www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کون یہ جنگ لڑے؟ عوام‘ لیکن عوام کو کس طرح میدان جنگ میں اتارا جائے؟ کیا اس راسے سے کہ ان کو بتایا جائے کہ تمہارے حقوق کو کس طرح پامال کیا گیا ہے؟ یہ بجا ہے کہ اس کو بنیادی اہمیت دی جائے‘ لیکن یہ کافی نہیں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟… بنیادی کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں پختہ یقین پیدا کرنا چاہئے کہ سیاسی جدوجہد ایک شرعی اور مذہبی فریضہ ہے‘ یہ واحد راستہ ہے اور لوگ اس وقت تک اطمینان سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتے۔ وہ لوگ غفلت میں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جدا ہیں‘ مذہب اور سیاست کی ہم بستگی کو عام لوگوں پر آشکارا کرنا چاہئے۔
مذہب اور سیاست میں باہمی رابطہ کی ضرورت پر زور‘ سیاسی بیداری کا احیاء جو کہ ہر مسلمان کا ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کا ملکی سیاست میں عملی شرکت اور ساتھ ہی اسلامی سوسائٹی کا قیام‘ وہ نظریات ہیں جو سید کے نزدیک ان وقتی بیماریوں کا علاج ہیں‘ وہ عملاً اپنے عصر کے استبدادی حکام کے ساتھ لڑتے رہے اور اپنے پیروکاروں کو ان کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر اکساتے رہے‘ ناصر الدین شاہ پر حملہ انہی کی تحریکوں کا نتیجہ تھا۔
۲) جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونا
یہ ایک حقیقت ہے کہ سید جمال نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور انہوں نے سکول اور سائنسی ادارے نہیں بنائے‘ انہوں نے صرف قلم اور زبان سے اس کی تبلیغ کی۔
۳) اصلی اسلام کی طرف پلٹنا
اسکا مطلب ان خرافات اور بے کار حاشیہ آرائیوں کا خاتمہ ہے جو اسلام کی لمبی تاریخ کے دوران اس میں شامل کر دی گئی ہیں۔ سید کے نزدیک اسلام کی طرف پلٹنے کا مطلب قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا اور دوبارہ اپنے صالح اسلاف کی سیرت پر کاربند ہونا ہے۔ انہوں نے صرف قرآن کی طرف پلٹنا تجویز نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خود قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کو ضروری سمجھتا ہے‘ مزید برآں وہ ”حسبنا کتاب اللّٰہ“ کے جملہ میں موجود تمام خطرات سے بخوبی واقف تھے۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہر زمانے اور ہر دور میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرتا رہا ہے۔
۴) نظریات پر ایمان و عقیدہ
وہ اپنی تحریروں اور خطبات سے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ چیز بٹھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اسلام میں ایک مکتب فکر اور نظریہ کی وجہ سے یہ طاقت موجود ہے کہ وہ مسلمانوں کو اندرونی استبداد اور بیرونی استعمار سے نجات دلا کر ان کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام پر پہنچا دے‘ مسلمان ارادے کے ساتھ جم جائیں تاکہ وہ کسی دوسرے مکتب فکر کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
اس نظریے کی وجہ سے سید نے اپنی تحریروں اور تقاریر میں اسلام کے ان اوصاف پر روشنی ڈالی‘ مثلاً اسلام میں فکر کی طاقت کا اقرار‘ مدلل برہان اور مفہوم صراط مستقیم پر چلتے ہوئے انسان میں ہر کمال سوائے پیغمبری کے حاصل کرنے کی صلاحیت‘ انسان کی ذاتی شرافت‘ اسلام کا سائنسی مذہب ہونا‘ عمل اور سخت محنت کا مذہب‘ کوشش اور جدوجہد کا مذہب‘ فساد کے خلاف اصلاح کا مذہب‘ حلال و حرام کا مذہب‘ عزت اور عدم قبول ذلت کا مذہب اور ذمہ داریاں قبول کرنے کا مذہب ہونا ہے۔
سید نے اسلام میں نظریہ توحید پر کافی زور دیا ہے‘ انہوں نے کہا کہ اسلام صرف برہانی یقین توحید کی بنیاد قرار دیتا ہے‘ استدلال اور برہانی توحید ہی تمام غلط عقیدوں کے لئے بہت بڑی تردید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہی سوسائٹی فساد اور شرک کو ختم کر سکتی ہے جو استدلال اور برہانی یقین پر اعتماد کرتی ہے‘ نہ کہ وہ جو قیاس‘ واقعات اور حالات کی موافقت پر یقین رکھتی ہے۔ لوگوں کو استدلال کی تعلیم دی جائے تاکہ فکر کی عزت مذہبی نقطہ نظر سے قائم ہو جائے۔
اس وجہ سے سید نے فلسفہ الٰہی اسلامی کی ضرورت کا احساس دلایا اور ان کے ماننے والوں نے اس کی پیروی کی‘ انہوں نے ایک بااعتماد شاگرد محمد عُبدہ کو فلسفہ پڑھنے کی تلقین کی۔ کہا جاتا ہے کہ محمد عُبدہ نے اشارات ابو علی سینا کی اپنے ہاتھ سے دو کاپیاں تیار کیں اور ایک کے آخر میں سید کی تعریف کی ہے‘ غالباً یہ اسی ہمت افزائی کا اثر تھا کہ عُبدہ نے فلسفہ پر کچھ کتابیں شائع کیں۔ پہلی دفعہ نجات بو علی‘ البصائر النصیریہ ابن سہلان ساوجی اور شاید اشارات ابو علی سینا میں سے المشرقین کے کچھ حصے شائع کئے۔
احمد امین نے اپنی کتاب ظہور اسلام(ج ۱‘ ص ۱۹۰) میں لکھا ہے کہ سنی فکر کے مقابلے میں فلسفہ شیعہ فکر کے ساتھ زیادہ سازگار ہے۔ اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فاطمیوں نے جو مصر کے شیعہ حاکم تھے‘ فلسفہ کو زیادہ رواج دیا۔ فاطمیوں کے زوال اور سنی روح کے آنے سے فلسفہ مصر سے رخصت ہو گیا‘ حال ہی میں سید جمال (جو شیعہ رجحانات رکھتا ہے) کے مصر آنے پر اس خطہ میں فلسفہ کا دوبارہ ظہور ہوا۔
اپنے اس مشن کے دفاع میں کہ اسلام ایک جامع اور آزاد مکتب فکر اور نظریہ رکھتا ہے‘ سید نے یورپی ممالک کے اعتراضات کے خلاف مہم چلائی۔ یورپ میں اسلام کو ایک جبری دین اور قضا و قدرت کا محتاج تصور کیا جاتا تھا اور یہ کہ اسلام شخصی آزادی کی نفی کرتا ہے اور یہی اسباب ہیں جو کہ اسلام کے انحطاط کا سبب بنے ہیں۔(انسان و سرنوشت)
وہ یہ بھی تبلیغ کرتے تھے کہ اسلام سائنس کا مخالف ہے اور مسلمانوں کو سائنس سے دور رکھنا اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔
اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں انہوں نے ایک مضمون میں اسلام کے نظریہ قضا و قدرت کا دفاع کیا اور یہ ثابت کیا کہ یہ فلسفہ نہ صرف غیر انحطاطی ہے‘ بلکہ اس نے ترقی اور بلندی میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔(پائے گذر نہضت ہائے اسلامی‘ سید جمال الدین)
اس طرح انہوں نے ایک فرانسیسی فلاسفر ارنسٹ رنان (Iernest Renan) کا منہ توڑ جواب دیا‘ جو اسلام کو سائنس کا مخالف مذہب سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب اسلام ہی ہے۔(رسالہ اسلام و علم‘ از ہادی خسروی شاہی)

Add comment


Security code
Refresh