھت ساری تحریکیں اٹھیں ۔ اسی ھندوستان کو لے لیجئے شاہ ولی اللہ دھلوی نے ایک تحریک شروع کی لیکن کسی نتیجہ تک نہ پھونچ سکی۔ آپ غور کیجئے کہ اس طرح کے برجستہ لوگ کیوں موثر نہ ھو سکے ،سر سید کی تحریک، اسی طرح میر حامد حسین ۺ کی تحریک لیکن کوئی بھی کامیاب نہ ھو سکی کیوں؟!اس لئے کہ ان ساری تحریکوں میں حقیقی اسلام کا سھارا نھیں لیا گیا ۔ عصر حاضر میں فقط ایک ھی تحریک ھے کہ واقعاً یوروپ ، امریکہ ، برطانیہ اور پوری دنیا کو ایک ھو کر اس تحریک اور اس انقلاب اسلامی کے مقابلہ میں کھڑا ھونا ھی چاھئے، اس لئے کہ امام خمینی ۺ کے لائے ھوئے اسلامی انقلاب میں اسلام واقعی کا احیاء ھے ، اور یہ اسلام واقعی دنیا بھر میں اپنی حیات کا ثبوت دے رھا ھے ، دنیا گھبراگئی ھے کہ کھیں دھیرے دھیرے یہ اسلام واقعی پوری دنیا میں نہ پھیل جائے۔ اس لئے دنیا والوں کا خیال ھے کہ اس انقلاب کے مقابلہ میں آنا ھی چاھئے ۔ انقلاب اسلام کا سورج کس مشرق سے طلوع ھوا ، خمینیت کسی نئی چیز کا نام نھیں ھے ، امام خمینی ۺ نے صرف اسلام کو کتابوں سے باھر نکالا ھے ،قم کے مدرسۂ فیضیہ اور اس کے جیسے دوسرے مدارس کے کتب خانوں میں موجود اسلام کی پولٹیکل تھیوری کو عملی جامہ پھنایا ھے اور بس! ھماری اور آپ کی ذمہ داری ھے کہ دنیا والوں کو اس اسلام واقعی کی شناخت کروائیں۔ دنیا جانتی ھے جیسا کہ میکسن کھتا ھے کہ اگر اسلامی بنیاد پرستی میں جان آجائے تو دنیا میں کوئی شاھی محل باقی نھیں بچے گا، وہ اسلام واقعی کو بنیاد پرست اسلام کھتا ھے یہ ایک الگ بات ھے ۔ وہ سمجھ گیا ھے کہ ٹوٹنے والا صرف کرم لی کا محل نھیں ھے وائٹ ھاؤس بھی اس کے پیچھے پیچھے ھے، اس کے بعد فلاں محل پھر فلاں اور پھر فلاں ۔ میں آپ سے عرض کرتا ھوں کہ ھمیں یہ خوشخبری مل چکی ھے کہ تمدن اسلامی پھر سے زندہ ھو رھا ھے ۔فقط مسلمان ھی سر بلند نھیں ھوئے ھیں بلکہ مجھ سے ایک بودہ نے کھا ھے کہ آپ کے انقلاب کے ذریعہ دنیا بھر میں دینداری زندہ ھوئی ھے، لوگ خدا کی طرف پلٹ آئے ھیں۔ کل تک مجھے یہ بتاتے ھوئے شرم آتی تھی کہ میں بودہ ھوں لیکن آج میں فخر سے کھتا ھوں کہ میں بھی کسی دین کا پیرو کار ھوں ۔
 آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس انقلاب اسلامی کی تحریک نے دینی فکر کا احیاء کیا ھے۔ اسی لئے دنیا اس انقلاب کو ختم کرنے کے در پے ھے۔ اس مقصد کےلئے اھل مغرب نے وسیع پیمانے پر تھذیبی حملوں ( Cultural Attacks) کا آغاز کر دیا ھے۔ مسلمانوں کے زوال کاایک سبب یہ بھی ھے کہ وہ ان حملوں کے مقابل سپر انداختہ ھو گئے ھیں ۔ اب ان تھذیبی حملوں کے بھی سیکڑوں چھرے ھیں، تفصیل میں جانے کا وقت بالکل نھیں ھے میرا وقت ختم ھو رھا ھے۔ لھذا اپنی آخری بات کھدوں پھر شاید آپ کے ایک دو سوالوں کا جواب دینے کا وقت بچ جائے ۔ ضرورت اس بات کی ھے کہ ھم اور آپ اسلام واقعی کی شناخت حاصل کریں ۔ میری گزارش یہ ھے کہ اس حوزۂ علمیہ قم سے صرف فلسفہ ، اصول اور ادبیات کا علم حاصل کر لینے پر ھی ھرگز اکتفاء مت کیجئے یہ بھی ضروری ھے لیکن اھم ترین ضرورت یہ ھے کہ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آیئے اور قرآن و سنت کے ان ابواب پر زیادہ وقت دیں جو تابحال متروک و محجور ھیں ، مثلاً کتاب الصلوٰة پر کافی تحقیقات ھو چکی ھیں اس میدان میں مزید کام کرنے کی چنداں ضرورت نھیں ھے ، آپ اپنی ڈاکٹریٹ، تحقیقات اور ریسرچز میں بتائیے کہ قرآن مجید کا اقتصادی سیاسی اور اجتماعی نظام کیا ھے ، اجتماعی مسائل کا قرآن مجید میں کیا حل ھے ؟ قرآن کے پاس ھر مشکل کا حل موجود ھے ۔ اس وقت دنیا اضطراب (stress) اور دیگر نفسیاتی امراض میں مبتلا ھے۔ میرا عقیدہ ھے کہ نفسیاتی امراض کے علاج کا سب سے بھترین نسخہ قرآن کے پاس ھے ۔ قرآن اور سنت کی طرف پلٹ آئیے ۔ خدا ھم سب کو اسلام واقعی کی شناخت اور اسلام واقعی کی تبلیغ کی توفیق عنایت فرمائے ۔ الٰھی آمین ۔ آپ سب افاضل حضرات کا میں نے وقت لیا لھذا آپ سب سے معذرت خواہ ھوں ۔ خدا ھم سب کو توفیق عنایت کرے کہ دین مبین اسلام کی بہ نحو احسن خدمت کر سکیں ۔ آمین!

Add comment


Security code
Refresh