www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : "میں اور علی ایک ھی شجرہ سے ہیں اور لوگ مختلف شجروں سے ہیں ۔یہ شجرہ کتنا بلند و بالا ہے اس درخت کا کیا کھنا جس سے

 سرور کا ئنات انسانی تھذیب کے قائد نبی اکرم (ص)اور آپ کے شھر علم کا دروازہ امام امیر المو منین علیہ السلام وجود میں آئے یہ وہ مبارک شجرہ ہے جس کی جڑ زمین میں ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام قرآن کی نظرمیں

 حضرت امام علی علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نازل ھوئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلام کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربھت اھمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ھوئی ہیں (۱)جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔ یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلامی شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ھوئیںآپ کی شان میں نازل ھونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
۱۔ وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ھوئی ہیں ۔
۲۔ وہ آیات جو آپ اور آپ کے اھل بیت کی شان میں نازل ھوئی ہیں ۔
۳۔ وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ھوئی ہیں ۔
۴۔ وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ھوئی ہیں ۔
ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کی جا رھیں ہیں :
۱۔ اللہ کا ارشاد ہے :"انماانت منذرولکل قوم ھاد"۔(۲)آپ کھہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ھوں اور ھر قوم کے لئے ایک ھادی اور رھبر ہے ۔
 طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:"اناالمنذرولکل قوم ھاد "،اور آپ نے علی کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:"انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي"۔(۳)آپ ھا دی ہیں اور میرے بعد ھدایت پانے والے تجھ سے ھدایت پا ئیں گے ۔
۲۔ خداوند عالم کا فرمان ہے :"وتعیھااذن واعیۃ"(۴)۔تاکہ اسے تمھارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں۔امیرالمو منین حضرت علی علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول خدا (ص) نے فرمایا:"سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَھَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ (ص) شَیْئاًفنَسِیْتُہُ "(۵)۔’ میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمھارا ہے لھٰذا میں نے رسول سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نھیں بھولا۔
۳۔ خداوند عالم کا فرمان ہے :"الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَھُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّھارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَۃً "تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔ فَلَھُمْ أَجْرُھمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْھمْ وَلاَھمْ یَحْزَنُونَ"۔(۶)جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پروردگارکے نزدیک اجر بھی ہے اور انھیں نہ کوئی خوف ھو گا اور نہ حزن و ملال۔
امام کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ نے ایک درھم رات میں خرچ کیا ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ (ص) نے آپ سے فرمایا : آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟ مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدۂ پروردگار کامستحق بنناچاھتا ھوں اسی لئے میں نے ایسا کیا اس وقت یہ آیت نازل ھوئی۔(۷)
۴۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :"إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ "۔(۸) ’’اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بھترین خلائق ہیں ۔
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ھم نبی اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی وھاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا:"وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ "۔’’خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ۔اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ھوئی ،اس کے بعد سے جب بھی مولائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کھا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(۹)
۵۔ خداوند عالم کا فرمان ہے :" فَاسْأَلُوا أَھلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ "۔(۱۰) ’’اگر تم نھیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔ طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ھوئی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ھم اھل ذکر ہیں ۔(۱۱)
۶۔ خداوند عالم کا فرمان ہے :" یَاأَیُّھاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اﷲَ لاَیَھْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِین"۔(۱۲) ’’اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پھنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ہے ۔
جب رسول اللہ (ص) حجۃ الوداع سے واپس تشریف لا رھے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ھوئی جب آپ کو اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ نے اپنا مشھور قول ارشاد فرمایا :"من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،اللّھم وال من والاہ،وعادِمَن عاداہ، وانصرمَن نصرہ،واخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ۔" جس کا میں مو لا ھوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں خدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر ۔عمر نے کھڑے ھو کر کھا :مبارک ھو اے علی بن ابی طالب آپ آج میرے اورھر مومن اور مومنہ کے مولا ھوگئے ہیں۔ (۱۳)
۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :" الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا"۔ ’’آج میں نے تمھارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اورتمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے"۔
یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ھجری کواس وقت نازل ھوئی جب رسول اللہ (ص) نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت(ص) نے اس آیت کے نازل ھونے کے بعد فرمایا : "اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَۃِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَالْوِلایَۃِ لِعَلِيْ بنِ اَبِیْ طَالِب"۔(۱۴)"اللہ سب سے بڑا ہے دین کامل ھو گیا ،نعمتیں تمام ھو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولایت سے راضی ھو گیا۔
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسول خدا(ص) کے ساتھ مسجد میں نمازظھر پڑھ رھا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نھیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ھاتھ اٹھا کر کھا : خدا یا گواہ رھنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نھیں دیا ، حضرت علی علیہ السلام نے رکوع کی حالت میں اپنے داھنے ھاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیا سائل نے آگے بڑھ کر نبی کے سامنے ھاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسول اسلام (ص)نے فرمایا :خدایا !میرے بھائی مو سیٰ نے تجھ سے یوں سوال کیا : "رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔وَیَسِّرْلي أَمْرِي۔وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِنْ لِسَانِی۔یَفْقَھوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِیرًامِنْ أَھلِي ھارُونَ أَخي اشْدُدْ بِہِ أَزْرِي۔وَأَشْرِکْہُ فِي أَمْرِی "۔(۱۵) "خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اھل میں سے میرا وزیر قرار دے ،ھارون کو جو میرا بھائی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے "تونے قرآن ناطق میں نازل کیا :" سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا"۔(۱۶) ’’ ھم تمھارے بازؤوں کو تمھارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمھارے لئے ایسا غلبہ قراردیں گے کہ یہ لوگ تم تک پھنچ ھی نہ سکیں گے "۔"خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ھوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اھل میں سے علی کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے " ۔
جناب ابوذر کا کھنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نھیں ھونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ھوئے ،اے رسول پڑھئے :"اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔"(۱۷)اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغۂ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ھوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام کی شان میں نازل ھونے کو یوں نظم کیا ہے :"مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً وَأَسَرَّھَافِيْ نَفْسِہِ اِسْرارا"۔(۱۸)’’علی اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ نے نھایت مخفیانہ انداز میں دیا۔
حوالہ جات:
۱۔ تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔
۲۔ سورۂ رعد، آیت ۷۔
۳۔ تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یھی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
۴۔ سورۂ حاقہ، آیت ۱۲۔
۵۔ کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔اسباب النزولِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔
۶۔ سورۂ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔
۷۔ اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ۶۴۔
۸۔ سورۂ بینہ، آیت ۷۔
۹۔ در المنثور "اسی آیت کی تفسیر میں "جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔
۱۰۔ سورۂ نحل، آیت ۴۳۔
۱۱: تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔ ۲۔سورۂ مائدہ ،آیت ۶۷۔
۱۲۔ اسباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔
۱۳۔ سورۂ مائدہ ،آیت ۳
۱۴۔ دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔
۱۵۔ سورۂ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔
۱۶۔ سورۂ قصص، آیت ۳۵۔
۱۷۔ تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔
۱۸۔ در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔
 

Add comment


Security code
Refresh