www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سوال کی وضاحت:علی بن جعفر{ع} سے نماز میں سلام کی کیفیت کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ: میں نے اپنے بھائی ( امام موسی کاظم علیہ السلام) ،

 اسحاق اور محمد ( امام صادق علیہ السلام کے فرزندوں) کو دیکھاکہ وہ نماز میں، سلام کھتے وقت دائیں اور بائیں کی طرف رخ کرکے کھتے ہیں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ علامہ مجلسی (رہ)نے اس حدیث کی سند کو صحیح کھا ہے، مھر بانی کرکے اس حدیث کے صحیح ھونے اور سند کے بارے میں آگاہ فرمائیے؟
اجمالی جواب:مذکورہ روایت، سند کے لحاظ سے صحیح ہے- یہ روایت نماز کے سلام کے بارے میں ہے کہ فقھی منابع میں اس پر بحث و تحقیق ھوئی ہے-
اس روایت اور اس قسم کی دوسری روایتوں کی بنا پر، نماز کے اختتامی سلام پر دائیں اور بائیں دیکھنا مستحب ہے۔اسی طرح اکثر فقھاء کی نظر کے مطابق صرف" السلام علیکم" کھنا کافی ہے اور نماز گزار پر واجب نھیں ہے کہ اس کے بعد " ورحمتہ اللہ و بر کاتہ" بھی پڑھے-
تفصیلی جوابات:مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے-(۱) اس روایت کے بارے میں فقھی منابع میں بحث و تحقیق کی گئی ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
الف۔ دائیں اور بائیں طرف دیکھنا مستحب ہے۔:
اس روایت اور اس قسم کی دوسری روایتوں(۲) کی بناء پر، فرادا نماز پڑھنے والے شخص اور امام جماعت کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے آخری سلام " السلام علیکم ورحمتہ اللہ " پھیرتے وقت اپنی آنکھوں کی انتھاء یا ناک سے اپنے دائیں طرف اشارہ کرے، اس طرح کہ قبلہ کی طرف سے اپنے رخ کو موڑ لے- اس کے علاوہ مامون ( جو با جماعت نماز پڑھتا ہے) کے لئے مستحب ہے کہ اگر اس کے بائیں جانب کوئی نہ ھو، اور اگر اس کے دونوں طرف مامومین ھوں، " السلام علیکم" کو دھرائے اور بائیں جانب اشارہ کرے-(۳)
اس بناء پر، مذکورہ روایت، اس حکم کے لئے ایک استنباط ہے-
ب۔ اختتامی سلام کی عبارت:
شیعہ فقھاء کے نظریہ کے مطابق نماز کے سلام کے لئے دو عبارتیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔"السَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلَی عِبَادِ اللّه الصَّالِحین"
۲۔"السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکَاتُه"
لیکن "السَّلَامُ عَلَیْکَ أیُّهَا النَّبی وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکَاتُهُ" تشھد کا حصہ ہے اور نماز کے سلام کے خصوصی جملات میں شامل نھیں ہے-(۴)
دوسرے سلام، یعنی " السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکا تہ" کے بارے میں فقھاء نے کچھ مباحث کئے ہیں، کہ سوال میں بیان کی گئی حدیث کا اس میں مداخلت ہے۔ ان مباحث میں سے ایک بحث یہ ہے کہ کیا مذکورہ حدیث پر استناد کرکے " السلام علیکم و رحمتہ اللہ" کو " وبرکاتہ" کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے یا یہ کہ نماز گزار کو " وبرکاتہ" کی عبارت کو بھی پڑھنا چاھئیے؟ اس سلسلہ میں فقھا ءنے اپنے نظریات بیان کئے ہیں کہ ذیل میں ان کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:
۱-بعید نھیں ہے کہ تقیہ کی وجہ سے عبارت" وبرکاتہ" ذکر نہ کی گئی ھو، کیونکہ اھل سنت سلام میں اس عبارت کو نھیں پڑھتے ہیں، جبکہ شیعوں کے نزدیک اگر" ورحمتہ اللہ" کھا گیا تو مستحب ہے اس کے بعد " وبرکاتہ" بھی کھیں۔(۵)جس طرح معراج میں جب پیغمبر اکرم (ص) سے حکم ھوا کہ سلام کھیں، آنحضرت (ص) نے فرمایا" السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ"(۶)بعض فقھا ءنے " وبرکاتہ"کو معراج کی حدیث کے اس حصہ سے استناد کیا ہے۔(۷)
۲-اس روایت کے پیش نظر اکثر فقھاء نے کءا ہے کہ صرف" السلام علیکم" کءنا بھی کافی ہے اور نماز گزار پر واجب نھیں ہے کہ اس کے بعد " ورحمتہ اللہ و برکاتہ" بھی کھے۔(۸)
حوالہ جات:
۱۔علامه حلّى، حسن بن یوسف، منتهى المطلب فی تحقیق المذهب، ج ۵، ص ۲۰۳، مجمع البحوث الإسلامیة، مشهد، چاپ اول، ۱۴۱۲ق؛ اردبیلى، احمد بن محمد، مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، ج ۲، ص ۲۸۷، دفتر انتشارات اسلامى، قم، چاپ اول، ۱۴۰۳ق؛ نراقى، مولى احمد بن محمد مهدى، مستند الشیعة فی أحکام الشریعة، ج ۵، ص ۳۵۳، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
۲۔ ملا حظہ ھو: فیض کاشانى، محمد محسن، الوافی، محقق و مصحح: حسینى اصفهانى، ضیاء الدین، ج ۸، ص ۷۷۹ ۔ ۷۸۲، ‌کتابخانه امام امیر المؤمنین علی علیه السلام، اصفهان، طبع اول، ۱۴۰۶ھ ؛ حرّ عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، ج ۶، ص ۴۱۹۔ ۴۲۳، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم، طبع اول، ۱۴۰۹ھ ؛ طباطبایى حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقى، ج ۶، ص ۴۷۷ ۔ ۴۷۹، مؤسسة دار التفسیر، قم، طبع اول، ۱۴۱۶ھ .
۳۔عنوان:"چرخاندن سر بعد از نماز به سمت راست و چپ"؛ سؤال ۲۱۶۰۳؛شیخ بهایی، محمد بن حسین، ساوجى، نظام بن حسین، جامع عباسى و تکمیل آن (محشّی)، ص ۱۵۴ و ۱۵۵، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع اول، ۱۴۲۹ق؛طباطبایى یزدى، سید محمد کاظم، العروة الوثقى مع التعلیقات، ج ۱، ص ۵۸۹، انتشارات مدرسه امام على بن ابى طالب علیه السلام، قم، چاپ اول، ۱۴۲۸ق؛ بهجت، محمد تقى، جامع المسائل، ج ۱، ص ۴۰۳، دفتر معظم‌له، قم، طبع دوم، ۱۴۲۶ھ.
۴۔علامه حلّى، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیة على مذهب الإمامیة، محقق و مصحح: بهادرى، ابراهیم، ج ۱، ص ۲۶۰، مؤسسه امام صادق علیه السلام، قم، طبع اول، ۱۴۲۰ھ ؛ العروة الوثقى مع التعلیقات، ج ۱، ص ۵۸۸؛ امام خمینى، تحریر الوسیلة، ج ۱، ص ۱۸۱، مؤسسه مطبوعات دار العلم، قم، طبع اول، ؛ امام خمینى، توضیح المسائل (محشّی)، ج ۱، ص ۵۹۸ و ۵۹۹، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع هشتم، ۱۴۲۴ھ .
۵۔ مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، ج ۲، ص ۲۸۷؛ حسینی عاملى، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامة فی شرح قواعد العلاّمة، محقق و مصحح: خالصى، محمد باقر، ج ۷، ص ۵۴۴، ‌دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع اول، ۱۴۱۹ھ ؛ ملاحظہ ھو: توضیح المسائل (محشّی)، ج ۱، ص ۵۹۸ و ۵۹۹.
۶۔ وسائل الشیعة، ج ۵، ص ۴۶۸.
۷۔ طباطبایى بروجردى، آقا حسین، نهایة التقریر، مقرر: فاضل لنکرانى، محمد، ج ۲، ص ۳۳۰، بی نا، قم، بی تا؛ اشتهاردى، على پناه، مدارک العروة، ج ۱۵، ص ۵۵۳، دار الأسوة للطباعة و النشر، تهران، طبع اول، ۱۴۱۷ھ .
۸۔ مستند الشیعة فی أحکام الشریعة، ج ۵، ص ۳۵۲ و ۳۵۳؛ نجفى (صاحب الجواهر)، محمد حسن، مجمع الرسائل (محشّی)، ص ۲۹۱، مؤسسه صاحب الزمان علیه السلام، مشهد، طبع اول، ۱۴۱۵ھ ؛ نهایة التقریر، ج ۲، ص ۳۲۹ و ۳۳۰؛ تحریرالوسیله۔                                                    

Add comment


Security code
Refresh