www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے اور محققین اس حدیث کو بھت زیادہ اھمیت دیتے ہیں۔

 لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیں؛ وہ کبھی تو اس حدیث کی سند کو زیر سوال لاتے ہیں اور کبھی سند کو قابل قبول مانتے ھوئے، اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں!
چنانچہ ...اس حدیث کی حقیقت کو ظاھرکرنے کے لئے ضروری ہے کہ سند اور دلالت دونوں کے ھی بارے میں معتبر حوالوں کے ذریعہ بات کی جائے۔
غدیر خم کا منظر :
۱۰ ھجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ھوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حج کےاعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ھوئے، قافلہ کو کوچ کا حکم دیا۔
جب یہ قافلہ جحفہ(۱) سے تین میل کے فاصلے پر رابغ (۲) نامی سرزمین پر پھنچا تو غدیر خم کے مقام پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ھوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس آیت کے ذریعے خطاب کیا :"یا ایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس" (۳) اے رسول! اس پیغام کو پھنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ھو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نھیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
آیت کے انداز سے معلوم ھوتا ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ھوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصایت و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟
لھذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا، جو لوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے۔ ظھرکا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پر تھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ھوئے تھے۔
پیغمبر (ص) کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے کجا‎ؤں سے بنے ھوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ھو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :
حمد و ثناءاللہ کی ذات سے مخصوص ہے۔ ھم اسی پر ایمان رکھتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاھتے ہیں۔ ھم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ھادی و راھنما نھیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراھی کی طرف راھنمائی کی وہ اس کے لئے نھیں تھی۔ میں گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نھیں ہے،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ھاں اے لوگو! وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کھتا ھوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا! تم بھی جواب دہ ھو اور میں بھی جواب دہ ھوں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کی ہے؟
یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: ھم گواھی دیتے ہیں کہ آپ نے بھت زحمتیں اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ؛اللہ آپ کو اس کا بھترین اجر دے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم گواھی دیتے ھو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے؟ اور جنت و جھنم وآخرت کی ابدی زندگی میں کوئی شک نھیں ہے؟
سب نے کھا کہ صحیح ہے ھم گواھی دیتے ہیں۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اھم چیزیں چھوڑ ے جا رھا ھوں، میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو؟
اس وقت ایک شخص کھڑا ھوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اھم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ھاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اھلبیت ہیں، اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ھرگز ایک دوسرے جدا نہ ھوں گے۔
ھاں اے لوگو! قرآن اور میری عترت سے سبقت نہ لینا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاھی نہ کرنا، ورنہ ھلاک ھو جاؤ گے۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) کو سب لوگوں سے متعارف کرایا۔
اس کے بعد فرمایا: کون ہے جو مؤمنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ؟
سب نے کھا: اللہ اور اس کا رسول بھتر جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مؤمنین کا مولا ھوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ھوں۔
ھاں اے لوگو!" من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار" ۔
جس جس کا میں مولیٰ ھوں اس اس کے یہ علی (ع) مولا ہیں، (۴) اے اللہ تو اس کو دوست رکھ جو علی (ع) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی (ع) کو دشمن رکھے، اس سے محبت کر جو علی (ع) سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ھو جو علی (ع) پر غضبناک ھو، اس کی مدد کرجو علی (ع) کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی (ع) کو رسوا کر ے اور حق کو اسی موڑ دے جدھر علی (ع) مڑتے ہیں "(۵)
اوپر لکھے خطبہ (۶)کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیں موجو د ہیں ۔
حدیث غدیر کی ابدیت:
اللہ کا حکیمانہ ارادہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ھر زمانے میں باقی رھے اور لوگوں کے دل اس کی طرف جذب ھوتے رھیں۔ اسلامی قلمکار ھر زمانے میں تفسیر، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اس کے بارے میں لکھتے رھیں اور مذھبی خطیب، اس کو وعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رھیں۔ اور فقط خطیب ھی نھیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق، تخیل اور اخلاص کے ذریعے اس واقعے کی عظمت کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف انداز سے بھترین اشعار کھہ کر اپنی یادگار چھوڑیں (مرحوم علامہ امینی نے مختلف صدیوں میں غدیر کے سلسلے میں کھے گئے اھم اشعار کو شاعر کی زندگی کے حالات کے ساتھ معروف ترین اسلامی منابع سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو کہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے، بیان کیا ہے)۔
بالفاظ دیگر دنیا میں بھت کم ایسے تاریخی واقعات ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفیوں، خطیبوں، شاعروں، مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھوں۔
اس حدیث کے جاودانی ھونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعے سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجودہیں (۷)لھذا جب تک قرآن باقی رھے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رھے گا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن ابدی حقیقت ہے اور یہ حقیقت ابد تک باقی رھے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ھوتا ہے کہ اٹھارھویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشھور تھی یھاں تک کہ ابن خلکان، المستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ہے کہ ۴۸۷ ھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے، لوگوں نے اس کی بیعت کی (۸) اور المستنصر باللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ۴۸۷ ھ میں جب ذی الحجہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیں تو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارھویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ (9)
اس سے بھی زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عیدغدیر کو ان عیدوں میں شمار کیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھے اور اھتمام کرتے تھے ۔(۱۰)
صرف ابن خلکان اور ابوریحان بیرونی نے ھی اس دن کو عید کا دن نھیں کھا ہے، بلکہ اھل سنت کے مشھور معروف عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشھور شبوں میں شمار کیا ہے (۱۱) اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ھی رکھی جا چکی تھی، کیونکہ آپ نے اس دن تمام مھاجر، انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاکر آپ (ع) کو امامت و ولایت کے سلسلہ میں مبارکباد دیں۔
زید ابن ارقم کھتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ و زبیر مھاجرین میں سے وہ پھلے افراد تھے جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد دی۔ بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رھا۔
راویان حدیث :
اس تاریخی واقعے کی اھمیت کے لئے اتنا ھی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ (۱۲) البتہ اس جملے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف ان ھی اصحاب نے اس واقعے کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اھل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھی ایک سو دس افرادکا ذکر ملتا ہے۔
دوسر صدی، جس کو تابعین کا دور کھا گیا ہے، میں ۸۹ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعد کی صدیوں میں بھی اھل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور علماء اھل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
اس گروہ نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ھی اکتفاء نھیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔
عجیب بات تویہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے " الولایة فی طرقِ حدیث الغدیر" نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طُرُق سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا۔ ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵افراد سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشھور ہیں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے۔
اھل سنت کےمشھور علماء اور حدیث غدیر :
احمد بن حنبل شیبانی، ابن حجر عسقلانی، جزریشافعی، ابوسعید سجستانی، امیر محمد یمنی، نسائی، ابوالعلاء الحسن بن احمد الھمدانی، اور ابوالعرفان حبان نے اس حدیث کو بھت سی سندوں (۱۳) کے ساتھ نقل کیا ہے۔
شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعے کے بارے میں بھت سی اھم کتابیں لکھی ہیں اور اھل سنت کی مشھور کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔
ان میں سے جامع ترین کتاب " الغدیر" ہے،جو عالم اسلام کے مشھور مؤلف مرحوم علامہ امینی کے قلم کا شاھکار ہے۔ (اس کتابچے کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بھت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے) بھرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا:" اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ھوئے "الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً" (۱۴)
آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو بھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےتکبیر کھی اور فرمایا: اللہ کاشکر ادا کرتا ھوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ھوا۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ:" جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں آپ کی بیعت کرتے ھوئے مبارکبادپیش کریں۔
سب سے پھلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا۔ حسان بن ثابت نے موقع سےفائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کھہ کر پڑھا،یھاں پر اس قصیدے کے صرف دو اھم اشعا ر بیان کر رھے ہیں:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ہادیاً
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
(رسول اللہ (ص) نے) علی علیہ السلام سے فرمایا :" اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راھنمائی کے لئے منتخب کرلیا۔
جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کے علی مولا ہیں۔
تم،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ھو، بس ان کی پیروی کرو۔(۱۵)
یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پر فضیلت اور برتری کی بھی سب سے بڑی دلیل ہے۔
یھاں تک کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جوکہ دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد منعقد ھوئی) (۱۶) اور عثمان کی خلافت کے زمانے میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج و استناد کیا۔ (۱۷)
اس کے علاوہ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوں کے سامنے، اسی حدیث سے استدلال کیا۔
مولیٰ سے کیا مراد ہے؟
یھاں پر سب سے اھم مسئلہ مولیٰ کے معنی کی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواھی کا نشانہ بنی ھوئی ہے کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کی سندکے قطعی ھونے میں کوئی شک و تردید باقی نھیں رہ جاتی، لھذا بھانہ تراشنے والے افراد اس حدیث کے معنی و مفھوم میں شک و تردید پیدا کرنے میں لگ گئے، خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں، مگر اس میں بھی کامیاب نہ ھوسکے۔
صراحت کے ساتھ کھا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثرمقامات پر ایک سے زیادہ معنی نھیں دیتا اور وہ "اولویت اور شائستگی" ہے دوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی "سرپرستی" ہے قرآن میں بھت سی آیات میں لفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں استعمال ھواہے۔
قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ھوا ہے جن میں سے دس مقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ھوا ہے۔ ظاھر ہے کہ اللہ کی مولائیت اس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے۔
لفظ مولیٰ بھت کم مقامات پردوست کے معنی میں استعمال ھوا ہے۔ اس بنیادپر مولیٰ کے معنی میں درجہٴ اول میں اولیٰ، ھونے میں کوئی شک و تردید نھیں کرنی چاھئے۔
حدیث غدیر میں بھی لفظ مولا اولویت کے معنی میں ھی استعمال ھوا ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ بھت سے ایسے قرائن و شواھد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یھاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ھی ہے۔
اس دعوے کے دلائل: فرض کرو کہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بھت سے معنی ہیں، لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعے و حدیث غدیر کے بارے میں بھت سے ایسے قرائن و شواھد موجود ہیں جو ھر طرح کے شک وشبھات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں۔
پھلی دلیل :
جیسا کہ ھم نے عرض کیا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعے کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا۔ اس فصیح و بلیغ اور عربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام و ھادی استعمال کیا اور کھا:"فقال لہ قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماما ًوھادیاً " یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سےفرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وھادی بنا کر منتخب کرلیا ہے۔
اس شعر سے ظاھر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کو امامت، پیشوائی، ھدایت اور امت کی رھبری کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نھیں کیا ہے۔ اور یہ شاعر عرب کے فصیح و اھل لغت افراد میں شمار ھوتا ہے اور صرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ھی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نھیں کیا بلکہ ان کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے ـ جو عرب کے مشھور شعراء و ادباء تھے اور عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے ـ انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وھی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت۔
دوسری دلیل :
حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایا کہ "و اوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم"یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیر کے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا۔ امام سے بھتر کون شخص ہے، جو ھمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے؟ اور بتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیا ہے؟کیا یہ تفسیر یہ نھیں بتا رھی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرا معنی نھیں سمجھا؟
تیسری دلیل :
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "من کنت مولاہ" کھنے سے پھلے یہ سوال کیا کہ "الست اولیٰ بکم من انفسکم؟" کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نھیں رکھتا ھوں؟ پیغمبر کے اس سوال میں لفظ" اولیٰ بنفس" کا استعمال ھوا ہے۔
پھلے سب لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا: "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" " یعنی جس جسکا میں مولا ھوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کو ملانے کا ھدف کیا ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ھدف ھوسکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وھی علی علیہ السلام کے لئےبھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام؛ نتیجے میں حدیث غدیر کے یہ معنی ھو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے۔
اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ھدف ھوتا، تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لینے کی ضرورت نھیں تھی۔ یہ انصاف سے کتنی دور ھوئی بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظرانداز کر دے اور تمام قرائن کی روشنی سے آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
چوتھی دلیل :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصولوں کا اقرار کرایا اور فرمایا "الستم تشھدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمداً عبدہ و رسو لہ و ان الجنة حق والنار حق؟" یعنی کیا تم گواھی نھیں دیتے ھو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نھیں ہے اور محمد اس کے عبد و رسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟ یہ سب اقرار کرانے سے کیا ھدف تھا ؟ کیا اس کے علاوہ کوئی دوسرا ھدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاھتے تھے، اس کے لئے لوگوں کے ذھن کو آمادہ کر رھے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصولوں کی مانند ہے، جن کے سب معتقد ہیں؟ اگر مولا سے دوست یا مددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ھو جائے گا اور کلام کی کوئی اھمیت نھیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نھیں ہے ؟
پانچویں دلیل :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کےشروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :" انی اوشک ان ادعیٰفاجیب"یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کھوں یہ جملہ اس بات کاعکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاھتے ہیں، تاکہ رحلت کے بعد پیدا ھونے والا خلا پر ھو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ھو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھال لے۔ اس کےعلاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نھیں آتی۔ جب بھی ھم ولایت کی تفسیر خلافت کےعلاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوں میں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اورکیا قرینہ ھو سکتا ہے۔
چھٹی دلیل :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "من کنت مولاہ" جملے کے بعد فرمایا کہ : "اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین و اتمام النعمۃ و رضی ربی برسالتی و الولایة لعلی من بعدی" الله اکبر، اکمال دین پر، اتمام نعمت پر اور میری رسالت سے اللہ کی رضا اور علی علیہ السلام کے لئے ولایت پر میرے پروردگار کی خوشنودی پر؛ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی، مودت اور مدد سے دین کس طرح کامل ھوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ھوگئیں؟ سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کھتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ھو گیا کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نھیں ہے؟
ساتویں دلیل :
اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ھو سکتی ہے کہ شیخین (ابوبکر وعمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رھا۔
شیخین وہ پھلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی "ھنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای و مولیٰ کل مؤمن و مؤمنة" یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ھو کہ صبح و شام میرے اور ھر مؤمن مرد و عورت کے مولا ھوگئے۔
سوال یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے؟ کیا مقام خلافت، زعامت اور امت کی رھبری، ـ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نھیں ھوا تھا ـ اس مبارکبادی کی وجہ نھیں تھی؟ محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نھیں تھی۔
آٹھویں دلیل :
اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تو یہ ضروری نھیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔
ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلے کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ھوئے پتھروں پر لوگوں کو بیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا۔
کیا قرآن نے تمام مؤمنین کو ایک دوسرےکا بھائی نھیں کھا ہے؟ جیسا کہ ارشاد ھوتا ہے "انما المؤمنون اخوة" مؤمنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں؟
کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مؤمنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نھیں پھچنوایا ہے؟ جبکہ علی علیہ السلام بھی اسی مؤمن معاشرے کے ایک فرد تھے۔
لھذا کیا ان کی دوستی کے اعلان کی الگ سے کیا ضرورت تھی؟ اوراگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ھی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔
یقیناً کوئی بھت اھم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی، کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پھلے دیکھے گئے اور نہ ھی اس واقعہ کے بعد نظر آئے۔
اب آپ فیصلہ کریں: اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نھیں تھی تو کیا یہ تعجب والی بات نھیں ہے؟!
وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریں گے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یقیناً اگرتمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی و صحیح نتیجوں پر پھنچیں گے اور یہ کام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں آپسی اتحاد میں اضافے کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی معاشرہ ایک نئی شکل اختیارکر لے گا۔
تین پر معنی حدیثیں:
اس مقالے کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔
الف: حق کس کے ساتھ ہے؟
زوجات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام سلمیٰ اور عائشہ کھتی ہیں کہ ھم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: "علی مع الحق و الحق مع علی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض"
علی (ع) حق کے ساتھ ہیں اورحق علی (ع) کے ساتھ ہے، اور یہ ھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوسکتے جب تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس نہ پھونچ جائیں۔
یہ حدیث اھل سنت کی بھت سی مشھور کتابوں میں موجود ہے۔ علامہ امینی نے ان کتابوں کا ذکر الغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے۔
اھل سنت کے مشھور مفسر قران، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ " حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ھدایت یافتہ ہے۔ اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:"اللھم ادر الحق مع علی حیث دار" اے اللہ حق کو ادھر ھی موڑ دے جدھر علی مڑیں۔
قابل توجہ ہے یہ حدیث جو یہ کھہ رھی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے۔
ب: میثاق اخوت (مواخات):
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے ایک مشھور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کیا ہے :" آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بین ابی بکر و عمر، و فلان و فلان، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بین اصحابک و لم تواخ بینی و بین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انت اخی فی الدنیا والآخرة"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا، ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا اور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ اسی وقت حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے اورعرض کی آپ نے سب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نھیں بنایا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "آپ دنیا وآخرت میں میرے بھائی ہیں"۔
اسی سے ملتا جلتا مضمون اھل سنت کی کتابوں میں ۴۹ جگھوں پر ذکر ھوا ہے۔ کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بھائی کا رشتہ اس بات کی دلیل نھیں ہے کہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟
کیا افضل ھوتے ھوئے مفضول کے پاس جانا چاھئے؟
ج: نجات کا تنھا ذریعہ:
ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کر کھا کہ جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ھی ہے اور جو نھیں جانتا وہ جان لے کہ میں ابوذر ھوں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا : "مثل اھل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح، من رکبھا نجیٰ و من تخلف عنھا غرق" یعنی تمھارے درمیان میرے اھلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے، جو اس پر سوار ھوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ھلاک ھوا۔
جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا، اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نھیں تھا۔ یھاں تک کہ وہ اونچا پھاڑ بھی،جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ھواتھا نجات نہ دے سکا۔
کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق، آپ (ص) کے بعد اھل بیت علیھم السلام کے دامن سے وابستہ ھونے کے سوا نجات کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟
حوالہ جات:
۱۔ یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاںسے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔
۲۔ رابغ اب بھی مکہ اورمدینہ کے بیچ میں واقع ہے۔
۳۔ سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷۔
۴۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کھا تاکہ بعد میں کوئی مغالطہ نہ ھو۔
۵۔ یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پھلا حصہ یافقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶( ب) تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷، ۲۰۸، ۴۴۸ ( ج)خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ ( د)المجملکبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ ( ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳۲ص/ ۱۳۵ ( ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ ( ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱( ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴،اور دیگر کتب۔
۶۔ اس خطبہ کو اھل سنت کے بھت سے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکرکیا ہے۔ جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱، ص/ ۸۴، ۸۸، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۵۲، ۳۳۲، ۲۸۱، ۳۳۱،اور۳۷۰( ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱،ص/ ۵۵، ۵۸ ( ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوریج/ ۳ ص/ ۱۱۸، ۶۱۳( ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳( د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ ( ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ ( و) تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴،اوردیگر کتب۔
۷۔ سورہ مائدہ آیہ/ ۳، ۶۷
۸۔ وفایة الآیان ۶۰/۱
۹۔ وفایة الآیان ج/ ۲ ص/ ۲۲۳
۱۰۔ ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵،الغدیر/ ۱،ص/ ۲۶۷
۱۱۔ ثمار القبول اعیان/ ۱۱
۱۲۔ عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہلسنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶،ص/ ۱۰۴ ( ب) البدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ ( ج)الفصولالمہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ ( د)فرائد السمطین،ج/ ۱،/ ۷۱،اسی طرح ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ و زبیرکی مبارکبادی کا ماجرا بھی بہت سی دوسر ی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسےمناقب علی بن ابی طالب،تالیف :احمدبن محمد طبری،الغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰
۱۳۔ اس اھم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے۔
۱۴۔ سندوں کا یہ مجموعہ الغدیرکی پھلی جلد میں موجود ہے جو اھل سنت کی مشھور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے۔
۱۵۔ سورہٴ مائدہ آیہ/ ۳۔
۱۶۔ حسان کے اشعار بھت سی کتابوں میں نقل ھوئےہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی،ص/ ۱۳۵،مقتل الحسین خوارزمی،ج/ ۱،ص/ ۴۷،فرائد السمطین ج/ ۱،ص/ ۷۳ و ۷۴،النور المشتعل،ص/ ۵۶،المناقب کوثر ج/ ۱،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲۔
۱۷۔ یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں" مناشدہ "کھا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ھوا ہے : مناقب اخطب خوارزمی حنفی ص/ ۲۱۷،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸،الدر النظیم ابن حاتم شامی،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲، شرح نھج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳،ص/ ۳۵،تفسیر طبری ج/ ۳ ص/ ۴۱۸،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت۔
 

Add comment


Security code
Refresh