www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سید نے مسلم سوسائٹی کے لئے جو اصلاحی پروگرام اور معاشرتی نظریہ پیش کیا تھا اس کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو ”اسلامی اتحاد“ سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ اور گروپ کے اختلافات کو اسلامی بھائی چارہ کی جگہ قطعاً نہیں لینی چاہئے اور مسلمانوں کے تہذیبی‘ نظریاتی اور روحانی اتفاق میں شگاف ڈالنے کے لئے کسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔
ان کے نزدیک مسلم دنیا وہ ہے جہاں کا ہر فرد تعلیم یافتہ اور عالم ہو‘ عہد حاضر کے آئینی اور ٹیکنالوجی علوم سے کماحقہ آگاہ ہو اور ہر قسم کی استعماریت اور استبدادیت سے آزاد ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا پیروکار بننا چاہئے نہ کہ اس کا الٹ۔ اسلام کا حاکم اس کے ابتدائی دنوں کے حاکم کی طرح ہونا چاہئے‘ یعنی سادہ اور بغیر پیچیدہ اسباب‘ آرائش و زینت کے جو بعد میں اسلامی تاریخ کے طویل دور میں ان کے ساتھ مل گئے‘ حق کے لئے جہاد کی روح مسلمانوں میں دوبارہ عود کر آئے اور ذاتی عزت و وقار اور دوسرے لفظوں میں استعماریت اور استبداد سے نفی ان کی ذات میں پیدا ہو جائے۔
جہاں تک ہمارا خیال ہے سید نے جاگیرداری نظام جو ان دنوں اسلامی سوسائٹی میں موجود تھا‘ کے متعلق کوئی رائے نہیں دی اور نہ ہی اسلامی تعلیمی اور خانوادگی نظاموں کے سلسلے میں رائے دی‘ حالانکہ وہ ان سے کافی وابستہ رہے۔ معلوم نہیں کہ سید کے خیال میں ان نظاموں کو اسلام کے طے شدہ معیار کے مطابق کس طرح اپنایا جا سکتا تھا‘ بے شک انہوں نے اپنے زمانے کی استبدادی حکومت کے خلاف بے رحم جنگ لڑی‘ لیکن انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا نقشہ نہیں کھینچا‘ جس کے ساتھ ان کا متواتر لگاؤ رہا‘ اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا‘ غالباً استعماریت اور استبدادیت کے خلاف ابتدائی مہمات میں وہ کافی مصروف رہے اور ان کو ایسا کرنے کا موقع نہ مل سکا‘ شاید ان کے خیال میں اسلامی انقلاب کے لئے پہلا قدم یہ تھا کہ مسلمانوں کو آمریت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف مہم میں لگانا چاہئے۔ جب ایک دفعہ وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو دوسرا صحیح قدم اٹھانا ان کے لئے مشکل نہیں ہو گا‘ لہٰذا مہم کا دوسرا حصہ سید نے آنے والوں کے لئے چھوڑ دیا۔
سید کی خصوصیات
سید قدرتی اور اکتسابی دونوں صلاحیتوں کے مالک تھے‘ اس قسم کا ملاپ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے‘ اس بات کی ان تمام لوگوں نے تصدیق کی ہے جنہوں نے سید کو قریب سے دیکھا۔ لاجواب ذہانت رکھنے کے ساتھ ہی فصاحت اور خطابت بھی عروج پر تھی‘ ان کی آواز میں جادو تھا‘ مصر میں ان کی خطابت لوگوں کے ذہنوں میں طوفان برپا کر دیتی اور لوگ جذبات سے چیخنے چلانے لگتے۔
اکتسابی صلاحیتوں میں سے اہم صلاحیت یہ تھی کہ ان کو صحیح اسلامی تہذیب ہوئی‘ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم قزدین‘ تہران اور نجف میں حاصل کی۔ خصوصاً نجف میں انہوں نے اپنے زمانے کی دو عظیم ہستیوں جناب مجتہداعظم خاتم الفقہاء حاج شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ اور نامور فلسفی و روحانی پیشوا ملا حسینقلی ہمدانی سے فیض حاصل کیا۔ سید نے علوم عقلی کی تعلیم ان سے حاصل کی اور یہ دونوں مرحوم بزرگ حاج ملا ہادی سبزواری کے شاگرد تھے۔ ان کے علاوہ نجف کے دو اہم معزز افراد بھی سید کے دوست بن گئے‘ ان میں سے ایک سید احمد تہرانی کربلائی اپنے دور کے مشہور عارف اور حکیم بزرگ تھے اور دوسرے سید سعید حبوبی جو عراق کے مشہور شاعر‘ ادیب‘ عارف اور مجاہداعظم تھے۔ ان کے انقلابی خیالات نے عراقی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دونوں سے سید کی دوستی مرحوم اخوند ہمدانی کے مکتب میں ہوئی۔
سید کے حالات زندگی لکھنے والے ان فلسفیانہ‘ اخلاقی‘ تربیتی‘ سلوکی اور علمی خیالات سے نابلند ہیں جو کہ اخوند ہمدانی کے مکتب میں رائج تھے اور وہ لوگ سید احمد تہرانی کربلائی اور سید سعید حبوبی کے متعلق بھی زیادہ نہیں جانتے۔ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ سید کے دل و دماغ پر اس مکتب اور دوسرے حضرات کا کیا اثر تھا‘ ان سطور کے لکھنے والے کو جب سید پر ان حضرات کے اثر کا علم ہوا تو سید کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے اور ان کی شخصیت کی ایک نئی اہمیت کا پتہ چلا۔
اسلامی تہذیب کے بارے میں وسیع علم کا ہونا اور اس کے عمیق اثرات نے سید کو ہندوستان کے دورے کے دوران یورپی تہذیب کی رو میں بہہ جانے سے بچایا۔
سید کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کو اپنے زمانے کے تمام علوم پر کافی دسترس تھی‘ وہ کئی بیرونی زبانیں جانتے تھے‘ مثلاً انگریزی‘ فرانسیسی اور روسی زبان۔ انہوں نے براعظم ایشیاء‘ یورپ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں سفر کیا‘ ہر مقام پر مناسب قیام کرتے رہے۔ ان ملکوں کی اہم شخضیات‘ سیاسی حضرات‘ صاحبان علم و دانش سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان تمام چیزوں نے وسیع النظری میں بہت اضافہ کیا۔
ان کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی دنیا کو بہت قریب سے دیکھا۔ حجاز‘ مصر‘ ہندوستان‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان کا دورہ کر کے تمام اہم لوگوں سے ملاقات کی‘ ہر ملک میں انہوں نے مناسب قیام کیا اور ان کی تحریکوں کا تجزیہ کیا اور ان کی شخصیات و رجحانات کا گہرا مطالعہ کیا‘ اس چیز نے سید کو ان غلطیوں سے بچا لیا جن کے دوسرے مصلح مرتکب ہوئے۔
ان کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ اسلامی ممالک کی سیاسی‘ اقتصادی اور جغرافیائی حالات کے متعلق ان کی معلومات وسیع تھیں‘ جو خط انہوں نے میرزا حسین شیرازی کو لکھا‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایران کے اس دور کے مسائل سے پوری طرح باخبر تھے اور ان کو پردہ سیاست کے پیچھے استعماری چال بازیوں و عیاریوں کا بھی پورا علم تھا۔

Add comment


Security code
Refresh