www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا نے ۱۷ دنوں تک شھر مقدس قم امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ھمیشہ مشغول عبادت رھیں 

اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رھیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰھی کے ساتھ بسر فرمائے ۔
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مختصر حالات
دل جس کے دیار میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں درمیان صفا و مروہ دیدار یار کے لئے حاضر ہے ، عطر بھشت ھر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کردیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ھمیشہ بھار ہے ۔ بھار قرآن و دعا ، بھار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بھاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بھار جو تشنہ کام روحوں کو سیراب کردیتی ہے ، ھر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ھوجاتا ہے ۔ ھر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو غریب محسوس نھیں کرتا ۔
یہ کون ہے ؟
اسے سب پھچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔
کیونکہ یہ حرم ، حرم اھل بیت علیھم السلام ہے ۔ مدفن یادگار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، نور چشم موسیٰ بن جعفر علیھا السلام ، آئینہ نمائش عفت و پاکی، حضرت فاطمہ ثانی سلام اللہ علیھا ہے ۔ وہ کہ جو خود مکتب علوی کی تعلیم یافتہ اور خاندان نبوی کے اسرار میں سے ایک راز ہے جس کی ولادت سے قبل صادق آل محمد علیھم السلام نے اس کے آنے کی نوید دیدی تھی ۔
خاندان زھرا علیھا السلام کی ایک دختر جو انھی کی طرح ولایت و امامت کی حامی تھی اورزینب کبریٰ علیھا السلام کی طرح شایستگان کی قافلہ سالار تھی اگر حضرت زینب علیا مقام کی فریادوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا تو فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی فریادوں نے بنی عباس کو ، آپ کی مدینے سے مرو اور خراسان کی طرف الٰھی سیاسی حرکت در حقیقت زمانے کے طاغوت کے خلاف ایک سفر تھا ۔ اگر چہ وہ اپنے بھائی اور امام زمان کی زیارت نہ کرسکیں لیکن اپنا پیغام پھنچادیا ۔
آپ نے خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اور محبان اھلبیت کے ھمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ھر زمانے میں مادی و طاغوتی طاقتیں اسلام حقیقی کے تربیت یافتہ جیالوں کے سامنے بولی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے یزید کے منھ در منھ فرمایا :" انی استصغرک " (۱) میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ھوں اور تجھے بھت ذلیل و رسوا سمجھتی ھوں ۔
اگر چہ زینب دوراں کی حرکت منزل مقصود تک نہ پھنچ سکی اور آخر کار دختر آفتاب اپنے اس پر برکت سفر میں دیدار حق کے لئے روانہ ھو گئی اور اپنی شھادت سے سب کو سوگوار بنادیا ۔ لیکن کچھ ھی زمانے کے بعد دنیا اس عظیم سفر کے ثمرات کو مشاھدہ کرنے لگی ، یہ اس وقت سمجھ میں آیا جب اس بے کراں کوثر عترت کے صدقے میں علوم و معارف کے چشمے ابلنے لگے اور قم یہ حریم مقدس فاطمی اسلام کے حیات بخش معارف کے نشر کا مرکز قرار پا گیا اور دنیا کے ستمگروں کے خلاف علم کا محور بن گیا ۔
یہ تمام چیزیں اس کی طلبگار ہیں کہ اس عظیم خاتون کی زندگی پر گفتگو کی جائے خصوصا نوجوان نسل کو آپ سے آشنا کیا جائے ۔
فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کون ہیں؟
آپ کا اسم مبارک فاطمہ اور القاب معصومہ، ستی (۲)، اور فاطمہ کبریٰ ہیں ۔ آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیھما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں کہ جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں ۔ (۳)
ولادت سے ھجرت تک
آپ نے پھلی ذی القعدہ ۱۷۳ ھجری میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جھان میں تشریف لائیں اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰(۴)یا بارہ۱۲ (۵) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شھر قم میں اس دار فانی کو وداع کردیا ۔
مشھد مقد کی طرف ھجرت
امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شھر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ھمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عھد کے قصد سے عازم سفر ھوئیں راستہ میں ساوہ پھنچیں لیکن چونکہ وھاں کے لوگ اس زمانے میں اھلبیت علیھم السلام کے مخالف تھے لھذا حکومتی کارندوں سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ھمراہیوں میں سے بھت سارے افراد شھید ھوگئے(۶) حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ھوگئیں اور شھر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شھر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ھمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ (۷) اس طرح حضرت وھاں سے قم روانہ ھوگئیں ۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ھوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ھاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا اھل قم کے عشق اھلبیت علیھم السلام سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ھوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔ (۸)
بی بی مکرمہ نے ۱۷ دنوں تک اس شھر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ھمیشہ مشغول عبادت رھیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رھیں اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰھی کے ساتھ بسر فرمائے ۔
غروب ماھتاب
آخر کار وہ تمام جوش و خروش ، ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے سے اور دختر فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا کی زیارت سے اھل قم کو میسر ھوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طھارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ھوگئے ۔
آپ کی اس نا بھنگام وفات اور مرض ، کے سلسلے میں کھا جاتا ہے کہ ساوہ میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا تھا ۔ (۹) دشمنان اھل بیت علیھم السلام کا اس قافلے سے نبرد آزما ھونا اور اسی میں بعض حضرات کا جام شھادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وھاں سے سفر کرنا ، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نھیں ہے ۔
ھاں بی بی معصومہ نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیھا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقانیت رھبران واقعی کی امامت کی سند گویا پیش کردی اور ماٴمون کے چھرہ سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی قھرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا ۔
فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا ۔ اسی درمیان تقدیر الٰھی اس پر قائم ھوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطھر ھمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے عدالتی کے خلاف قیام کرنے کا بھترین نمونہ قرار پا جائے اور ھر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الھام الٰھی قرار پائے ۔
تجھیز و تکفین
شفیعہ روز جزاء کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا ۔ کفن پھنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی ۔ لیکن دفن کے وقت محرم نہ ھونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ بنام " قادر " اس عظیم کام کو انجام دیں ، لیکن قادر حتی دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اھل بیت علیھم السلام کے جنازے کو ھر کس و ناکس سپرد خاک نھیں کرسکتا ہے لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگھاں لوگوں نے دو سواروں کو دیکھا کہ ریگزاروں کی طرف سے آرھے ھی جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پھنچے تو نیچے اتر گئے پھر نماز جنازہ پڑھی اور اس ریحانہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسد اطھر کو داخل سرداب ( جو پھلے سے آمادہ تھا ) دفن کردیا ۔ اور قبل اس کے کہ کسی سے گفتگو کریں سوار ھوئے اور روانہ ھوگئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پھچانا ۔ (۱۰)
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی فرماتے تھے کہ بعید نھیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رھے ھوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دھی کے لئے قم تشریف لائے ھوں ۔
حضرت کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطھر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رھا ۔ مگر جب حضرت زینب دختر امام محمد تقی علیہ السلام قم تشریف لائیں تو مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا ۔ (۱۱)
حوالہ جات:
۱۔ خطبہ حضرت در شام ۔
۲۔ سیدہ اور سردار کے معنی میں استعمال ھوتا ہے ۔
۳۔ دلائل الامامہ ،ص ۳۰۹ ۔
۴۔ وسیلہ المعصومہ بنقل نزھۃ الابرار ۔
۵۔ مستدرک سفینۃ البحار ج ۸ ،ص ۲۵۷ ۔
۶ ۔ زندگانی حضرت معصومہ ، آقائے منصوری ، ص ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
۷ ۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی ، ص۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ، آقائے انصاری ۔
۸۔ تاریخ قدیم قم ،ص ۲۱۳ ۔
۹۔ وسیلۃ المعصومیہ : میرزا ابو طالب بیوک ،ص ۶۸ ، الحیاۃ السیاسۃ للامام الرضا علیہ السلام ، جعفر مرتضیٰ عاملی ،ص ۴۲۸ ، قیام سادات علوی ، علی اکبر تشید ،ص ۱۶۸ ۔
۱۰۔ تاریخ قدیم قم، ص ۲۱۴ ۔
۱۱۔ سفینۃ البحار، ج۲، ص ۳۷۶ ۔
ماخوذ : کتاب حیات طیبہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا قم
 

Add comment


Security code
Refresh