www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انیسویں صدی میں جو واقعات و تبدیلیاں مغرب میں ہوئے ہیں‘ ان سے اکثر مسلمان ناواقف رہے اگر ان میں کسی نے یورپ کا چکر لگایا اور تھوڑا بہت جانا کہ مغرب میں خیا ہو رہا ہے‘ تو ان سے مرعوب ہو گئے اور ان کی ترقی نے ان کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کے مسلمان مغرب کے عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ اٹھ سکیں۔ ناصرالدین نے مغرب کے ایک دورے کے دوران اپنے وزیراعظم کو کہا کہ
”اے وزیراعظم! ہم مغرب تک پہنچنے کی کوشش نہ کریں‘ آپ نے فقط جو کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں‘ کوئی شخص اپنی آواز بلند نہ کرے۔“
سر سید احمد خان جو ہندوستان میں مسلم لیڈر تھے‘ شروع شروع میں مسلسل برطانوی استعماریت کے خلاف لڑتے رہے‘ یہ بات ان کے دوستوں اور مخالفین دونوں نے تسلیم کی ہے کہ ۱۲۸۴ھ میں پہلے برطانوی دورے نے ان کے ذہن پر کافی اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے مغرب کی تمدنی اور سیاسی ترقی‘ اقتصادی فوجی اور تہذیبی طاقت کا مشاہدہ کیا‘ تو استعماریت دشمن خیالات ہوا میں بکھر گئے‘ وہ مغربی تہذیب سے اس قدر متاثر ہوئے اور اس کے رعب و دبدبہ میں آئے کہ یہ گمان کر بیٹھے کہ اس تہذیب کو توڑنا یا اس کے آگے چوں چرا کرنا محال ہے۔ انہوں نے سوچا کہ برطانیہ کے خلاف جہاد کرنا بے فائدہ ہے‘ اس لئے انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو ہندوؤں کی کوششوں سے لاتعلق کر لیا جو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر برطانوی استعماریت کے خلاف کر رہے تھے‘ بلکہ مسلمانوں کی تحریک مسلم لیگ کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی‘ جس تحریک کے علامہ اقبال ایک کارکن تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ سے تعاون کرنا چھوڑ دیا‘ انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں انگریزوں کی خوشنودی حاصل کریں۔ اب بدلا ہوا سر سید مغربی تہذیب و تمدن کا پرچار کرنے والا بن گیا‘ شاید انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ قرآن کی تاویل مغربی مادی نقطہ نظر سے کی جائے۔
اس کے برعکس سید جمال نہ تو مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے اور نہ ہی اس سے مرعوب ہوئے‘ انہوں نے مسلمانوں کو ناامیدی اور مایوسی سے دور رہنے کی تلقین کی اور مغربی استعماریت کے ہّوے کے خلاف جرات مندی کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے اکٹھا کیا۔
ڈاکٹر حمید عنایت نے لکھا ہے:
”سید جمال نے ناامیدی اور مایوسی کے خلاف اپنے جہاد کو اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں خوب ابھار‘ وہ یہ رسالہ عربی زبان میں پیرس سے نکالتے تھے۔ یہ بات اسی زمانے کی ہے جب کہ برطانوی استعمار ایشیاء میں پوری طرح کامیاب و کامران ہو چکا تھا۔ کئی واقعات کے رونما ہونے سے مثلاً ایران کی ۱۸۵۶ء میں جنگ ہرات میں شکست‘ ۱۸۵۷ء میں ہندوستانی بغاوت کی ناکامی اور ۱۸۸۲ء میں مصر پر قبضہ ہو جانا‘ مسلمانوں کے ذہنوں میں برطانوی استعماریت ایک ناقابل شکست طاقت کی حیثیت سے جاگزیں ہو گئی۔ سید جمال نے سوچا کہ جب تک مسلمانوں کو ”عقدئہ ب یچارگی“ سے آزاد نہ کرا لیا جائے ان کا بیرونی نوآبادیت اور اندرونی استبداد کے خلاف انقلاب برپا کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اپنا مشن بنایا کہ مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکی جائے‘ انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں مکمل اتحاد و یکجہتی پر زور دیا تاکہ برطانیہ کے توسیع پسندانہ عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔“
سید کے اس نظریے کا اظہار ان کے اس مضمون سے ہوتا ہے جو انہوں نے ”ایک کہانی“ کے عنوان سے اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں شائع کیا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے:
”شہرالتسخر کے باہر ایک عبادت گاہ تھی جہاں ہر مسافر رات کے اندھیرے کے ڈر سے پناہ لیتا تھا‘ لیکن جو کوئی بھی عبادت گاہ جاتا تھا تو پراسرار موت کا شکار ہو جاتا۔ اس نے لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا اور لوگوں نے عبادت گاہ میں پناہ لینی چھوڑ دی۔ آخرکار ایک ایسا شخص جو اپنی زندگی سے عاجز تھا‘ پختہ ارادے کے ساتھ اس کے اندر گھس گیا‘ اچانک خوفناک اور ڈراؤنی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں‘ لیکن آدمی ڈٹا رہا اور ہر خوف و اندیشہ کے لئے تیار رہا‘ کیونکہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تو آ ہی چکا تھا۔ اس کے عزم سے عبادت گاہ کا خوفناک طلسم دھڑام سے گر گیا‘ عبادت گاہ کی دیواروں میں بڑے شگافوں سے ان کے گنجینے اس آدمی کے قدموں میں گر گئے‘ تب اس کو معلوم ہوا کہ سابقہ لوگ جس چیز سے قتل ہوئے وہ صرف غیبی خوف تھا۔ برطانیہ بھی اسی طرح ایک عبادت خانہ ہے جہاں بھٹکے ہوئے لوگ سیاست کے اندھیرے سے خوف کھا کر پناہ لیتے ہیں‘ دہشت نات توہمات ان کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی ایسا شخص جو کہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا ہو‘ لیکن ناقابل تسخیر حوصلے کا مالک ہو تو وہ اس طلسمی عبادت گاہ کے اندر داخل ہو کر بلند چیخ کے ساتھ اس کی دیواروں کو پاش پاش کر دے۔“
یہ اسی طرح کی کہانی ہے جو کہ مثنوی مولانا رومی کی تیسری کتاب میں ”مہمانوں کو قتل کرنے والی مسجد“ کے عنوان سے موجود ہے‘ لیکن سید نے اس کو تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ مسجد کی بجائے عبادت گاہ کے نام سے بتایا ہے تاکہ غیر مسلم ماحول میں بھی اس کو سمجھایا جا سکے۔

Add comment


Security code
Refresh