www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھماری ذمہ داریاں

تمام مسلمانوں اور خصوصاً علمائے اسلام کے کاندھوںپر تو بھت سی ذمہ داریاں ھیں جنکو اگر نبھایا جائے تو مسلمان ھر درد و غم سے نجات پا سکتا ھے لیکن اس مقام پر صرف چند وظائف کی طرف اشارہ کیا جا رھا ھے:

 ۱۔ مسلمانوں کے امور کی طرف توجہ دینا اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرنا :پیغمبر اسلام فرماتے ھیں : "من اصبح ولم یھتم باٴمور المسلمین فلیس منی عنی" جو مسلمان اس حالت میں رات گذار دے کہ مسلمانوں کے امور کے سلسلہ میں چارہ اندیشی نہ کرے تو وہ مجھ سے نھیں ھے۔

لھذا ھر مسلمان کا فریضہ ھے کہ دوسرے مسلمان کے ھر طرح کے اقتصادی ، علمی ،ثقافتی اور سیاسی امور میں اپنی توانائی کے مطابق امداد کرے۔  اس سلسلہ میں علماء اور دانشوران اسلام کی ذمہ داری عام مسلمان کے وظائف سے کھیں زیادہ ھے۔

۲۔ بیان شدہ اندرونی اور بیرونی مشکلات سے مقابلے کے لئے علماء، دانشوروں اور بارسوخ شخصیتوں کی اپنے بیانات ،مضامین ، تحریروں اور مختلف تحریکوں کے ذریعہ سعی و کوشش ۔

 ۳۔مسلمانوں کے مثبت نکات، انکی اسلامی غیرت اور دینی جذبات سے مکمل طور پراستفادہ کرتے ھوئے انھیں اسلام مخالف سیاستوں سے آگاہ کرنا اور قرآن و اسلام کے احکام پر صحیح طریقہ سے عمل کرنے کی دعوت دینا۔

 ۴۔چوتھی ذمہ داری جو سب سے اھم ھے اور جسکا بیشتر تعلق علماء اور بااثر ورسوخ شخصیتوں سے ھے وہ یہ ھے کہ وہ لوگ مسلمانو ں کو اختلافات پر اکسانے کے بجائے ان کے درمیان محبت و دوستی اور اتحاد کا بیج بونے کی مسلسل کوشش کرتے رھیں اس لئے کہ اتحاد ھی ایسی دوا ھے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ھر طرح کے دردوغم کا مداوا ھو سکتا ھے اور وہ اپنی کھوئی ھوئی عزت اور اقتدار کو دوبارہ حاصل کرسکتے ھیں۔

حج تجلی گاہ اتحاد

ھجرت کا دوسرا سال تھا ،اسلام نو مولود تھا ،پیغمبراسلام بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز بجا لانے میں مصروف تھے کہ جبرئیل امیننازل ھوئے اور حضور اکرم(ص) کا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل کردیا اور آپ نے اس نماز کی باقی دو رکعتوں کو بیت اللہ الحرام کی طرف رخ کرکے ادا کیا ۔

تاریخ کا یہ عظیم مرحلہ اگر چہ خانۂ کعبہ کی قدر وقیمت اور بزرگی و عظمت کو ثابت کررھا ھے لیکن اس زمانے کے اکثر مسلمانوں کے لئے تبدیلی قبلہ کا فلسفہ اور اسکی حکمت واضح نھیں تھی لیکن آھستہ آھستہ کچہ مدت کے بعد تمام وابستگان ذات احدیت کے لئے یہ امر بخوبی آشکار ھو گیا کہ خدائے منان نے کعبۂ معظمہ کو کو اتحادواستقلال کا محورومرکز بنا دیا ھے اور اس ذات دانا نے اس تجلی گاہ اتحاد پر مسلمانان عالم کے اجتماع کو انکی شان و شوکت ،عظمت و جلالت، عزت واقتدار اور معنوی و مادی رشدوکمال کا سرچشمہ قرار دیا ھے ۔

ھاں! کعبہ خلیل  اللہ کے قدرت مند ھاتھوں کے ذریعہ تعمیرھوا تاکہ مرکز توحید اور عنوان اتحاد بنے ۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں جب کعبہ معظمہ کی تعمیر نو کامرحلہ آیا توایک حد تک دیوار کھڑی کرنے کے بعد حجرالاسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں قبائل عرب میں اختلاف پیدا ھو گیا کہ یہ عظیم افتخار کس قبیلہ کو نصیب ھو۔آخر کار سب نے اس بات پر اتفاق کر لیاکہ اس سلسلہ میں رسالت مآب کا جو نظریہ ھوگا وھی نافذ ھوگا ۔آنحضرت  نے حکم فرمایا

کہ ایک عبا زمین پر بچھا کر حجرالاسود کو اس عبا میں رکہ دیا جائے اور ھر قبیلہ اس عبا کے ایک گوشہ کو تھام کر خانہ کعبہ تک لائے ،جب سب نے اس حکم پر عمل کیااور حجرالاسودکعبہ کی دیوارکے نزدیک آگیاتو حضور اکرم نے اپنے دستھائے مبارک سے اسے دیوار کعبہ میں نصب کردیا ۔(۱۰)

پیغمبر اسلام نے اپنے اس خدا پسندانہ عمل سے اپنی امت کو عمومی اتحاد کی طرف دعوت دی ھے ۔آنحضرت  کا یہ عمل اتحاد اور ھمدلی کا ایک ایسا درس ھے جسمیں قیامت تک آنے والے فرزندان توحید کے لئے چند اھم نکات پوشیدہ ھیں:

۱۔ دو مختلف قبیلوں یا گروھوں میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ کو حل وفصل کرنے کی غرض سے فھیم اور سنجیدہ افراد آگے بڑھیں۔

۲۔اختلافی مسائل کو حل کرنے میں عدالت و مساوات کا ضرور خیال رکھا جائے۔

۳۔ فھیم افراد کی سعی و کوشش، تلخیوں کو حلاوت اور اختلافات کو وحدت میں تبدیل کر سکتی ھےں۔

۴۔ مقدس اور الھی مقامات سر چشمہٴ وحدت واتحاد ھونے چاھئیں نہ کہ مرکز نفرت و اختلاف۔

حضرت ختمی مرتبت(ص) نے اس درس کے ذریعہ کعبہ معظمہ کو منادی اتحاد کے عنوان سے دنیا کے سامنے پیش کیا ھے ۔یہ خانۂ خدا صرف منادی توحید واتحاد ھی نھیں بلکہ مساوات "سواءً العاکف فیہ والباد"(۱۱)،آزادی واستقلال طلبی "البیت العتیق"(۱۲) ،طھارت وپاکیزگی "طھّر بیتی"(۱۳) ،اور قیام اور استواری"قیاماًللناس"(۱۴)،کا کامل مظھر بھی ھے۔

حضور اکرم(ص) نے اپنی اس خوبصورت روش کے ذریعہ سیئات کو حسنات اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کر دیا ۔اسی لئے تو آج تک بیت اللہ الحرام سے اتحاد کا ضمضمہ سنائی دیتا ھے، اسکی دیواریں بظاھر خاموش مگر در حقیقت گویا ھیں اور ایک ایک فرزند توحید سے متحد ھونے کی التجا کر رھی ھیں کہ اے مسلمان! متحد ھو جا!اپنی گرانقدر میراث کولٹنے نہ دے! اپنی کھوئی ھوئی عزت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کوشاں ھو جا ! بے حیائی کا لباس اتار پھینک ! استکباری نظام کے زیر سایہ نہ رہ اور الھی رنگ میں رنگ جا!

Add comment


Security code
Refresh