www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پیغمبران الٰھی خدا کی جانب سے لوگوں کی ھدایت کے لئے آئے تھے ۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص)نے بھی خدا کی جانب سے سپرد کی گئی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔

 یعنی خدا کے دین کو لوگوں تک پھونچایا تھا ۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ انکے اوپر ایمان لائے اور مسلمان ھوئے لیکن ایک گروہ انکا دشمن بھی تھا ۔ جسمیں ایک طرف واضح اور ظاھری دشمن کی شکل میں کفار اور مشرکین تھے اور دوسری طرف منافقین تھے جو اپنے چھروں پر دوستی کی نقاب ڈالے ھوئے تھے ۔ ان لوگوں نے ھمیشہ رسول اکرم (ص)کے ساتھ مخالفت اور دشمنی کی ۔ رسول خدا(ص) نے خدا کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی جانب ھجرت کی اور مومنین کی مدد اور ھمراھی سے ”دینی سماج “ اور اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی تاکہ خدا کے دین کی بھتر طور پر تبلیغ کر سکیں ،اسکو پھیلا سکیں اور سماج میں رواج دے سکیں ۔ ساتھ ھی ساتھ ایک پلیٹ فارم پر آکر دشمنوں کے ساتھ جنگ کر سکیں اور دین کے خلاف غلط افواہ پھیلانے والوں کو ذلیل کر سکیں ۔ ہر سماج کو ھمیشہ سے رھبری کی ضرورت رھی ھے اور لوگوں نے اسکو تسلیم بھی کیا ھے کیونکہ رھبری کے بغیر کوئی بھی کام پایہٴ تکمیل تک نھیں پھونچ سکتا نیز مختلف پریشانیاں بھی پیش آتی ھیں۔
اس کے علاوہ چونکہ حضرت محمد مصطفیٰ(ص) پیغمبر تھے ، خدا کی طرف سے لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجے گئے تھے اس لئے حکومت اور اجتماعی مسائل(SOCIAL PROBLEMS) میں لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ انکی پیروی کریں اور چونکہ آپ لوگوں کے رھبر اور پیشوا بھی تھے ،اس لئے لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ ھر قسم کے اختلافات کے حل کے لئے اپنے رھبر اور حاکم کی باتوں کو مانیں اور انکے حکم کی پیروی کرنا اپنے لئے ھمیشہ لازم سمجھیں ۔ کیا یہ ھو سکتا ھے کوئی شخص لوگوں کا پیشوا ھو اور عادل بھی ھو مگر لوگ اسکی پیروی نہ کریں ؟ یہ یقیناً غیر عقلی بات ھے ۔
خدا نے رسول اکرم(ص) کو لوگوں پر نگرانی کرنے ،سماج کے آپسی جھگڑوں میں فیصلہ کرنے ، جنگ ، صلح وغیرہ کو ختم کرنے یا باقی رکھنے کا حق دیا تھا ۔ یہ ایک رھبر اور پیشوا کے لئے ضروری شرطیں ھیں جو لوگوں کے ھی فائدے کے لئے ھیں ۔ انکی اطاعت کرنا خدا کی اطاعت کرنا ھے ۔ (۱) کیونکہ خدا نے ھی حکم دیا ھے کہ اسکے بھیجے ھوئے پیغمبر(ص) کے حکم کی پیروی کی جائے ۔( رسول کی اطاعت کرو اور خبردار اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ۔ (۲) کیا یہ ھو سکتا ھے کہ کوئی خدا کا حکم تو مانتا ھو مگر اسکے بھیجے ھوئے رسول (ص) کی اطاعت نہ کرتا ھو ؟ اس کا مطلب حکم خدا سے رو گردانی کرنا ھے جس نے بھی ” ولایت خد ا“ کو تسلیم کیا ھے اسکے لئے ضروری ھے کہ وہ احکام خدا کے سامنے بھی تسلیم ھو جائے ۔ جن حقوق اور اختیارات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے خدا نے وہ اختیارات مسلمانوں کی فکری اور عملی ھدایت، سماج کو چلانے اور لوگوں کے آپسی جھگڑوں کو تصفیہ کرنے کے لئے اپنے رسول(ص) کو عطا کئے تھے اور پیغمبر(ص) کے لئے بھی اس طرح کے اختیارا ت رکھنا ضروری تھا کیونکہ ان اختیارا ت کے بغیر سماج کو نھیں چلایا جا سکتا اور اسکی راھنمائی(guidance) نھیں کی جا سکتی ھے ۔
یھی وہ چیز ھے جسے ” ولایت “ کھا جاتا ھے یعنی ایسا حق جس میں لوگوں کو حکم دینا ، منع کرنا ، لوگوں کے کاموں کو مصلحت کے تحت اپنے طریقے سے انجام دینا ، مدیریت(management) اور لوگوں کے لئے رھبر کی پیروی کا لازم ھونا جیسے امور شامل ھیں ۔ حالانکہ مسلمان بھی عقل ، ارادہ اور انتخاب کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن پیغمبر (ص)کے حکم اور نظر کو اپنے سے بلند اور بھتر جانتے تھے یھاں تک کہ اپنے ذاتی امورمیں پیغمبر (ص)کے حکم کی پیروی کرنا اپنا وظیفہ سمجھتے تھے ۔ قرآن فرماتا ھے : بیشک نبی تمام مومنین سے انکے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ حق رکھتے ھیں “(۳) مسلمان پیغمبر (ص)کی کسی بات کو رد نھیں کرتے تھے ۔ اگر پیغمبر(ص) کسی چیز کا حکم دیتے تھے یا کسی اختلاف میں کوئی فیصلہ کرتے تھے تو انکا فیصلہ آخری فیصلہ ھوتا تھا ۔ (اس سلسلے میں قرآن فرماتا ھے کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نھیں ھے کہ جب خدا اور رسول کسی امر میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر میں صاحب اختیار بن جائے ۔ (۴) لوگوں کو حق حاصل نھیں تھا کہ انکے فیصلہ کے خلاف عمل کریں اور یھی صحیح معنی میں ” ولایت خدا ، اور ولایت رسول “ کو قبول کرنا ھے جو ایک سچے اور حقیقی مسلمان کی شناخت اور پھچان ھے ۔یہ بھی خدا ھی کا حکم تھا کہ جس مسئلہ میں اختلاف یا نزاع ھو اسکے فیصلہ کو پیغمبر(ص) کے حوالے کر دیا جائے اور انکی رائے اور فیصلہ کو قبول کیا جائے ۔ خدا فرماتا ھے : ” اگرآپس میں کسی بات میں اختلا ف ھو جائے ، تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو “(۵)خدا ایک مقام پر فرماتا ھے : پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ھر گزصاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلاف میں حکم(judge) نہ بنالیں پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کااحساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں ۔ (۶)
اگر اسکے علاوہ کچھ اور ھوتا تو سماج کی شکل( structure) ھی خراب ھو چکی ھوتی ۔ انسانوں کے ھر گروہ کو اپنے کاموں میں نظم و ضبط اور مدیریت (Administration) کے لئے ایک رھبر اور لیڈر کی ضرورت ھوتی ھے ۔ رھبر کے بغیر سارے امور درھم برھم ھو جاتے ھیں ۔ اگر روز مرہ دستور العمل اور اجتماعی قانون خدا اور اسکے رسول کے احکام اور قوانین کے مطابق ھوں تو پیروی اور اطاعت کرنا بالکل عقلی اور صحیح بات ھے اور انسان کی آزادی کو بھی اس سے کوئی خطرہ نھیں ھے کیونکہ جب سماج کے لوگوں نے ایک رئیس کے احکام اور پروگرام کو تسلیم کیا ھے تو خود بخود اسکی اطاعت اور پیروی کو اپنے لئے لازم قرار دے دیا ھے ۔ اسکی مثال اسی طرح سے ھے جیسے کوئی شخص جب کسی آفس یا کمپنی میں نوکری کرتا ھے تو وھاں کے قوانین اور مینیجر کے حکم کی پیروی اور اطاعت بھی کرتا ھے ۔ یہ اطاعت اور پیروی کرنا اور قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنا ، خود سماج کی سطح فکر کی بلندی اور اسکے آگے بڑھتے رھنے کی نشانی ھے ۔ اب اگر وہ قوانین خدا کے ھوں اور’ ’وحی “ کے ذریعہ ھم تک پھونچے ھوں اور اس کا رھبر خود خدا نے انتخاب کیا ھو تو ان قوانین اور احکام کی پیروی کرنا ، پاکیزگی اور تقدس بھی پیدا کرتا ھے کیونکہ ان قوانین کی اطاعت کرنا بالکل خدا پرستی اور خدا کی اطاعت کرنے جیسا ھے ۔ خدائے واحد کے مقابلہ میں کسی اور کی بندگی اور اطاعت کرنے سے بھتر ھے کہ جس کو خدا نے رسول بنا کر بھیجا ھے اس کی اطاعت کی جائے اور یہ کسی افتخار سے کم نھیں ھے ۔
صدر اسلام میں مومنین رسول خدا(ص) کو اپنا مولیٰ و سر پرست مانتے تھے اور انھوں نے اپنے پورے وجود کو رسول خدا (ص)کے اختیار میں قرار دیے رکھا تھا ۔ مومنین اپنے وجود کو پوری طرح رسول خد ا(ص) کے حوالے کر دیتے تھے ۔ صلح حدیبیہ ، جو پیغمبر اور مشرکین کے درمیان ھوئی تھی ۔ اسکے باوجود کہ اس صلح کے بارے میں کچھ لوگوں کا نظریہ دوسرا تھا اور انکے لئے اس صلح کو قبول کرنا دشوار اور مشکل تھا لیکن یھاں پر بھی مسلمانوں نے رسول خدا(ص) کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم کر دیا تھا ۔ اس طرح اب اگر کوئی پیغمبر کے واضح اور روشن حکم کے خلاف کسی کام کو انجام دے اور انکے حکم کو نظر انداز کرتے ھوئے اپنی رائے اور پسند کے مطابق عمل کرے تو اسکے مسلمان ھونے میں یقینا شک کیا جا سکتا ھے کیونکہ پیغمبر(ص) کے حکم کی اطاعت کرنا ، خدا کے حکم کی پیروی اور اطاعت کرنا ھے ۔ جوخدااوراس کے بھیجے ھوئے رسول کے حکم کی پیروی نہ کرے وہ کس طرح سے خدا پرست اور مسلمان ھونے کا دعویٰ کرسکتا ھے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ھیں ۔ دینی ، اجتماعی ، سیاسی اور حکومتی وغیرہ سارے مسائل میں پیغمبر کے حکم کی پیروی کرنا ، ایک طرف امت اسلامی کی وحدت کا سبب بھی ھے اور دوسری طرف یہ مسلمانوں کی قدرت اور طاقت کو بھی دوسری غیر اسلامی حکومتوں،مخالف گروھوں اور دشمنوں کے سامنے بڑھاتا ھے ۔
مسلمانوں کی یہ وحدت پیغمبر اسلام (ص)کے آخری وقت تک رھی اور لوگوں نے انکی حکومت اور الٰھی رھبری کو بغیرکسی پس و پیش کے قبول کیا اور اسے دین کا جز تسلیم کیا ۔
حوالہ جات:
۱۔ نساء /۸۰۔
۲۔محمد /۳۳۔
۳۔ سورہ احزاب / ۶۔
۴۔سورہ احزاب /۳۶۔
۵۔سورہ نساء /۵۹۔
۶۔سورہ نساء /۶۵۔
 

Add comment


Security code
Refresh