www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جن باتوں پر شیعوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ ظھر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے ہیں ۔

اھل سنت جب اس سلسلے میں شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں تو عموماً اس طرح کی تصویر کھینچتے ہیں گویا وہ خود نماز کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "مومنین پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے ۔
اھل سنت اکثر شیعوں کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ نماز کی پروا نھیں کرتے اور اس طرح خدا ورسول(ص) کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔
اس سے پھلے کہ ھم شیعوں کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ کریں ، ھمارے لئے ضروری ہے کہ ھم اس موضوع کا ھر پھلو سے جائزہ لیں ، طرفین کے اقوال اور دلائل سنیں اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ جلد بازی میں کسی کے خلاف کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔ اھل سنت کا اس پر تو اتفاق ہے کہ 9 ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ظھر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جائیں ، اس کو جمع تقدیم کھتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی جائیں ،اسے جمع تاخیر کھا جاتا ہے ۔ یھاں تک تو شیعہ سنی کیا تمام ھی فرقوں کا اتفاق ہے ۔
شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ کیا ظھر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں پورے سال سفر کے عذر کے بغیر بھی جمع کرنی جائز ہیں ؟
حنفی حضرات صریح نصوص کے باوجود نمازیں جمع کرنے کی اجازت کے قائل نھیں حتی کہ سفر کی حالت میں بھی نمازیں اکٹھی پڑھنے کو جائز نھیں سمجھتے ۔اس طرح حنفیوں کاطرز عمل اس اجماع امت کے خلاف ہےجس پر شیعوں اور سنیوں دونوں کا اتفاق ہے ۔
لیکن مالکی ، شافعی اور حنبلی سفر کی حالت میں تو دو فرض نمازوں کے اکٹھا پڑھ لینے کے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن ان میں اس پر اختلاف ہے کہ کیا خوف ،بیماری بارش وغیرہ کے عذر کی وجہ سے بھی دونماز وں کا اکٹھا پڑھ لینا جائز ہے ۔
شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جمع بین الصلاتین مطلقاً جائز ہے اور اس کے لیے سفر ، بیماری یا خوف وغیرہ کی کوئی شرط نھیں ۔ وہ اس سلسلے میں ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی ان روایات پر عمل کرتے ہیں جو شیعہ کتابوں میں موجود ہیں ۔
ھمارے لیے ضروری ہے کہ ھم شیعہ موقف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ جب بھی اھل سنت ان کے طریقے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرتے ہیں وہ اسے یہ کھہ کر رد کردیتے ہیں کہ انھیں تو ائمہ اھل بیت علیھم السلام نے خود تعلیم دی ہے اور ان کی تمام مشکلات کو حل کیا ہے ۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان ائمہ معصومین علیھم السلام کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن وسنت کا پورا علم رکھے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے پھہلی مرتبہ جو ظھر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں وہ شھید محمد باقر صدر کی امامت میں پڑھی تھیں ۔ ورنہ اس سے قبل میں نجف میں بھی ظھر اور عصر کی نمازیں الگ الگ ھی پڑھا کرتاتھا ۔ آخر وہ مبارک دن بھی آگیا جب میں آیت اللہ صدر کے ساتھ ان کے گھر سے اس مسجد میں گیا جھاں وہ اپنے مقلدین کو نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ ان کے مقلدین نے میرے لیے احتراماً عین ان کے پیچھے جگہ چھوڑدی ۔ جب ظھر کی نماز ختم ھوگئی اور عصر کی جماعت کھڑی ھوئی تو میری جی نے کھا اب یھاں سے نکل چلو ۔ لیکن میں دووجہ سے ٹھہرارھا ۔ ایک تو سید صدر کی ھیبت تھی ۔جس خشوع سے وہ نماز پڑھا رھے تھے ،میرا دل چاھتا تھا کہ وہ نماز پڑھا تے ھی رھیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس جگہ میں تھا وہ جگہ اور سب نمازیوں کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی ۔مجھے ایسا محسوس ھورھاتھا جیسے کسی زبردست طاقت نے مجھے ان کے ساتھ باندھ دیا ھو ۔نماز سے فارغ ھوئے تو لوگ ان سے سوالات پوچھنے کے لیے امنڈ پڑے میں ان کے پیچھے بیٹھا ھوا لوگوں کےسوال اور ان کے جواب سنتا رھا ۔
بعض سوال جواببھت آھستہ ھونے کی وجہ سے سمجھ میں نھیں آئے ۔لیکن مجھے شرم آرھی تھی ۔میں ان پر اور ۔زیادہ بوجھ بننا نھیں چاھتا تھا ۔ اس کے بعد وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھر لےگئے ۔ وھاں جاکر مجھے معلوم ھوا کہ اس دعوت کاخاص مھمان اور میر محفل میں ھی ھوں ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ھوئے جمع بین الصلاتین کے بارے میں دریافت کیا ۔
آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے جواب دیا ۔ ھمارے یھاں ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت سی روایات ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے یہ نماز پڑھی یعنی ظھر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ اوریہ نمازیں خوف یا سفر کی وجہ سے نھیں بلکہ امت سے حرج دورکرنے کے لیے اکٹھی پڑھیں ۔
میں :- میں حرج کا مطلب نھیں سجمھا ۔قرآن شریف میں بھی ہے :
"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"
سید صدر :- اللہ سبحانہ کو ھر شئے کا علم ہے ۔اسے معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں وہ چیزیں ھوں گی جنھیں ھمارے یھاں پبلک ڈیوٹیز کھا جاتا ہے پھر اس طرح کی سرکاری ملازمتیں : جیسے گارڈ ، پولیس ، لویز ، فوج ،پبلک اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ،حتی کہ طلبہ اور اساتذہ بھی ۔ اگر دین ان سب کو پانچ متفرق اوقات میں نماز پڑھنے کا پابند کرے ، تویقینا ان کے لیے تنگی اورپریشانی ھوگی ، اس لیے رسول اللہ (ص) کے پاس وحی آئی کہ وہ دو فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھا دیں تاکہ نماز کے اوقات پانچ کے بجائے تین ھوجائیں ،یہ صورت مسلمانوں کے لیے زیادہ سھل تھی اور اس میں کوئی حرج یعنی تنگی بھی نھیں ہے ۔
میں : لیکن سنت نبوی(ص) قرآن کو تو منسوخ نھیں کرسکتی ۔
سید صدر:- میں نے کب کھا کہ سنت نے قرآن کو منسوخ کردیا ۔لیکن اگر کسی چیز کو سمجھنے میں دقت ھو تو سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح تو کرسکتی ہے ۔
میں :- اللہ سبحانہ کھتاہے کہ " إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اور مشھور حدیث مین ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ(ص) کے پاس آئے اور آپ نے دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھی ۔ اسی پر ان نمازوں کے نام ظھر ، عصر ، مغرب ،عشاء اور فجر رکھے گئے ۔
سید صدر :- : " إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "
کی تفسیر رسول اللہ(ص) نے دو طرح سے کی ہے ۔ الگ الگ نمازوں سے بھی اور جمع بین الصلاتین سے بھی ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ھوا کہ یہ پانچ نمازیں پانچ مختلف اوقات میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔اور تین اوقات میں بھی جمع کی جاسکتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں وہ صحیح وقت پر ادا ھوں گی ۔
میں :- قبلہ ! میں سمجھا نھیں ۔ اللہ تعالی نے پھر " كِتَابًا مَّوْقُوتًا " کیوں کھا ہے ؟
سید صدر : (مسکراتے ھوئے ) آپ کا خیال ہے ، مسلمان حج میں وقت پرنماز نھیں پڑھتے ؟ کیا وہ اس وقت احکام الھی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ عرفات میں ظھر اور عصر کی نماز کے لیے اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ (ص) کی پیروی میں جمع ھوتے ہیں ۔
میں نے ذرا سوچ کر کھا : شاید عذر کی وجہ سے ھو حجاج تھک جاتے ہیں اس لیے اللہ نے اس موقع پر ان کے لیے کچھ سھولت کردی ۔
سید صدر:- یھاں بھی اللہ تعالی نے اس امت کے متاخرین سے تنگی دورکردی اوردین کو آسان بنادیا ۔
میں :- آپ ابھی کھا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کے پاس وحی بھیجی کہ دو وقت کی فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھائیں تاکہ نمازوں کے وقت پانچ کے بجائے تین ھوجائیں ۔ تو یہ اللہ نے کس آیت میں کھا ہے ؟
سید صدر نے فورا جواب دیا : کون سی آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول(ص) کو حکم دیا ہے کہ وہ دونمازیں عرفات میں اور دومزدلفہ میں جمع کریں ، اور پانچ وقتوں کہ کس آیت میں ذکر ہے ؟
میں اس دفعہ خاموش ھوگیا ، کوئی اعتراض نھیں کیا ۔ میں مطمئن ھوچکا تھا ۔
سید صدر نے مزید کھا : اللہ تعالی اپنے نبی کو جووحی بھیجتا ہے ،ضروری نھیں کہ وہ قرآن میں ھی ھو اور وحی متلو ھی ھو :
" قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً (سورہ کھف ۔آیت 109)"
آپ کھہ دیجیے کہ اگر سب سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ھوجائیں گے مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نھیں ھوں گی اگر چہ ھم ایسا ھی سمندر اس کی مدد کے لیے آئیں ۔
جسے ھم سنت نبوی کھتے ہیں ، وہ بھی وحی الھی ھی ہے ، اسی لیے اللہ سبحانہ نے کھا ہے :
"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"
جس چیز کا رسول (ص) تمھیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رھو ۔
باالفاظ دیگر ۔ جب رسول اللہ(ص) صحابہ کو کسی کام کا حکم دیتے تھے یا کسی کام سے منع کرتے تھے تو صحابہ کو یہ حق نھیں تھا کہ وہ آپ پر کوئی اعتراض کرتے یا آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ کلام اللہ کی کوئی آیت پیش کریں ۔ وہ آپ کے حکم کی تعمیل سمجھ کر کرتے تھے کہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وحی الھی ھوتا ہے ۔
سید باقر صدرنے ایسی ایسی باتیں بتلائیں کہ میں حیران رہ گیا ۔اس سے پھلے میں ان حقائق سے ناواقف تھا ۔
میں نے جمع بین الصلاتین کے موضوع سے متعلق ان سے مزیدپوچھا : قبلہ! کیا ایسا ھوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان دونمازیں ضرورت کی صورت میں جمع کرلے ؟
"دو نمازوں کا جمع کرنا ھرحالت میں جائز ہے ، ضرورت ھو یانہ ھو "۔
میں نے کھا : اس کے لیے آپ کے پاس دلیل کیا ہے؟
انھوں نےکھا : اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نے مدینہ میں دو فرض نمازوں کو جمع کیا ہے اور اس وقت آپ سفر میں نہ تھے ۔ نہ کوئی خوف تھا نہ بارش ھورھی تھی اور نہ کوئی ضرورت تھی ، صرف ھم لوگوں سےتنگی رفع کرنے کے لیے آپ نے دونمازوں کو اکٹھا پڑھا ۔ اور یہ بات ھمارے یھاں ائمہ اطھارعلیھم السلام کے واسطے سے بھی ثابت ہے اورآپ کے یھاں ثابت ہے ۔
مجھے بھت تعجب ھوا : ھائیں ! ھمارے یھاں کیسے ثابت ہے ۔ میں نے آج تک نھیں سنا ! اورنہ میں نے اھل سنت والجماعت کو ایسا کرتے دیکھا ۔بلکہ وہ تو کھتے ہیں کہ اکر اذان سے ایک منٹ پھلے بھی نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہے ،چہ جائیکہ گھنٹوں پھلے عصر کی نماز ظھر کے ساتھ یا عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ لی جائے ۔ یہ بات بالکل غلط معلوم ھوتی ہے ۔
آیت اللہ صدر میری حیرت کو بھانپ گئے ۔ انھوں نے ایک طالب علم کو آھستہ سے کچھ کھا ۔ وہ اٹھ کر پلک جھپکتے میں دو کتابیں لےآیا ۔ معلوم ھوا کہ ایک صحیح بخاری ہے ،دوسری صحیح مسلم ۔
آقائے صدر نے اس طالب علم سے کھا کہ وہ مجھے جمع بین الفریضتین سے متعلق احادیث دکھائے ۔میں نے خود صحیح بخاری میں پڑھا کہ رسول اللہ (ص) نے ظھر اور عصر کی نمازوں کو اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ صحیح مسلم میں تو بغیر خوف ، بغیر بارش اور بغیر سفر کے دونمازوں کوجمع کرنے کے بارے میں پوراایک باب ہے ۔
میں اپنے تعجب اور حیرت کو تو چھپا نہ سکا ۔مگر پھر بھی مجھے کچھ شک ھوا کہ شاید بخاری اور مسلم جو ان کے پاس ہیں ان میں کچھ جعل سازی کی گئی ہے میں نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ تیونس جاکر میں ان کتابوں کو پھر دیکھوں گا ۔
آیت اللہ سیدمحمد باقر صدر (رح) نے مجھ سے پوچھا : اب کھیے کیا خیال ہے ؟
میں نے کھا:آپ حق پر ہیں اورجو کھتے ہیں سچ کھتے ہیں ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات اور پوچھناچاھتاھوں ۔
فرمائیے : انھوں نے کھا ۔
میں نے کھا : کیا چاروں نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے ؟ ھمارے یھاں بھت سے لوگ ایسا کرتے ہیں ، جب رات کو کام پر سے گھر واپس آتے ہیں ، تو ظھر ،عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازین قضا پڑھ لیتے ہیں ۔
انھوں نے کھا: یہ تو جائز نھیں ، البتہ مجبوری کی بات دوسری ہے کیونکہ مجبوری میں بھت سی باتیں جائز ھوجاتی ہیں ، ورنہ تو نماز کا وقت مقرر ہے " إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "
میں آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ رسول اللہ (ص) نے نمازیں الگ الگ بھی پڑھی ہیں اور ملا کر بھی پڑھی ہیں اور اسی سے ھمیں معلوم ھوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات کون سے ہیں ۔
اس پر انھوں نےکھا : ظھر اور عصر کی نمازوں کا وقت مشترک ہے اور یہ وقت زوال آفتاب سے شروع ھوکر غروب آفتاب تک رھتا ہے ۔مغرب اور عشاء کا وقت بھی مشترک ہے جو غروب آفتاب سے نصف شب تک رھتا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت الگ ہے جو طلوع فجر سے دن نکلنے تک ہے (1)۔ جو اس کے خلاف کرے گا ۔ وہ اس آیت کریمہ کی خلاف ورزی کرے گا کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اس لیے یہ ممکن نھیں کہ ھم مثلا صبح کی نماز طلوع فجر نھیں ظھر اور عصر کی نماز زوال سے پھلے یا غروب آفتاب کے بعد پڑھیں یا مغرب اورعشاء کی نمازیں غروب سےپھلے یا آدھی رات کے بعد پڑھیں ۔
میں نے آقائے صد ر کا شکریہ ادا کیا ، گو مجھے ان کی باتوں سے پورا اطمینان ھوگیا تھا ، لیکن میں نے نمازوں کو جمع کرنا اس وقت شروع کیا جب میں تیونس واپس آکر تحقیق اورمطالعہ میں پوری طرح مشغول ھوگیا اور میری آنکھیں کھل گئیں ۔
جمع بین الصلاتین کےبارے میں شھید صدر سے جو میری گفتگو رھی ، یہ اس کی داستان ہے اور یہ داستان میں نے دو وجہ سے بیان کی ہے :
ایک تویہ کہ میرے اھل سنت بھائیوں کو یہ معلوم ھوجائے کہ جو علما ء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ان کا اخلاق کیسا ھوتا ہے ۔
دوسرے یہ بھی احساس ھوجائے کہ ھمیں یہ تک معلوم نھیں کہ ھماری حدیث کی معتبر کتابوں میں کیا لکھا ھوا ہے ۔ ھم ایسی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کھتے ہیں جن کی صحت کے ھم خود قائل ہیں اور جن کو ھم صحیح سنت نبوی تسلیم کرتےہیں ۔
اس کا مطلب یہ ھوا کہ ہم ان باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن پر خود رسول اللہ (ص) نے عمل کیا تھا اور اس کے باوجود دعوی ھمارا یہ ہے کہ ھم اھل سنت ہیں :
میں پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتاھوں ۔ھاں تو میں یہ کھہ رھا تھا کہ ھمیں شیعوں کے اقوال کو شک کی نظر سے دیکھنا ھوگا کیونکہ وہ اپنے ھر عقیدے اور عمل کی سند ائمہ اھل بیت علیھم السلام سے لاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ نسبت صحیح نہ ھو ۔ لیکن ھم اپنی صحاح میں تو شک نھیں کرسکتے ، ان کی صحت تو ھمیں تسلیم ہے اوراگر ھم ان میں بھی شک کرنے لگے تو میں نھیں کھہ سکتا کہ پھر ھمارے پاس دین میں سے کچھ باقی بچے گا بھی کہ نھیں !
اس لیے تحقیق کرنے والے کے لیےضروری ہےکہ وہ انصاف سے کام لے اور تحقیق سے اس کا مقصد رضائے الھی کا حصول ھو۔ اس طرح امید ہےکہ اللہ تعالی ضرور صراط مستقیم کی طرف رھنمائی کرے گا ، اس کے گناھوں کو بخش دے گا اور اسے جنت النعیم میں داخل کرے گا ۔
اور یہ ہیں وہ روایات جو جمع بین الصلاتین کے بارے میں علمائے اھل سنت نے بیان کی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر آپ کو یقین ھوجائے گا کہ جمع بین الصلاتین کوئی شیعہ بدعت نھیں ہے :
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نےجب وہ مدینے میں مقیم تھے ،مسافر نھیں تھے سات اورآٹھ رکعتیں پڑھیں ۔(2)
امام مالک نے موطاء میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کھتے ہیں کہ :
رسول اللہ (ص) نے بغیر خوف اور سفر کے ظھر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اور عشاء کی اکٹھی ۔(3)
صحیح مسلم باب الجمع بین الصلاۃ فی الحضر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ (ص) نے بغیر خوف اور سفر کے ظھر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اورعشاء کی اکٹھی ۔
صحیح مسلم میں ابن عباس ھی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے مدینہ میں بغیر خوف اوربغیر بارش کے ظھر ،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔
راوی کھتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ (ص) نے ایساکیوں کیا ؟ ابن عباس نے کھا : اپنی امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ۔
اسی باب میں صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ھوتاہے کہ جمع بین الصلاتین کی سنت صحابہ میں مشھور تھی ۔ اور اس پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے ۔
صحیح مسلم کے اسی باب کی روایت ہے کہ :
ایک روز ابن عباس نے عصر کے بعد خطبہ دیا ۔ ابھی ان کا خطبہ جاری تھا کہ سورج ڈوب گیا ، ستارے نکل آئے ، لوگ بے چین ھو کر الصلاۃ ، الصلاۃ پکارنے لگے ۔
بنی تمیم میں سےایک گستاخ شخص الصلاۃ ،الصلاۃ کھتا ھوا ابن عباس تک پھنچ گیا ۔ ابن عباس نے کھا : تیری ماں مرے، تو مجھے سنت سکھاتا ہے ! میں نے رسول اللہ (ص) کو ظھر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے دیکھا ہے "۔
ایک اورروایت میں ہے کہ :
"ابن عباس نے اس شخص سے کھا تیری ماں مرے ، تو ھمیں نماز سکھاتا ہے ۔ ھم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں جمع الصلاتین کیا کرتے تھے "۔(4)
باب وقت المغرب میں صحیح بخاری کی روایت ہے ،جابر بن زید کھتےہیں کہ ابن عباس کھتے تھے کہ
"رسول اللہ (ص) نے سات رکعتیں اکٹھی اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں "(5)
اسی طرح بخاری نے باب وقت العصر میں روایت کی ہےکہ ابو امہ کھتے تھے :
"ھم نے عمر بن عبدالعزیز کےساتھ ظھر کی نماز پڑھی ،پھر ھم وھاں سے نکل کر انس بن مالک کے پاس پھنچے ۔ دیکھا تو عصر کی نماز پڑھ لی ؟ کھنے لگے عصر کی ، اور یہ رسول اللہ (ص) کی نماز ہے جو ھم رسول اللہ (ص) کے ساتھ پڑھا کرتے تھے "۔(6)
اھل سنت کی صحاح کی احادیث کے اس مختصر جائزے کے بعد ھم پوچھنا چاھیں گے کہ ان روایات کے ھوتے ھوئے اھل سنت آخر شیعوں کو برا بھلا کیوں کھتے ہیں اور ان پرکیوں اعتراض کرتے ہیں ۔
ہم پھر حسب عادت وھی بات کھیں گے کہ اھل سنت کرتے کچھ ہیں اور کھتے کچھ ہیں اور ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی صحت کے خود قائل ہیں ۔
ھمارے شھر قفصہ میں ایک دن امام صاحب نمازیوں کے درمیان کھڑے ھو کر ھمیں بدنام کرنے کے لیے ھم پر لعن طعن کرتے ھوئے کھنے لگے : "تم نے دیکھا ان لوگوں نے کیا دین نکالا ہے ۔ ظھر کی نماز کے فورا بعد عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ھوجاتے ہیں ۔ یہ دین محمدی نھیں ہے کوئی نیادین ہے ۔یہ قرآن کے خلاف کرتے ہیں ۔قرآن تو کھتا ہے :
" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " غرض امام صاحب نے کوئی ایسی گالی نہ چھوڑیں جو انھوں نے ان لوگوں کو نہ دی ھو جو نئے نئے شیعہ ھوئے تھے ۔
ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جس نے شیعہ مذھب قبول کرلیا تھا ،ایک دن میرے پاس آیا اور بڑے رنج وافسوس کے ساتھ امام صاحب کی باتیں میرے سامنے دھرائیں ۔میں نے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم دیں اور اس سے کھا کہ امام صاحب کو جاکر بتاؤ کہ جمع بین الصلاتین درست ہے اور سنت نبوی ہے میں نے اس نوجوان سے کھا کہ میں امام صاحب کے پاس جاؤں گا نھیں ، کیونکہ میں ان سےجھگڑنا نھیں چاھتا ، ایک دن میں نے ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ سنجیدہ بحث کرنی چاھی تھی مگر وہ گالیوں پر اتر آئے اور غلط سلط الزامات لگانے لگے ۔ اس گفتگو میں اھم بات یہ تھی کہ میرے اس دوست نے ابھی تک ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی ترک نھیں کی تھی ۔ جب نماز کے بعد امام صاحب حسب معمول درس کے لیے بیٹھے ،میرے دوست نے بڑھ کر ان سے جمع بین الصلاتین کے متعلق سوال کیا ۔
امام صاحب نے کھا :یہ شیعوں کی نکالی ھوئی بدعت ہے !
میرے دوست نےکھا: لیکن یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ثابت ہے ۔
امام صاحب جھٹ سے بولے : بالکل غلط ۔میرے دوست نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم نکال کر انھیں دیں۔ انھوں نے باب الجمع بین الصلاتین پڑھا ۔ میرا دوست کھتا ہے کہ جب انھیں ان نمازیوں کے سامنےجو ان کا درس سنا کرتے تھے حقیقت معلوم ھوئی تو وہ چکرائے اور انھوں نے کتابیں بند کرکے مجھےواپس کردیں اورکھنے لگے کہ "یہ رسول اللہ (ص) کی خصوصیت تھی جب تم رسول اللہ (ص) کے درجے پر پھنچ جاؤگے اس وقت اس طرح نماز پڑھنا " ۔ میرا دوست سمجھ گیا یہ جاھل متعصب شخص ہے اور اس دن سے میرے دوست نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑدی ۔
قارئین کرام! دیکھیے تعصب کیسے آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے ، پھر حق سجھائی نھیں دیتا۔ ھمارے یھاں ایک کھاوت ہے کہ "عنزۃ ولو طارت" تھی تو بکری ھی ،اڑگئی تو کیا ھوا ۔(7)
میں نے اپنے دوست سے کھا کہ تم امام صاحب کے پاس ایک دفعہ پھر جاکر انھیں بتلاؤ کہ ابن عباس اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح انس مالک اور دوسرے صحابہ بھی پڑھتے تھے، تو پھر اس میں رسول اللہ (ص) کی کیا خصوصیت ھوئی ؟
لیکن میرے دوست نے یہ کھہ کر معذرت کرلی کہ اس کی ضرورت نھیں ، امام صاحب کبھی نھیں مانیں گے خواہ رسو ل اللہ (ص )خود ھی کیوں نہ آجائیں ۔
رسول اللہ (ص) کا آنا توخیر ناممکن بات ہے مگر اس سے اس تلخ حقیقت کا اظھار ھوتا ہے جس کو اللہ عزوجل نے سورہ روم میں اس طرح بیان کیا ہے ۔
" فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ () وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ"
آپ مردوں کو نھیں سنا سکتے اور نہ بھروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جارھے ھوں ۔ اور آپ اندھوں کو گمراھی سے نھیں نکال سکتے ۔ آپ صرف ان کو سنا سکتے ہیں جوھماری نشانیوں پر ایمان لائے ھوں اور انھیں مانتے ھوں ۔(سورہ روم ۔آیت52- 53)
الحمد اللہ کہ بھت سے نوجوان جمع بین الصلاتین کی حقیقت سے واقف ھو نےکے بعد دوبارہ نماز پڑھنے لگے ، نھیں تو وہ نماز ھی چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ وہ وقت پر تو نماز پڑھ نھیں سکتے تھے ۔ رات کو چار وقت کی اکٹھی نماز پڑھتے بھی تھے تو دل کو اطمینان نھیں ھوتا تھا ۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ جمع بین الصلاتین میں کیا حکمت ہے ۔ جمع بین الصلاتین کی صورت میں سب ملازمت پیشہ ،طلبہ اور عوام نماز وقت پر ادا کرسکتے ہیں اور ان کا دل مطمئن رھتا ہے ۔ رسول اللہ (ص) کے ارشاد کا مطلب کہ "کی لا اٌحرج اُمّتی "(میں اپنی امت کو ضیق میں نہ ڈالوں )ان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔
حوالہ جات:
۱۔ أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ "(سورہ بنی اسرائیل ۔آیت 78)۔
۲۔ امام احمد بن حنبل مسند جلد 1 صفحہ 221۔
۳۔ امام مالک موطاء ،شرح الحوالک جلد 1 صفحہ 160۔
۴۔ صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 151۔152 باب الجمع بین الصلاتین۔
۵۔ صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 140 باب وقت المغرب۔
۶۔ صحیح بخاری جلد1 صفحہ باب وقت العصر۔
۷۔ کھتے ہیں ،دوآدمی شکار کے لیے نکلے ۔دورسے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی ۔ ایک نے کھا کہ یہ کوا ہے ۔ دوسرے نے کھا : نھیں بکری ہے ۔دونوں اپنی ضد پر اڑے رھے ۔ قریب پھنچے تو کوا پھڑا پھڑا کر اڑ گیا ۔ پھلے شخص نےکھا : دیکھا میں نھیں کھتاتھا کہ کوا ہے ، اب مان گئے ؟ لیکن اس کا دوست پھر بھی نہ مانا ۔کھنے لگا :"بھائی ! تھی تو بکری ھی ،مگر اڑنے والی بکری تھی ۔"
مؤلف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی
 

Add comment


Security code
Refresh