www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

632200
حق اور باطل کے درمیان ھمیشہ سے معرکہ آرائی جاری ہے، یہ معرکہ آرائی خدا کی زمین پر کسی ایک جگہ نھیں بلکہ اس کا دائرہ ھر مکان اور زمین و ملک سے ہے، اس کا تعلق ھر دور

اور زمانے سے ہے، یہ معرکہ آرائی اس وقت تک جاری رھے گی، جب تک حق کا آخری نمائندہ اور وارث زمانہ تشریف نھیں لے آتے اور باطل اور اس کے فتنوں کا ھمیشہ کیلئے خاتمہ نھیں کر دیتے۔ ان کے آنے سے پھلے یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ھونے کی رسم اور روایت باقی رھے گی۔ باطل کے سامنے ٹکرانے والے اور اس کا راستہ روکنے والے یقیناً ان کے نمائندے اور ناصران کھلائیں گے۔ یہ الگ بات کہ بعض ایسے فاسد عقیدہ کے لوگ بھی موجود ہیں، جو آپ کی آمد اور ظھور سے پھلے کسی بھی قسم کے قیام اور خروج کو باطل اور حرام سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ھونا امام کے مقاصد سے انحراف ہے، مگر ان کی تعداد اب بھت کم رہ گئی ہے۔ اس لئے کہ ظلم اس قدر واضح اور آشکار ھو رھا ہے کہ ھر ایک کو اس سے نفرت اور اس کے خلاف قیام اور سینہ سپر ھونے کی سوچ پختہ ھو رھی ہے، اسی وجہ سے آج ھر سو اس قیام اور خروج کے داعی باطل کا سامنے کرنے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رھے ہیں۔
آپ خود سوچیں کہ اگر باطل کے سامنے ٹکرانے کی رسم جو کربلائی راستہ ہے نہ ھوتی تو آج باطل کے طرفداروں اور نمائندوں نے عراق، شام اور دیگر مقدس مقامات پر قبضے کی جو روش اختیار کی تھی، اس کا نفاذ تقریباً پورے مشرق وسطٰی میں ھوچکا ھوتا اور کروڑوں لوگوں کیساتھ ھمارے مقدسات نیست و نابود ھوچکے ھوتے۔
بھرحال اس صدی میں اس کا سھرا انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی کو جاتا ہے، جنھوں نے تاریخ کا یہ بھولایا جانے والا سبق ھم سب کو یاد کروایا اور بتایا کہ کیسے قیام کرنا ہے، کیسے باطل سے ٹکرانا ہے، کیسے اس کا مقابلہ کرنا ہے، کیسے اسے شکست سے دوچار کرنا ہے۔ صرف ایران تک محدود نھیں رھی بلکہ ان کی یہ سوچ اور نظریہ تمام عالم اسلام میں راسخ ھوا، بالخصوص مکتب تشیع کے حقیقی پیروان علماء و مجتھدین نے اسے اپنے اپنے علاقوں اور ممالک میں روبہ عمل لانے کیلئے جدوجھد کا آغاز کیا۔
ایران کے ھمسایہ ملک عراق کو سرزمین انبیاء کھا جائے تو غلط نھیں ھوگا، یہ ایک طویل تاریخ کی حامل اسلامی آثار و واقعات و تاریخ پر مشتمل مملکت ہے، یھاں پر بھی مختلف ادوار میں انبیاء، آئمہ، اولیاء، علماء، مجتھدین نے دین خدا کے احیاء کی تاریخی جدوجھد اور اس راہ میں قربانیوں و ایثار کی داستانیں رقم کی ہیں۔
اگر ھم بھت پرانی تاریخ میں نہ جائیں اور گذشتہ صدی کے اواخر میں جھانکیں تو ھمیں اس کا بخوبی اندازہ ھو جائے گا کہ اسلام کے احیاء کیلئے اس قوم و ملت و مکتب کے علماء و مجتھدین نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں اور انھیں کس قسم کے حالات سے دوچار ھونا پڑا ہے، بعثی نمائندوں کے اقتدار میں آنے کے بعد اھل عراق پر جو گذری ہے، اس سے کون واقف و آگاہ نھیں ہے، آج اگر عراق میں ایک مضبوط شیعہ حکومت قائم ہے تو اس کے قیام کیلئے ھزاروں علماء و مجتھدین کی ان تھک کاوشیں اور بے مثال جدوجھد تاریخ کے تابندہ ابواب کے طور پر مرقوم ہے۔
عراق میں قربانیاں پیش کرنے والوں میں سب سے نمایاں اور روشن ترین کردار خاندان صدر اور خاندان حکیم کے چنیدہ افراد کا ھی ہے، اس کاروان حق کے سرخیل اور قافلہ سالار، عظیم فلسفی، بے مثال مفکر، ان تھک مبلغ و مبارز آیۃ اللہ سید باقر الصدر شھید ہیں، جنھیں بعثی ظالم حکمران صدام نے 9 اپریل1980ء کے دن ان کی بھن کے ساتھ بدترین تشدد کے بعد شھید کر دیا تھا۔
شھید باقر الصدر اور ان کی عظیم بھن آمنہ بنت الھدیٰ کی تاریخی جدوجھد اور بے مثال قربانی اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے پیغام اور اس کی صحیح تصویر کشی کیلئے ھمارے عظیم مجتھدین و فقھا و نمائندگان اسلام نے کسی بھی قسم کی قربانی سے فرار یا دریغ نھیں کیا۔ آج اھل عراق جس خوش حالی اور آزادی میں سانس لے رھے ہیں، یہ آزادی اور دینی ماحول کے احیاء میں انھی علماء و مجتھدین کا پاک لھو شامل ہے، جس کے قافلہ سالار آیۃ اللہ سید باقر الصدر شھید ہیں، ان کی زندگی اور کردار نیز حالات و واقعات، مشکلات، مصائب، اسارت اور تشدد کی داستان کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
ھمیں کبھی بھی یہ نھیں بھولنا چاھیئے کہ عراق میں جن مقدس مقامات کی زیارات کے ھم ہر وقت مشتاق رھتے تھے اور آج بڑی آزادی کے ساتھ ان کو انجام دیتے ہیں، یہ سب انھی مجتھدین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، ان کاوشوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔
آج جتنی بڑی سازش پر عراق میں عمل ھو رھا ہے، وہ بھی اگر ناکامی سے دوچار ھوئی ہے یا اس کا مقابلہ کیا جا رھا ہے تو ان بزرگان دین مجتھدین و فقھا کی جدوجھد، کاوش اور قربانیوں کی بدولت ناکامی سے دوچار ھوئی ہے اور انھی علماء و مجتھدین نے اس قوم کو یکجا و متحد کیا ہے اور باطل کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، اسکا سر کچلا ہے تو انھی مجتھدین کی کوششیں نظر آتی ہیں، جنھوں نے نوجوانوں کو شھادت کے جذبے سے سرشار کرکے تکفیریت کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان عمل و جھاد میں بھیجا ہے۔
آیۃ اللہ شھید باقر الصدر کی حیات مبارکہ کے بارے جاننا چاھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ بغداد کے علاقے قدیمیہ (کاظمین) میں یکم مارچ 1935ء بمطابق25 ذیقعد 1353ھ کو پیدا ھوئے۔ ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپ کے والد معروف مذھبی اسکالر سید حیدر الصدر انتقال فرما گئے، جو معروف علماء میں شمار ھوتے تھے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ سید اسماعیل صدر اپنے زمانے کے معروف و مشھور فقھا میں سے تھے۔
صدر خاندان کے بارے یہ معلومات ملی ہیں کہ یہ بنیادی طور پر لبنان سے آکر آباد ھوا تھا۔ اس خاندان کے ایک چشم و چراغ لبنانی شیعوں کے قائد موسٰی صدر لیبیا کے سفر کے دوران غائب ھوگئے تھے، جو آج تک گم شدہ ہیں۔ یہ وھی شخصیت ہیں، جنھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شخصیت نے اھل لبنان کی قسمت بدل دی اور انھیں دنیا کی معزز و مکرم ترین اقوام میں لا کھڑا کیا، دنیا آج حزب اللہ اور امل کے نام سے ڈرتی ہے اور ان کے حقوق کوئی پامال نھیں کرسکتا۔
بات ھو رھی تھی آیۃ اللہ باقر الصدر کی، جنھوں نے کاظمین کے ایک معروف فقیہ کے گھر میں جنم لیا تھا، آپ نے پرائمری کی تعلیم مقامی قدیمیہ کے اسکول سے ھی حاصل کی۔ شھید باقر الصدر اور ان کے اھل خانہ نے 1945ء میں نجف اشرف کا رخ کیا، جھاں انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی، انھوں نے نجف اشرف میں حوزہ علمیہ میں داخلہ لیا اور انتھائی سرعت و تیزی کے ساتھ حصول علم کی منازل طے کرتے ھوئے حیرت انگیز طور پر صرف 20 سال کی عمر میں درجہ اجتھاد پر فائز ھوئے۔ ویسے ان کے مطالعات اور استعداد علمی کو جاننے والے یہ بات کھتے ہیں کہ سن بلوغ تک پھنچنے کیساتھ ھی انھوں نے اجتھاد کا درجہ پا لیا تھا اور صاحب فتویٰ ھوگئے تھے۔ ان کی مرجعیت کا زمانہ آیۃ اللہ محسن الحکیم کی وفات کے بعد شروع ھوتا ہے، جو اس دور میں اھل عراق سمیت دنیائے تشیع کے متفق و محبوب مرجع سمجھے جاتے تھے۔
کھتے ہیں کہ آیۃ اللہ محسن الحکیم بھی اس نوجوان عالم کو نجف کی امید قرار دیتے تھے، یعنی ان کی اعلٰی درجے کی خصوصیات اور علمی استعداد نیز جرات و شجاعت آیۃ اللہ محسن الحکیم پر بھی آشکار و واضح ھوچکا تھا۔
شھید باقر الصدر نے بعثی و کمیونسٹ نظریات کے رد کیلئے اپنے قلم کو ھتھیار بنایا اور آیۃ اللہ محسن الحکیم کی خواھش پر ان کا علمی مقابلہ و محاکمہ کیا اور اس مقصد کیلئے ایک بھت ھی دقیق علمی کتاب "فلسفتنا" یعنی ھمارا فلسفہ، اسلامی اقتصادیات المعروف "اقتصادنا" لکھ کر شائع کروائیں، جنھوں نے فلسفی دنیا میں ھلچل مچا دی اور الحادی و کمیونسٹ نظریات کے بخیے ادھڑ گئے۔ یوں آپ کی شھرت کا ڈنکا بیرونی دنیا میں بھی بجنے لگا اور حوزہ نجف سے الحادی نظریات کا جنازہ نکل گیا۔
آیت اللہ العظمٰی سید باقر الصدر کا شمار بلاشبہ گذری صدی کے عظیم فلسفیوں، مذھبی اسکالرز اور مفکرین میں ھوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوموں و محروموں کو نہ صرف متاثر کیا اور حرارت دی، بلکہ آپ نے ایک ایسے ملک میں جھاں کے باشندے زیادہ تر اھل تشیع اور پھر اھل سنت تھے، کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرونے اور باھمی اختلافات اور کدورتوں کو ختم کرنے کیلئے موثر آواز بلند کی اور اھم مواقع پر ایسے پیغامات دیئے کہ شیعہ و سنی مل کر استعمار اور اس کے زر خریدوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ھوں۔
انھوں نے نہ صرف حکمرانوں کو للکارا بلکہ ان نام نھاد مذھبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ یہ شھید باقر الصدر ھی تھے، جنھوں نے 1957ء میں عراق کی معروف اسلامی دعوہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
شھید باقر الصدر نے حزب الدعوہ کی بنیاد رکھی، تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت و کمیونزم کے فروغ کو روکا جاسکے اور اسلامی افکارات کا احیا کیا جاسکے، ان کے نظریات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ خشک متقی اور جبہ و دستار والے تھے، جو سیاسی جدوجھد کو غلط سمجھتے تھے اور ان کے پاس ایسے سیاسی و باعمل روشن فکر علماء کیلئے دین سے انحراف کے فتوے صادر کرنا بھت آسان حربہ تھا۔ یہ قدامت پسند علماء شھید صدر کی سیاسی فکر اور جدوجھد کی راہ میں بھی ھمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔ دراصل ان کو حکمران بعثی ٹولہ استعمال کرتا تھا، ان کا رابطہ اخوان المسلمون کی شاخ حزب تحریر سے بھی تھا، جو عراق میں سیاسی جدوجھد کر رھی تھی۔ 70 کی دھائی کے آغاز میں ھی شھید باقر الصدر اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دھشت گرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپ نے اپنی دینی اور تعلیمی سر گرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
بنیادی طور پر یھی وہ سیاسی جماعت اور منظم گروہ تھا، جس نے عراق میں بعد ازاں صدام کے ظالمانہ دور میں مظلوم شیعوں کے حقوق کے لئے پیھم اور مسلسل جدوجھد کی۔ آپ کو امام خمینی کی ذات سے اس قدر عشق تھا کہ اس کی خاطر ھر قسم کا خطرہ مول لینے سے بھی دریغ نھیں کرتے تھے اور ان کی شھادت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب امام خمینی کو عراق کی بعثی حکومت نے عراق بدر کیا تو اس وقت پولیس کے سخت پھرے اور گھیراؤ کے باوجود آپ امام خمینی کے گھر گئے اور اپنی ھمدردی کا اظھار کیا۔ یہ ان کا جرم بن گیا، جسے گرفتاری کے بعد باقاعدہ ان کے سامنے دھرایا گیا۔
کربلا کی فکر کے امین، اپنے جد سردار کربلا، سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام کے راستے کے راھی اور پیامبر آیۃ اللہ شھید باقر الصدر کو اپنی زندگی کے مختلف ادوار 1971،1974،1977ء اور آخری مرتبہ 1979ء میں بعثی حکمرانوں نے اسیر بھی کیا، سخت ایذائیں بھی دیں اور شھید باقر الصدر کے کئی ساتھیوں اور رفقائے کار سمیت دعوہ پارٹی کے اھم اراکین کو ظالم و جابر صدام ملعون کے حکم پر گرفتار کرکے ان کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔
شھید صدر کو جب آخری دفعہ گرفتار کیا گیا تو ان کی عظیم بھن آمنہ بنت الھدیٰ جو حزب دعوہ خواتین ونگ کی سربراہ تھیں، اس ظلم پر خاموش نہ رھیں اور نجف میں باھر نکل کر لوگوں کو قیام کی دعوت دی۔ اس ظلم اور حکومت کے نجس ارادوں سے آگاہ کیا۔
اس احتجاج کے بعد عارضی طور پر حکومت نے انھیں رھا کر دیا اور دونوں بھن بھائیوں کی نظر بندی کو ختم کر دیا اور انھیں 5 اپریل 1980ء کو رھا کر دیا گیا، لیکن چند دنوں بعد ھی 9 اپریل 1980ء کو ظالم و سفاک بعثیوں نے نجف اشرف شھر کی بجلی منقطع کر دی اور شھید باقر الصدر کے قریبی عزیز سید محمد الصدر کے گھر سکیوریٹی حکام کو بھیج کر ان کے اپنے ھمراہ بعثی یزیدیوں کے ھیڈ کوارٹر بلوا لیا گیا، جھاں یزیدی صفت صدامیوں نے سید محمد الصدر کو شھید باقر الصدر اور شھیدہ آمنہ بنت الھدی کی لاشیں دکھائیں، جو خون میں لت پت پڑے ھوئے تھے اور جسم پر بے انتھا تشدد کے نشانات تھے، شھید باقر الصدر اور ان کی بھن کو نجف اشرف میں واقع تاریخی قبرستان وادی السلام میں اسی رات دفن کر دیا گیا۔
آج دنیا بھر میں اسلام حقیقی بالخصوص تشیع کے خلاف عالمی سازشوں کا شکار مسلمانوں اور مکتب جعفری کے پیروان کو دیکھیں اور اس مکتب کی حفاظت و نگھبانی، تبلیغ و اشاعت اور اس کا پرچم سربلند رکھنے اور اسے کسی بھی ظالم کے سامنے جھکنے نہ دینے کی جدوجھد میں علماء مجتھدین، مبارزین کی عظیم قربانیوں کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ھم تک کس قدر قربانیوں اور زحمات کے بعد یہ دین پھنچا ہے، ھم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رھے ہیں، دین کے نام پر کیسی کیسی بدعات ایجاد کی جا رھی ہیں اور کیسے کیسے کاموں کو دین سے منسوب کیا جا رھا ہے، جو لوگ ایسا کر رھے ہیں، ان کا اس پر کچھ بھی خرچ نھیں ھوا، ھاں جن کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے، جن کو گالیاں دی جاتی ہیں، جن کو مجالس و محافل اور اجتماعات میں برا بھلا کھا جاتا ہے، ان کا بھت کچھ خرچ ھوا ہے، حتٰی ان لوگوں نے پھانسیاں لی ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کے خاندان ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، جیلیں ان کے صبر، استقامت اور صداقت کے گواہ ہیں، عقوبت خانے ان کی قربانیوں اور زحمات کی گواھی دیتے نوحہ کناں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ آج کی نسل کو جس طرح گمراہ کیا جا رھا ہے، علماء و مجتھدین سے برگشت و بیزار کرنے کی سازشیں ھو رھی ہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ ان بزرگان و محسنین کی قربانیوں کا تذکرہ بار بار کیا جائے اور نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ انھوں نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں۔ اس مکتب کو یھاں تک پھنچانے کیلئے، بالخصوص ان شخصیات کے مخصوص ایام کو شایان شان طریقہ سے برپا کرکے ھم ان مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کی جدوجھد، افکار و کردار اور شخصیت کے مختلف پھلوؤں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ کم سے کم حق ھوتا ہے، جسے ھم ادا کرسکتے ہیں۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر

Add comment


Security code
Refresh