www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دین کی بشریت سے وابستہ توقعات

ظاھر ھے کہ دین ، عقائد اور احکام کا ایک مجموعہ ھے لھٰذا اس سے اس بات کی توقع نھیں رکھی جاسکتی کہ وہ انسان یا غیر انسان سے کسی طرح کی توقع رکھتا ھوگا بلکہ یھاں دین کی بشر سے وابستہ توقعات سے مراد شارع اور دین کو نازل کرنے والے یعنی خداوند عالم کی بشر سے وابستہ توقعات ھیں۔
مختصراً، شارع کی ایک انسان سے یھی توقعات ھو سکتی ھیں کہ وہ دینی عقائد کو قبول کرتے ھوئے ان پریقین محکم اور ایمان کامل لائے، دین کے احکام اور قوانین کو عملی جامہ پہنائے نیزاپنے کردار و گفتار کو دین کے مطابق ڈھالتے ھوئے صفات رزیلھ کوخود سے دور اور صفات حسنہ سے خود کو آراستہ کرے۔
واضح ھے کہ مذکورہ امور درحقیقت انسان ھی کے لئے اور اس کو منفعت بخشنے والے ھیں یعنی جب یہ کہا جاتا ھے کہ دین انسان سے مذکورہ امور کی انجام آوری چاھتا ھے تو اس سے مراد یہ قطعاً نھیں ھوتی ھے کہ انسان اپنی ذات میں سے کچھ سرمایہ دین کے نام وقف کردے یا اپنی ذات سے کچھ کم کردے اور دین کے اوپر انبار لگادے بلکہ ان امور کی انجا م دھی صرف اور صرف انسان کے لئے مفید اور اس کے مفادات سے وابستہ ھے۔ دوسرے الفاظ میں دین،بشر سے یہ چاھتا ھے کہ بشر خود کو کمال پر پھونچائے اور خدا کی برتر و اعلیٰ نعمتوں سے لطف و اندوز ھو۔(قُلْ مَا سَاَٴلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ فَھوَ لَکُمْ) یعنی کھہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رھا ھوں وہ بھی تمھارے ھی لئے ھے۔ (۶)

دین کی طرف رغبت کے اسباب

دین ایک ایسی حقیقت ھے جس کی تاریخ، بشریت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ رواں دواں ھے۔ اس واضح اور آشکار حقیقت کے با وجود ایسے افراد بھی گزرے ھیں جودین کے منکر رھے ھیں۔ خدا پر اعتقاد اور اس کی پرستش، مبداٴ ھستی کے عنوان سے ھرزمان و مکان میں تمام بشری معاشروں میں مختلف تھذیب و فرھنگ کے ساتھ ساتھ مختلف شکل و صورت میں موجود رھی ھے اور ھے۔
اس ناقابل انکار حقیقت نے ایسے لوگوں کو جو دین کی حقانیت کے قائل نھیں ھیں اور دینی عقائد کو باطل شمار کرتے ھیں، اس بات پر مجبور کردیا ھے کہ وہ ابتدائے تاریخ بشریت سے اب تک لوگوں کے دین پر اعتقاد اور یقین کی توجیہ کریں اور اپنے اعتبار سے اس کے لئے(باطل) دلائل پیش کریں اور یہ بتائیں کہ کیوں بشر دین کی طرف راغب ھوتا ھے؟ حقیقت تو یہ ھے کہ ایسے اشخاص کے نزدیک جو اس کائنات کے خالق یعنی خدا کو نھیں پھچانتے ھیں، انسانیت کے اس عظیم کارواں کااپنے خالق پر اعتقاد و یقین اور اس کی پرستش نھایت وحشت ناک اور خوفناک ھوتی ھے اور اسی لئے وہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ اور تاویل کرکے اپنا دامن جھاڑنا چاھتے ھیں۔

اس بارے میں جو نظریات بیان ھوئے ھیں وہ کبھی کبھی تو اتنے بے بنیاد اور باطل ھوتے ھیں کہ عقل متعجب ھوکر رہ جاتی ھے ۔ ان نظریات میں سے بعض نظریات کی وضاحت مندرجہ ذیل ھے:

(۱) نظریہٴ خوف
فرائڈ (SIGMOND FREUD) نے خدا اور دین پر اعتقاد و یقین کا سرچشمہ خوف کو بتایا ھے البتہ اس سے قبل بھی یہ نظریہ پایا گیا ھے۔ شاید سب سے پھلے جس شخص نے یہ نظریہ پیش کیا تھا روم کا مشھور شاعر ٹیٹوس لوکر ٹیس ( متوفی : ۹۹ءء )ھے ۔ اس کا قول تھا کہ خوف ھی تھاکہ جس نے خداؤں کو پیدا کیا ھے۔
بھرحال یہ وہ نظریہ ھے کہ جس کی رو سے طبیعی اسباب مثلاً سیلاب ، طوفان، زلزلہ، بیمار ی و موت اس بات کے موجب ھوگئے ھیں کہ انسان ان تمام خوف آور طبیعی اسباب کو مشترکہ طور پر خدا کا نام دے دے۔ فرائڈ کے مطابق خدا، انسان کی خلق کردہ مخلوق ھے نہ کہ اس کا خالق۔ فرائڈ کے بقول درحقیقت بشری ذھن میں دینی عقائد پر اعتقاد و ایمان ان اسباب کے نقصانات اور ضرر سے محفوظ رھنے کی خواھش کی بنا پر پیداھوتا ھے۔ زمانہٴ اول کا بشر ان اسباب کے نقصانات اور اثرات کے خوف اور ڈر سے آھستہ آھستہ ایک ایسی صاحب قدرت ھستی کا قائل ھوگیا جو اس کے اعتبار سے ان تمام اسباب پر غالب اور مسلط تھی تاکہ اس طرح اس عظیم اور قادر ھستی کے حضور دعا، مناجات،قربانی، عبادت وغیرہ کرکے اس ھستی کی محبت و لطف کو ابھارے اورنتیجةً خود کو ان خطرات سے محفوظ کرلے۔

(۲)نظریہٴ جھالت
ویل ڈورانٹ (WILL DURANT) اور برٹرانڈرسل(BERTRAND RUSSELL) کی مانند بعض افراد اس نظریے کے قائل ھیں کہ شروعاتی زمانے کے انسانوں نے جھالت اور لاعلمی کی بنا پر اپنے اندر خدا اور دین پراعتقاد پیدا کرلیا تھا۔ یہ جاھل انسان جب چاند گرھن، سورج گرھن، آندھی اور بارش وغیرہ جیسے قدرتی واقعات وحادثات سے روبرو ھوتا تھا اور ان جیسے واقعات کی کوئی طبیعی اور ظاھری علت تلاش نھیں پاتا تھا تو لا محالہ ایک فرضی علت تلاش کرلیتا تھا اور اس علت کا نام ”خدا“ رکھ دیتا تھااور پھر مذکورہ تمام حادثات کو اس خدا سے منسوب کردیتا تھا۔خدا انسان پر اپنا عذاب نازل نہ کرے اور اسے زمینی اور آسمانی بلاؤں میں گرفتار نہ کرے لھذا وہ خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سربسجود ھوجاتا تھا۔

مذکورہ دو نظر یوں پر تبصرہ
۱) یہ دونوں نظریے فرضی اور احتمالی ھیں اور ان کے تاریخی اثبات و ثبوت پر کوئی دلیل موجود نھیں ھے۔
۲) اگر اس فرض کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ تمام یا بعض انسان خوف یا جھالت کی بناپر خدا کو باور کرلیا کرتے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے تب بھی منطقی لحاظ سے یہ نیتحہ اخذ نھیں کیا جاسکتا کہ ”خدا موجود نھیں ھے اور تمام ادیان باطل اور لغو ھیں“ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ یہ تمام نظریات صحیح ھیں توصرف اتنا ھی ثابت ھوتا ھے کہ دین اور خدا پر بشر کا اعتقاد و یقین غلط روش اورطریقے پر مبنی ھے اور یہ غیر از نفی وجود خدا اور نفی حقانیت دین ھے۔
مثلاً، تاریخ بشریت میں ایسے نہ جانے کتنے اختراعات و اکتشافات پائے جاتے ھیں جو شھرت طلبی، ثروت طلبی یا عزت و مقام طلبی کی بنیاد پر وجود میں آئے ھیںجو یقینا غیر اخلاقی اور غیر صحیح افکار و اقدام تھے لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ غیر اخلاقی افکار کی بنیاد پر وجود میںآنے والے علمی اختراعات و اکتشافات بھی غلط یا باطل قرار پا جائیں گے ۔
مختصراً یوں بھی کہا جاسکتا ھے کہ ان نظریات میں کسی فعل کو انجام دینے کا ”جذبہ“ اور اس فعل کا ”حصول‘ مخلوط ھوگئے ھیں یعنی ایک شےٴ کے باطل ھونے کودوسری کا باطل ھونا فرض کرلیا گیا ھے۔
۳) ایسے بھت سے حقائق ھیں جو ان دونوں مذکورہ نظریات کے برخلاف گفتگو کرتے نظر آتے ھیں مثلاً :
اولاً: تاریخ گواہ ھے کہ دین کو انسان تک پھونچانے والے اور بشر کو خدا کی طرف دعوت دینے والے پیغمبر ھمیشہ دلیر اور شجاع ترین افرادھوا کرتے تھے اور سخت ترین حالات اور مشکلات سے بھی ھنس کھیل کر گزرجاتے تھے۔
ثانیاً: نہ جانے کتنے ایسے ڈر پوک اور بزدل افراد گزرے ھیں جو خدا پر ذرہ برابر اعتقاد نھیں رکھتے تھے اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جا سکتے ھیں۔
ثالثاً: اگر خدا پر یقین و اعتقاد کی بنیاد طبیعی حادثات و واقعات ھیں تب تو موجودہ دور میں خدا پر ایمان باطل ،ختم یا کم از کم قلیل ھو جانا چاھئے کیونکہ آج انسان بھت سے طبیعی حادثات و واقعات پر غلبہ حاصل کرچکا ھے۔ اس کے بر خلاف آج ھم یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ آج بھی خدا پر ایمان اور اس کی پرستش دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر رائج اور موجود ھے۔
نظریہٴ جھالت کی تردید کرنے والے موارد بھی وافر مقدار میں موجود ھیں۔ اس سلسلہ میں صرف اتنا تذکرہ کافی ھے کہ دنیا میں ایسے بھت سے دانشمند پائے گئے ھیں جودل کی گھرائیوں سے خدا پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے مثلاً نیوٹن (ISAAQ NEOTON) ، گیلیلیو (GALILEO) آئن انسٹائن اور نہ جانے ایسے ھزاروں کتنے افراد اور آج بھی ایسے خدا پر ایمان رکھنے والے افراد کا مشاھدہ کیا جا سکتا ھے ۔
۴)ھمارے اعتبار سے دین کی طرف انسان کی رغبت کی وجوھا ت دو ھیں:
پھلی یہ کہ تاریخ کے شروعاتی دور ھی سے بشر یہ سمجھتا آیا ھے کہ ھر شئے ایک علت چاھتی ھے اور ایسی شےٴ جو ممکن الوجود ھو،اس کے لئے محال ھے خود بخود پیدا ھوسکے۔
دوسری وجہ یہ ھے کہ وجود خدا اور اس کی پرستش پر ایک طرح کا پو شیدہ یقین وایمان تمام انسانوں کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں رھتا ھے یعنی جس طرح حقیقت طلبی اور حسن پرستی فطری طور پر ھمیشہ سے تمام انسانوں میں پائی جاتی رھی ھے اسی طرح سے خدا شناسی اور خداپرستی بھی ھمیشہ سے بشریت کا خاصہ رھی ھے اور یھی وہ فطرت الٰھی ھے جو ان کو خدا پر ایمان و یقین کی طرف کھینچتی رھتی ھے۔
دین کی طرف انسان کی رغبت سے متعلق اور بھی بھت سے نظریات بیان ھوئے ھیں لیکن ان سب کی وضاحت اور نقد ظاھرھے ان مباحث کو طولانی کردے گی جو یھاں مناسب نھیں ھے۔
مذکورہ نظریات کی وضاحت اور نقد سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آجاتی ھے کہ ان نظریات کو پیش کرنے والے افراد شدید تعصبات کی بنیاد پر دین کی مخالفت اور نفی کربیٹھے ھیںنیز یہ کہ محبت یا بغض کی زیادتی بھی اکثر عقل کو اندھا کردیتی ھے۔
علاوہ از یں،ان نظریات کے بانیوں نے پھلے ھی سے یہ فرض کرلیا ھے کہ خدا اور دین پر ایمان و اعتقادکیلئے کوئی عقلی اور منطقی دلیل موجود نھیں ھے لھٰذا اسی وجہ سے اس سلسلے میں لغو دلائل دینے پرمجبور ھوگئے ھیں اور اس رغبت کے وجود میں آنے کی وجہ کچھ خاص نفساتی جذبات اور پھلووں کو قرار دے بیٹھے ھیں۔ مثلاً یھی کہ پھلے زمانے کا انسان طبیعی حادثات کی علت اور وجہ نھیں جانتا تھا لھٰذا انھیں سحرو جادو پر محمول کردیا کرتا تھا لیکن اگر یہ واضح ھوجائے کہ دین کی طرف رغبت کے مناسب عقلی اور منطقی دلائل موجود ھیں تو ان نظریات کی اھمیت خود بخود ختم ھو جائے گی۔

Add comment


Security code
Refresh