www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مغربی دنیا میں دین سے فرار کے اسباب

ھم سبھی جانتے ھیں کہ بالخصوص اٹھارھویں صدی کے بعد یوروپ میں عوام کا ایک بڑا طبقہ کفر اور بے دینی کی طرف مائل ھوگیا ھے اور ایسابھت کم ھوتا ھے کہ عام طور پر کسی دین کو اختیار کیا جائے۔ مغرب میں کفر کی طرف رغبت اور دین سے فرار کے مختلف اسباب و علل ھیں جن میں سے بعض ذیل میںبیان کئے جا رھے ھیں:

(۱) دینی تعلیمات کی توضیح و تشریح میں کلیسا کی نارسائی

مغربی دنیا میں رھبران دین اور ان میں بھی بالخصوص کلیسا کی جانب سے کی گئدینی تعلیمات نھایت غیر معقول اور حد درجہ غیر قابل قبول تھی۔ بدیھی اور واضح ھے کہ عقل انسانی، انسان کو قطعاً اتنا آزاد نھیں چھوڑ تی کہ وہ کسی بھی نظریے کو آنکھ بند کر کے بے چوں چراقبول اور اختیار کر لے ۔ لھٰذا کسی بھی دین یا مکتب کے کامیاب اور غلبہ حاصل کرنے کی پھلی شرط یہ ھے کہ وہ عقل سلیم کے مطابق ھو۔
مثال کے طور پر ، کلیسا میں خدا کو انسان نمابنا کر پیش کیا جاتا تھا اور خدا کو انسانی شکل و صورت میں عوام کے حوالہ کیا جاتاتھا کہ خدا بدن رکھتا ھے ، اس کی آنکھیں بھی ھیں اور ھاتھ پیر بھی ھیں بالکل دوسرے انسانوں کی طرح لیکن بھت بڑھا چڑھا کر اور بزرگ و قدرتمند بنا کر۔
اگر کسی کے سامنے اس کے بچپنے میں اس طرح خدا کی تصویر و خاکہ پیش کیا جائے اور وہ شخص عقلی شعور و رشد یا مراتب علم تک رسائی کرکے اس بات کا یقین و علم حاصل کرلے کہ خدا اس طرح موجود نھیں ھوسکتا جیسا کہ اس کے بچپن میں اس کے سامنے پیش کیا گیا تھاتو ممکن ھے کہ وہ خدا کے بارے میں اپنے نظریات کی تصحیح کے بجائے خدا کے اصل وجود کا ھی انکار کر بیٹھے۔
فلیمارین اپنی کتاب GOD IN NATURE میں لکھتا ھے :
کلیسا میں خدا کی شناخت اس طرح کرائی جاتی تھی کہ اس کی داھنی اور بائیں آنکھ کے درمیان چھ ھزار فرسخ کا فاصلہ ھے۔

(۲) کلیسا کی سختیاں اور اذیت رسانیاں

کلیسا تعلیمات دینی سے متعلق اپنی مخصوص تشریح و تفسیر کو رواج دینے اور لوگوں کو ان پر تھوپنے میں ذرّہ برابرپیچھے نھیں رھتاتھا اور اس سلسلہ میں ھر طرح کی زیادتی اور ظلم و تشدد روا تھا۔ یھاں تک کہ ایسے علمی موضوعات کی مخالفت پر بھی سزا ئیں دی جاتی تھیں جو براہ راست دین سے مربوط نھیں ھوتے تھے لیکن کلیسا انھیں قبول نھیں کرتا تھا مثلاً یہ کہ زمین گھوم رھی ھے۔ کلیسا کا نظریہ یہ تھا کہ زمین اپنے مدار پر بغیرحرکت کے موجود ھے اور سورج اس کے گرد حرکت کررھا ھے ۔
قرون وسطیٰ میں کلیسا نے انکوئیزیشن (INQUISITION) یا محاکمہٴ تفتیش عقائد نام کے محکمے قائم کررکھے تھے جن کی ذمہ داری یہ تھی کہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو کلیسا کے افکار کے مخالف ھیں اور شناخت کرکے انھیں ان کے ”جرم “ کے مطابق سزا دیں۔

WILL DURANT ان محکموں کے ذریعہ دی جانے والی سزاؤں اور سختیوں کے بارے میں رقم طراز ھے :
سزا دینے کے طریقے علاقوں اور جگھوں کے اعتبار سے مختلف تھے۔ کبھی ایسا ھوتا تھا کہ ملزم کے دونوں ھاتھوں کو پشت سے باندھ کر اسے سولی پر چڑھا دیاجاتا تھا اور کبھی ایساھوتا تھا کہ اس کو اس قدر سختی سے باندھ دیا جاتا تھا کہ وہ اصلاً حرکت بھی نہ کرسکے اور پھر اس کے دھن میں اتنا پانی انڈیلا جاتا تھا کہ وہ شخص دم گھٹنے کی وجہ سے مرجاتا تھا یا پھر یہ کہ اس کے بازوؤں اور پنڈلیوں کو رسیوں سے اتنا کس کر باندھا جاتا تھا کہ رسی گوشت کو چھیل کر ھڈی میں پیوست ھو جاتی تھی(۷)
ایک دوسری جگہ DURANT لکھتا ھے :
۱۴۸۰ءء سے ۱۴۸۸ءء تک یعنی ۸/سال کی مدت میں ۸۸۰۰/افراد کو جلایا اور ۹۶۴۹۴/افراد کو سخت ترین سزائیںدی گئی تھیں۔ ۱۴۰۸ءء سے ۱۸۰۸ءء تک ۳۱۹۱۲سے زیادہ افراد نذر آتش کئے گئے اور ۲۹۱۴۵۰سے زیادہ افراد کو سخت ترین سزائیں دی گئیں تھیں۔(۸)

(۳) مفاھیم فلسفی کی نارسائی

یہ ایک ایسا سبب ھے کہ جس کی وضاحت کے لئے ضروری ھے کہ کچھ عمیق فلسفی مطالب و مباحث کا تذکرہ کیا جائے جو یھاں مناسب نھیں ھے کیونکہ ھمارے مباحث طوالت اختیار کرجائیں گے۔ یھاں صرف اتنا اشارہ کافی ھے کہ مغربی دنیا میں فلسفہٴ الھٰیات اور علم کلام، بھت سی ایسی طویل و عریض مشکلات کا شکار تھے کہ وجود خدا اور دوسرے تمام دینی عقائد کی عقلی ، منطقی اور صحیح و حقیقی وضاحت نھیں کرپاتے تھے۔
مغرب میں فلسفی نظریات بالخصوص مسائل الھٰیات کس قدرکمزور اور بے بنیاد تھے ، اس کی مزید وضاحت کے لئے BERTRAND RUSSELL کی مندرجہ ذیل عبارت کافی حد تک مناسب ھے ۔ RUSSELL خدا کے وجود میں شک رکھتا ھے اور عملی طور پر بے دین ھے۔ وہ اپنی کتاب "WHY I AM NOT A CHRISTIAN" میں لکھتا ھے :
اس برھان ( برھان علت اولیہ) کی بنیاد اس پر منحصر ھے کہ اس کائنات میں ھم جو کچھ دیکھتے ھیں ، اس کی ایک علت ھے اور اگر علتوں کی اس زنجیر کے آخری سرے تک جایا جائے تو بالآخر علت اولیہ تک رسائی ھوجائے گی اور اس علت اولیہ کو علت العلل یا خدا کا نام دیاجاتا ھے ۔
RUSSELL آگے چل کر اس مذکورہ استدلال پرتبصرہ کرتا ھے:
میں اپنی جوانی کے دور میں ان مسائل سے متعلق زیادہ غور و خوض نھیں کیا کرتا تھا۔ ایک مدت تک میں نے برھان علت العلل کو قبول بھی کیا تھا۔ یھاں تک کہ میں نے اپنی عمر کے اٹھارھویں سال میں قدم رکھا اور اسی زمانے میں JOHN STUART کی سوانح حیات کے مطالعے کے دوران یہ جملہ میری نظرسے گزرا: ”میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ یہ سوال کہ کس نے مجھے خلق کیا ھے؟ ایک ایسا سوال ھے کہ جس کا کوئی جواب نھیں ھے کیونکہ فوراً ھی یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے کہ پھر ”خدا کو کس نے خلق کیا ھے؟“۔
اس جملے نے بڑی آسانی سے برھان علت العلل کو میری نظر میں باطل کردیا اور میری نگاہ میں یہ برھا ن ابھی تک بے بنیاد ھے۔ اگر ھر شےٴ علت کی محتاج ھے تو لامحالہ خدا کوبھی ایک علت کا محتاج ھونا چاھئے اوریھیں سے یہ برھان باطل ھوجاتا ھے۔
اگر کوئی شخص فلسفہٴ اسلامی سے ذرہ برابر بھی آشنائی رکھتا ھو تو اس کو پھلے ھی مرحلے میں RUSSELL کے مذکورہ دعوے کی خامیاں نظر آجائیں گی۔ RUSSELL کے اعتبار سے قانون علیت یہ ھے کہ ”ھر موجود ،محتاج علت ھے“۔ جب کہ حقیقی قانون علیت یہ ھےکہ ”ھر ممکن، محتاج علت ھے۔“ لھٰذا اس کائنات کی علت اولیہ ،ازل سے خوبخود اس قاعدے سے باھر ھے۔ مثلاً، جس طرح قاعدہٴ ”ھر فاسق ، جھوٹا ھوتا ھے“ روز اول سے انسان عادل کے دائرے سے باھر ھے۔
پیش نظر مباحث، بعض دوسرے مباحث فلسفی کے محتاج ھیں جن کی یھاں گنجائش نھیں ھے۔

(۴) مفاھیم اجتماعی کی نارسائی

مغرب میں یہ نظریہ رواج پا چکا ھے کہ معاشرے پر دینی حکومت کا نتیجہ پوری طرح آزادی کا خاتمہ، ڈکٹیٹر شپ اور ایسے لوگوں کی جبر آمیز حکومت ھے جو خدا کی طرف سے خود کو لوگوں پر حاکم گردانتے ھیں۔ عوام یہ سوچتے تھے کہ اگر خدا کو قبول کرلیا تولازمی طور پر قدرت ھائے مطلقہ کی ڈکٹیٹر شپ کو بھی لامحالہ قبول کرنا پڑے گا اس طرح کہ کوئی بھی شخص آزاد نھیں ھوگا۔ لھٰذا خدا کو قبول کرنا اجتماعی قید و بند کے مترادف ھے۔ پس اگر اجتماعی آزادی کی خواھش ھے تو خدا کا انکار کرنا ھوگا۔ بھرحال اجتماعی آزادی کو ترجیح دی گئی اور خدا کا انکار کردیا گیا۔
اسلام جوکہ زمانہ حاضر میں واحد ایسا دین ھے جو کسی بھی طرح کی تبدیلی و تغیر اور تحریف سے محفوظ ھے ، نے رھبران دین کیلئے اس نکتہ پر نھاےت تاکید کی ھے کہ اگر وہ عوام پر حق رکھتے ھیں تو عوام بھی ان پر حق رکھتے ھیں۔مثال کے طورپر حضرت علی کے خطبے کا مندرجہ اقتباس قابل غور ھے:
---”پروردگار نے ولی امر ھونے کی بناپرتم پر میرا ایک حق قرار دیا ھے اور تمھارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا ایک حق ھے ۔۔۔۔ حق ھمیشہ دو طرفہ ھوتا ھے ۔ یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نھیں دیتا ھے جب تک اس کے ذمے کوئی حق ثابت نہ کردے اور کسی کے خلاف فیصلہ نھیں کرتا ھے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے ۔ اگر کوئی ھستی ایسی ممکن ھے جس کا دوسروں پر حق ھو اور اس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ھستی ھے کہ وہ ھر شئے پر قادر ھے اور اس کے تمام فیصلے عد ل وانصاف پر مبنی ھوتے ھیں ۔ “(۹)

(۵) مسائل الٰھیات سے متعلق سرسری اظھار نظر

اس قدر خدا شناسی بالکل سادہ اور فطری ھے جتنی کہ عوام الناس کا وظیفہ اور ذمہ داری ھے کہ سمجھیں اور اس پر ایمان لائیں لیکن مسائل فلسفی کے ادق اور عمیق مباحث نھایت پیچیدہ اور گنجلک ھیں اور اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ھیں کہ ھر شخص اس وادی میں داخل بھی نھیں ھوسکتا۔ مباحث صفات و اسمائے الٰھی ، قضاو قدر الٰھی، جبرو اختیار وغیرہ اسی طرح کے دشوارترین مسائل ھیں اور بقول حضرت علی علیہ السلام ”دریائے عمیق“ ھیں لیکن نھایت افسوس ناک بات ھے کہ مغرب میں بھی اور مشرق میں بھی ھر کس و ناکس اپنے اندر اتنی جراٴت پیدا کرلیتا ھے کہ ان دشوارترین مباحث پر اپنے نظریات پیش کردے جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ یہ مذکورہ مسائل و مباحث غلط اور غیر صحیح طور پر عوام تک منتقل ھوجاتے ھیں اور عوام حقانیت دین سے متعلق تردد و شک کا شکار ھوجاتے ھیں۔
شھید مرتضیٰ مطھری اس سلسلے میں ایک داستان نقل فرماتے ھیں:
خدا نے اونٹ کو پرکیوں نھیں دئے جب کہ کبوتر کو دئیے ھیں؟ اس سوال کے جواب میں ایک شخص نے کہا: اگر کبوتر کی طرح اونٹ کے بھی پرھوتے تو ھماری زندگی تلخ ھو گئی ھوتی۔ اونٹ پر واز کرتا اور ھمارے لکڑی اور مٹی سے بنے مکانوں کو تباہ کردیتا۔ ایک دوسرے شخص سے سوال کیا گیا کہ خدا کے وجود پر کیا دلیل ھے؟ اس نے کہا: تل ھی سے تاڑ بنتا ھے۔ (۱۰)
دلیل کا کمزور ھونا ھرگز دعوے کے باطل ھونے کا سبب نھیں بن سکتا لیکن نفسیاتی طور پر جب بھی کسی دعوے کے لئے کوئی کمزور دلیل پیش کی جاتی ھے توسننے والا دعوے کے صحیح ھونے کے بارے میں ھی تردید کا شکار ھو جاتا ھے بلکہ کبھی کبھی تو ایک قدم آگے بڑھ کر اس کو اس دعوے کے باطل ھونے کا یقین بھی ھوجاتا ھے۔
نادان افراد کی جانب سے عقائد اور دینی تعلیمات کی غلط اور غیر صحیح تفسیر و تشریح بھی بسا اوقات بے دینی کی طرف تمائل کا سبب بن جاتی ھے۔

(۶) دین کو دنیاوی سعادت میں حائل بتا کر پیش کرنا

انسان کچھ ایسے جذبات اور غریزوںکامالک ھے جنھیں حکمت الٰھی نے اسکے اندر ودیعت کیا ھے تاکہ وہ اپنی زندگی کو سروسامان عطا کرسکے اور اس ھدف تک پھونچ سکے جس کے پیش نظر اس کو خلق کیا گیا ھے۔ تمایل جنسی، فرزند طلبی، علم و معرفت سے محبت اور خوبصورتی کی چاھت مذکورہ جذبات و غرائز کی کچھ مثالیں ھیں۔
اگرچہ انسان کو ان جذبات و غرائز کا تابع محض نھیں ھونا چاھئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناممکن ھے کہ وہ انھیں چھوڑ دے یا مکمل طور پر ان کی مخالفت کربیٹھے۔ لھٰذا بھتر یہ ھے کہ جذبات و غرائز میں اعتدال سے کام لینا چاھئے۔
اب اگر دین اور خدا کے نام پر ان غرائز کی مکمل طور پر نفی اور مخالفت کردی جائے اور مثلاً تجرد و رھبانیت کو مقدس اور شادی کو پست سمجھ لیا جائے نیز دولت و قدرت کوتباھی ، بربادی و بدبختی کی علت اور فقر و کمزوری کو خوش بختی کی علامت تسلیم کرلیا جائے تو فطری طور پر یھی ھوگا کہ انسان دین سے کنارہ کش اور خدا کا منکر ھوجائے گا کیونکہ یہ تمام خواھشات و غرائز انسانی طبیعت میں دخیل ھیں اور انسان ان سے حد درجہ متاثر ھوتا ھے۔ افسوسناک بات یہ ھے کہ جو مرض کبھی مغربی دنیا میں پھیل گیا تھا اور آج تک اس کا اثر باقی ھے اس کو بعض نیم حکیم قسم کے افراد بسا اوقات مسلمانوں کے درمیان بھی رائج کرنا چاھتے ھیں۔
BERTRAND RUSSELL کھتا ھے:
کلیسا کے تعلیمات، بشر کو دو طرح کی بدبختیوں اور محرومیوں میں قرار دیتے ھیں: یا دنیا کی نعمتوں سے محرومی یاآخرت کی نعمتوں اور لذائز سے کنارہ کشی۔ کلیسا کے مطابق انسان کے لئے ضروری ھے کہ ان دونوں محرومیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے ۔ یا دنیا میں ذلیل و خوار ھو اور اس کے بدلے میں آخرت کی نعمتوں سے لطلف اندوز ھو یا اس کے برعکس اگر دنیا میں عیش و عشرت چاھتا ھے تو آخرت میں پریشانیاں اور سختیاں برداشت کرے۔“ (۱۱)
لیکن کلیسا کا یہ نظریہ بالکل بے بنیاد اور باطل ھے۔ حقیقی دین دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کی ذمہ داری کو قبول کرتا ھے اور اگر کوئی شخص دین سے فرار اختیار کرتا ھے توآخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ھوگا۔

کسی بھی عاقل انسان کے ذھن میں یہ سوال پیدا ھوسکتا ھے کہ کیوں خدا نے بشر کو اس بات پر مجبور کیا ھے کہ وہ دنیا و آخرت میں سے کسی ایک کو قبول کرے؟ کیا خدا بخیل ھے؟!
حقیقت یہ ھے کہ دینی تکالیف و وظائف کی انجام دھی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کو بھی باعزت اور باسعادت بناتی ھے۔
اس سلسلے میں ھم ایک بار پھر علامہ شھید مرتضیٰ مطھری کی طرف رجوع کرتے ھیں:
بعض مبلغین کی خلاف حقیقت ،تعلیم اور تبلیغ اس بات کی موجب ھوتی ھے کہ بشر دین سے متنفر ھوجائے اور یہ فرض کرلے کہ خداشناسی محرومیت، ذلت و خواری اور اس دنیا میں مشکلات و پریشانیوں کا لازمہ ھے۔“ (۱۲)

(۷) فساد اخلاقی و عملی

دین کی قبولیت انسانی زندگی میں بعض شرائط و قیود کی موجب ھوتی ھے۔اس وجہ سے ایسے لوگ جو شھو ت پرستی اور ھوا وھوس میں غرق ھوتے ھیں، دین کو اپنی آزادی میں مخل گردانتے ھیں لھٰذا دین کا انکار کرکے خود کو آزاد سمجھ لیتے ھیں۔
قرآن کریم فرماتا ھے:
جو لوگ قیامت کے واقع ھونے میں تردید کے شکار ھیں درحقیقت ان کا یہ شک کوئی علمی شک نھیںھے بلکہ اپنی شھوت پرستی اور بے راہ روی کی بنیاد پر قیامت کا انکار کرتے ھیں۔ (بلْ یُرِیْدُ الْاٴِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہ) اور قیامت کے حساب و کتاب سے بے پرواہ ھوکر ساری عمر گناہ کرتے ھیں۔ (۱۳)
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ھے کہ فساد اخلاقی و عملی، حق و حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ھوتا ھے۔ توحید ایک ایسا تخم ھے جو صرف پاک و پاکیزہ زمین ھی میں رشد پاسکتاھے۔ بنجر اور ریتیلی زمین اس بیج کو تباہ و برباد کردیتی ھے۔ اگر انسان اپنے عمل میں شھوت پر ست و مادہ پرست ھوجائے توآھستہ آھستہ اس کے افکار و خیالات بھی قاعدہٴ ”اصل انطباق با جامعہ“کے تحت اس روحی اوراخلاقی فضا کے مطابق ھوجاتے ھیں۔
اسی وجہ سے خدا نے قرآن مجید کی ھدایت کو فقط متقین کےلئے قراردیاھے(ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھدیً لِلْمُتَّقِیْن)یہ وہ کتاب ھے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نھیںھے یہ صاحبان تقویٰ اورپرھیزگار لوگوں کیلئے مجسم ھدایت ھے (۱۴) اور اس کے انذار و عذاب کو ان لوگوں سے مخصوص کردیا ھے جو شھوت پرستی وفساد اخلاقی ا ورجنسی میں غرق ھوتے ھیں۔ (اِنْ ھوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرَآنٌ مُّبِیْن لینذر من کان حیاً ویحق القول علی الکافرین)یہ تو ایک نصیحت اور کھلا ھوا روشن قرآن ھے تاکہ اس کے ذریعہ زندہ افراد کوعذاب الٰھی سے ڈرائیں اورکفار پرحجت تمام ھوجائے (۱۵)
گزشتھ دوتین صدیوں میں مغربی دنیا میں مفاسد اخلاقی واجتماعی کی شدت و زیادتی نے لوگوں کو اخلاقیات و معنویات کی فضا سے دور کردیا ھے ۔جس کی وجہ سے اعتقادی نقطہٴ نظر سے بھی لوگ معارف و تعلیمات دینی سے برگشتہ ھوگئے ھیں۔ ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَٴساوٴُا السُّوٓاٴیٰ اٴَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ اور اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ھوا کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا۔ (۱۶)
یھی وہ حربہ تھا جس کی وجہ سے مغربی دنیا کے عیسائیوں نے اسپین کی ناقابل تسخیر حکومت کو مسلمانوں کے ھاتھوں سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے وھاں مسلمانوں کو عیش و عشرت ، شھوت پرستی، جام وشراب میں غرق کردیا اور پھر بڑی آسانی سے مسلمانوں کو اس سرزمین سے باھر نکال دیا۔

Add comment


Security code
Refresh