www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دین کی مختلف جھات

مسلم دانشمندوں نے دین اسلام کی مجموعی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

(۱) عقائد : یہ حصہ، دین کی ان تعلیمات پر مشتمل ھے جو ھمیں جھان ھستی ،خالق ھستی اور مبداٴ ومنتھا ئے ھستی کی صحیح اور حقیقی شناخت سے روشناس کراتا ھے اس سے قطع نظر کہ ایسی ذات پر اعتقاد اوریقین مسلمان ھونے کی شرط ھے یا نھیں۔
لھٰذا ھر وہ دینی تفسیر جو مخلوقات کے اوصاف کو بیان کرتی ھو اس حصے میں آجاتی ھے یھیں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ھے کہ عقائد دین، اصول دین سے عام اور وسیع ھیں۔ اصول دین میں عقائد دین کا فقط وھی حصہ شامل ھوتا ھے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و یقین رکھنا مسلمان ھونے کی شرط ھوتی ھے مثلا توحید، نبوت اور قیامت۔
وہ علم جو دینی عقائدکوبطورعام بیان کرتاھے وہ علم کلام ھے اور اسی وجہ سے اس کو علم عقائد بھی کھا جاتا ھے۔

(۲) علم اخلاق:علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ھے جو اچھی اور بری بشری عادتوں ، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ھونے کو بیان کرتا ھے مثلا تقویٰ، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔
شھید استاد مطھری کے الفاظ میں:
اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل ، احکام وقوانین جن کے ذریعے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ھے۔
علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ھے۔

(۳) احکام: یہ حصہ فعل و عمل سے متعلق ھے یعنی وہ تعلیمات جنھیںانسان کو سیکھنا چاھئے اورکون سے امور انجام دینا ضروری ھیں( واجبات) ، کن اعمال کو انجام دینا بھتر ھے (مستحبات) اور کون سے امور قطعاً انجام نھیں دنیا چاھئے (حرام) ، کون سے امور ایسے ھیں جن کا انجام نہ دینا بھتر ھے(مکروہ) اور ایسے امور اور اعمال کونسے ھیں جن کا انجام دینا یا نہ دینا مساوی ھے (مباحات)۔ دینی تعلیمات کے اس حصہ کی وضاحت، علم فقہ میں کی جاتی ھے۔
جو کچھ بیان کیا گیا ھے وہ دین کی مختلف جھات کے بارے میں مشھور اسلامی علماء کے نظریات پر مبنی ھے۔ مغربی دانشمند ، مذکورہ تینوںجھتوں کو قبول کرتے ھوئے کچھ دوسری جھتوں کے بھی قائل ھیں۔
ان جھتوں میں سے ایک جھت دینی داستانیں ھیں۔ ادیان الٰھی کی مقدس کتابوں میں ایسی کھانیاں اور قصے بیان ھوئے ھیں جن کے مضامین مقدس اور محرک ھیں۔ ساتھ ھی ساتھ اخلاقی اور معنوی تاثیر کے بھی حامل ھیں مثلاً پیغمبروں کے قصے۔ اس طرح کی مختلف مثالیں خود قرآن کریم میں بھی وافر مقدار میں موجود ھیں۔
ان داستانوںاور قصوں کو بیان کرنے کا ھدف یہ نھیں ھے کہ علم میں اضافے کی خاطر تاریخی واقعات کو بیان کردیا جائے بلکہ ھدف یہ ھے کہ بشریت کی اصلاح، اس کی تربیت کی جائے اور گذشتہ افراد کے واقعات و حادثات سے عبرت اور پند و نصیحت حاصل کی جائے۔
مغربی دین شناس دانشمندوںکے نظریات کا محور عیسائی اور یھودی مذھب ھے اور چونکہ ان ادیان کی مقدس کتابوںمیں جعلی اورخلاف عقل داستانیں موجود ھیں لھذاوہ یہ کھنے پر مجبور ھوگئے ھیں کہ مختلف ادیان میںوارد شدہ داستانیں ، جعلی اور ساختہ شدہ ھوسکتی ھیں کیونکہ ان داستانوں کو بیان کرنے کا اصل ھدف تعلیم و تربیت ھے۔ یہ بات قرآن کریم میں بیان شدھ داستانوں سے متعلق قطعاً قابل قبول نھیں ھے کیونکہ قرآن مجید، حق محض ھے اور باطل اس میں داخل بھی نھیں ھوسکتا:
لَا یَاٴ تِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖتَنْزِیْلٌ مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ“ (۴)
(جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آ بھی نھیں سکتا کہ یہ خدائے حکیم
و حمید کی نازل کی ھوئی کتاب ھے ۔)
البتہ ھم بھی اس بات کے قائل ھیں کہ قرآن کی بعض آیتیں تمثیل و مثال کا پھلو لئے ھوئے ھیں (۵) یعنی حقیقت معقول کو لباس محسوس پھنا کر پیش کیا گیا ھے لیکن داستان کے تمثیل اور جعلی ھونے میں بھت بڑا فرق ھے۔

Add comment


Security code
Refresh