www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یہ تین شخصیتیں ہی صرف سُنی سوسائٹی میں ایسی ہیں جن کو مصلح کی حیثیت سے پہچانا جا سکتا ہے‘ ہمارا مطلب سید جمال‘ عُبدہ اور کواکبی ہے۔ اہمیت کے پیش نظر وہ پہلے‘ دوسرے اور تیسرے نمبر پر دیئے گئے ناموں کی طرح آتے ہیں‘ ان کے پیروکار خصوصاً سید جمال کے‘ مصر‘ شام‘ الجیریا‘ تیونس‘ مراکش اور مغرب میں پھیلتے رہے اور انہوں نے سید جمال اور عُبدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے کو مصلح ظاہر کیا‘ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے اسلاف جیسے مقام حاصل نہیں کر سکا‘ بلکہ ان میں بعض اصلاح کی بجائے فساد کرتے رہے اور مصلح کی بجائے فسادی کے نام سے مشہور ہوئے۔
اس طرح کا ایک آدمی سید محمد رشید رضا ہے جو سب سے زیادہ اپنے آپ کو مصلح کہتا تھا اور کہتا تھا کہ صرف وہ ہی سید جمال اور عُبدہ کے مشن کو آگے لئے جا رہا ہے‘ لیکن اس کے اندر ان دونوں کے خیالات کے اثرات نہیں پائے جاتے تھے اور وہ زیادہ تر ابن تیمیہ اور عبدالوہاب کے افکار سے متاثر تھا۔
موخرالذکر دونوں حضرات مصلح نہیں تھے بلکہ وہابیت کے مبلغ تھے‘ شیعوں کے بارے اس کے مفروضے اور متعصبانہ رائے نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی اصلاحی تحریک کے چلانے کے اہل نہیں۔
اصلاح طلبی کی سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ اصلاح لانے والا کسی ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ پر فوقیت نہ دے اور وہ تعصب و کینہ پروری سے مبرا ہو… رشید رضا اس بنیادی شرط کو پورا نہیں کرتا‘ یہ معجزہ ہوتا اگر وہ تعصب سے اتنا ہی بالاتر ہوتا جتنا کہ اس کا استاد عُبدہ تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوپر دی گئیں تین شخصیتوں کے علاوہ عرب دنیا میں اور کوئی اصلاح کا علمبردار کیوں نہ بن سکا؟ کیوں نہ بعد میں آنے والے مصلح اپنے اسلاف کے مشن کو جاری رکھ سکے؟ ان میں عبدالحمید ابن بادیس جزائری‘ طاہرالزاہرادی جزائری سوری‘ عبدالقادر مغربی‘ جمال الدین کاظمی سوری اور محمد بشیر ابراہیمی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے‘ کیوں اسلامی تحریکوں کی کشش ختم ہو گئی اور اس کے مقابلے میں قومی اور عربی تحریکیں مثلاً بعث تحڑیک‘ ناصرازم‘ سوشلسٹ اور مارکسٹ تحریکیں ابھرنے لگیں‘ نوجوانوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہونے لگیں؟
ہر شخص اپنی رائے قائم کر سکتا ہے‘ لیکن اس بندہ کی رائے یہ ہے:
”اسلامی تحریکوں کی جاذبیت کے کم ہونے کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ سید جمال اور عُبدہ کے بعد کے مصلحوں نے وہابیت کا پرچار کیا اور وہابیت کا مسلک تنگ نظری ہے‘ انہوں نے تحریکوں کو ”اسلاف پرستی“ کی نوعیت کا بنا دیا جس میں سابقہ طریقوں کو ابن تیمیہ حنبلی کی پیروی میں لے آئے۔ حقیقت میں وہ اصلی اسلام کو دوبارہ لانے کی کوشش میں حنبلی مکتب سے آگے نہ جا سکے‘ جو اسلامی مذاہب میں سب سے زیادہ سطحی ہے۔
استبداد اور استعمار کے خلاف جہاد کی سپرٹ حنبلی عقائد کے مخالفوں کے خلاف جہاد میں بدل گئی‘ خصوصاً ابن تیمیہ حنبلی جس کا سربراہ تھا۔“

Add comment


Security code
Refresh