www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

(تحریر فصاحت حسین) "لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین" آپ نے اپنی زندگی میں یہ آیت بھت بار سنی ھوگی ۔ھم میں میں سے بھت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خشک و تر یعنی دنیا کی کوئی ایسی چیز نھیں ہے جو قرآن میں نہ ھو۔

 اس کے بارے میں سب سے پھلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی روایت میں ہے کہ اس آیت میں "کتاب مبین" سے مراد قرآن ہے۔اس سوال کے جواب کے لئے جب ھم قرآن کی تفسیریں دیکھتے ہیں تو ھمیں تفسیر کی کسی کتاب میں کوئی ایسی روایت نھیں ملتی ہے جس میں کھا گیا ھو کہ یھاں کتاب مبین کا مطلب قرآن ہے۔ پھر کتاب مبین کیا ہے۔
معصومین علیھم السلام نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد "لوح محفوظ" ہے ۔ لوح محفوظ بھی آسمان میں لٹکی ھوئی کسی لکڑی یا لوھے کے ٹکڑے کا نام نھیں ہے بلکہ یہ خدا کا علم ہے جس میں دنیا کی ھر چیز موجود ہے اور اس سے کچھ بھی چھپا ھوا نھیں ہے۔ درخت پر اُگنے اور اس سے گرنے والے ھر پتے، بارش کی ھر بوند، سورج ، چاند اور ستاروں کے پھیلائی ھوئی روشنی اور انسانوں کی ھر بات، ھر کام، آنکھوں کے اشاروں، چھروں کےا تار چڑھاؤ اور ان کےدلوں میں چھپے ھوئے ھر ارادے کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔
اگر ھم اس پوری آیت کو پڑھیں تو ھمارے لئے یہ بات بالکل صاف ھوجائے گی۔ یہ سورہ انعام کی ۵۹ ویں آیت ہے جس میں خدا فرما رھا ہے :" اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے -کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے" خدا اپنے علم کو بیان کرتےھوئے فرماتا ہے " زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نھیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ھو" ۔ اس آیت سے ھی معلوم ھوجاتا ہے کہ کتاب مبین سے مراد قرآن نھیں ہے۔
بھت سے لوگ اسی آیت کو بنیاد بنا کر ھر نئی رسرچ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاھے اس کے لئے انھیں قرآن کے معنی ھی کیوں نہ بدلنے پڑے۔ جب ڈارون نے "Theory of evolution" پیش کی تھی اور دنیا میں اس نظریہ کوسو فیصد صحیح سمجھ لیا گیا تھا تو بھت سے لوگوں نے اس نظریہ کو قرآن پر تھوپنے کی کوشش کی تھی اور قرآن نے انسان کی پیدائش کی جو اسٹیج بیان کی ہیں اسے اس نظریہ کے مطابق بتایا تھا۔ تھیوری آف اوولوشن کو بعد میں سائنسدانوں نے غلط ثابت کردیا لیکن اگر غلط ثابت نہ بھی کیا ھوتا تب بھی اسے قرآن سے بھرحال ثابت نھیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ اتنا ھی غلط ہے جتنا "اللہ نور السموات والارض" سے بجلی کی ایجاد ثابت کرنا۔
آیت کی اسی تفسیر کی وجہ سے کسی بچہ نے اپنے ٹیچر سے پوچھا کہ جب قرآن میں سب کچھ ہے تو کمپیوٹر کا ذکر تو ضرور ھوگا کیونکہ کمپیوٹر ساری دنیا پر چھایا ھوا ہے پھر کیسے ھوسکتا ہے کہ یہ قرآن میں نہ ھو تو ٹیچر نے جواب دیا کہ بالکل ہے۔ کمپیوٹر compute سے ہے جس کا مطلب Calculation ہے اور قرآن میں کیلکولیشن کا بھت ذکر ہے۔ خدا نے اپنے بارے میں بھی کھا ہے کہ اس سے زیادہ حساب و کتاب رکھنے والا کوئی اور نھیں ہے۔اتنی بھت سی آیتوں میں کمپیوٹر ہے۔ بچہ کی سمجھ میں تو نھیں آیا لیکن خاموش ھوگیا۔
اسی طرح بھت سے لوگوں کو ھر نئی رسرچ کے بارے میں یہ کھنے کا شوق ھوتا ہے کہ "یہ تو چودہ سو سال پہلےسے ھماری کتاب میں ہے"۔ اور یہ جملہ اتنے طنز کے لھجہ میں کھا جاتا ہے جیسے دسیوں سال کی رسرچ کرنے والوں کی محنت کو ایک پھونک میں اڑا دیا گیا ھو اورایک جملہ میِں ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ھو۔
ان ساری باتوں کا جواب وہ واقعہ ہے جسے جارج جرداق نے دنیا بھر میں مشھور اپنی کتاب "انسانی انصاف کی آواز" میں لکھا ہے کہ عرب ملک کا کوئی لیڈر کسی وسٹرن کنٹری گیا اور جب Civil rights پر بات ھونے لگی تو اس عرب لیڈر نے کہا کہ آج تم نے اپنی عوام کو جو حقوق دئیے ھوئے ہیں یہ ھمارے لئے کوئی نئے نھیں ہیں ھم تم سے بہت آگے ہیں کیونکہ آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ایک بھت بڑے دانشور "علی (ع) اپنی کتاب نھج البلاغہ میں یہ حقوق بیان کرچکے ہیں۔ وہ لیڈر کھتا ہے کہ پھر تو تم ھم سے آگے نھیں ھو بلکہ چودہ سو سال پیچھے ھو کیونکہ تم اس کے ھوتے ہوئے بھی ابھی تک ھمارے برابر نھیں آسکے اور اپنی عوام کو وہ رائٹس نھیں دے سکے ھو جو ھم نے دئیے ہیں۔
کچھ لوگ جناب ابن عباس کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کھا ہے کہ اگر میرے گھوڑے کا چابک کھو جائے تو میں اسے قرآن سے ڈھونڈتا ھوں۔اس کا مطلب ہے کہ قرآن میں سب کچھ ہے یھاں تک کہ ان کے چابک کا پتہ بھی ہے۔ بس انسان کے پاس اتنا علم ھونا چاھئے کہ اس سے سب کچھ نکال سکے۔
اگر انھوں نے یہ کھا ہےاور اس روایت کا یھی مطلب ہے تب بھی جناب ابن عباس کی صداقت و وثاقت سر آنکھوں پر۔ وہ بھت اھم شخصیت ہیں اور بھروسہ مند راوی ہیں لیکن ان کی حیثیت کا سارا اعتبار نقل روایت میں ہے نہ کہ صدور روایت میں۔ یعنی بحیثیت راوی ان کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ معصوم سے روایت کریں۔ انھوں نے رسول اللہ (ص) اور حضرت علی (ع) یا دوسرے اھلبیت کو جو کرتے ھوئے دیکھا ہے یا کھتے ھوئے سنا ہے اسے بیان کردیں ۔ جب ھم نھج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور اصول کافی جیسی کتابوں میں قرآن کے بارے میں وہ حدیثییں دیکھتے ہیں جنھیں معصومین علیھم السلام نے بیان کیا ہے تو ھمیں اس میں قرآن کی تعریف، اس کی تفسیر او راس کا مقصد بیان کرنے والی ایسی عظیم حدیثیں دکھتی ہیں جن کی ھم جناب ابن عباس سے امید بھی نھیں رکھتے ہیں لیکن اِن میں ایسی کوئی بات نھیں دکھائی دیتی ہے۔
کچھ روایتوں میں کھا گیا ہے کہ قرآن میں گزرے ھوئے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کی بھی۔ لیکن ظاھر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ پچھلے نبیوں اور گزری ھوئی قوموں کے حالات بتائے گئے ہیں اور فیوچر کی باتوں میں کچھ پیشین گوئیاں ہیں اور قیامت کی خبر دی گئی ہے اور اس کے حالات بتائے گئے ہیں۔ ورنہ قرآن میں تو سارے نبیوں کا بھی ذکر نھیں ہے اور جن کا ہے ان کی بھی پوری زندگی نھیں ہے صرف زندگی کے کچھ واقعات ہیں۔
تو کیا ایسا ہے کہ ھم ان ایک لاکھ چوبیس ھزار نبیوں کے نام اور حالات نھیں سمجھ سکتے ہیں لیکن معصومین سمجھ سکتے ہیں؟ وہ قرآن سے ان نبیوں کے نام اور ان کی قوموں کے حالات نکال سکتے ہیں؟ ایسا ھرگز نھیں ہے۔

Add comment


Security code
Refresh