www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چودہ سے لے کر اکیس سال تک کا زمانہ بلوغ وجوانی کا زمانہ کھلاتا ہے،اس زمانے میں ایک نوجوان کے جسم وجان میں بھت جلد تبدیلیاں رونما ھوتی ہیں اور ایک قلیل مدت کے لئے نوجان کی افکار اور اس کے جسم کے اعضاء میں مکمل طور پر تبدیلیاں رونما ھوتی ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمانے کو نوجوان کی شخصیت اور اس کے معنوی اقدار کو مد نظر رکھتے ھوئے اسے لفظ وزیر کے نام سے یاد کیا ہے۔

لغوی اعتبار سے وزیر کے متعدد معنی ہیں اور اس شخص کو کھا جاتا ہے جسے بھت بڑی اور اھم ذمہ داری سونپی گئی ھو ،اسی وجہ سے اس شخص کو وزیر کھا جاتا ہے جو ایک ملک کسی ایک اھم مقام کا مالک ھو ،ایک بچہ بلوغ سے پھلے اپنے ماں باپ کے زیر سایہ زندگی گزارتا ہے اور وہ اپنے معاشرے میں آزاد ھوتا ہے اور اس کے کاندھے پہ کوئی ذمہ داری نھیں ھوتی لیکن وہ جن مرحلہ بلوغ کو پھنچتا ہے تو اس پہ ذمہ داریان عائد ھوجاتی ہیں۔

وزیر کے معنی دوستی اور حمایت کے ہیں،سوچ تدبیر وغیرہ میں ھمفکری اور ھم آھنگی کو بھی کھا جاتا ہے،نوجوان اپنی گھریلو زندگی میں اپنے ماں باپ کا معاون ھوتا ہے لھذا اسے اپنے والدین کی مدد کرنی چاھئے اور زندگی کے تمام مسائل میں ان کے ساتھ مشورہ کرتے ھوئے ان کا معاون وھمکار بن کر رھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس کلام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھانا چاھتے ہیں کہ خانوادہ ایک ملک کی مانند ہے جس میں ماں باپ حکمراں انجمن کی مانند ہیں، بچپنے کے زمانے میں بچے جب تک اپنے عقلی کمال تک نھیں پھنچتے تب تک وہ خانوادہ کے بنیادی فیصلوں میں اظھار نظر نھیں کرسکتے اور ان کا صرف وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے اوامر ونواھی کی پیروی کریں ،لیکن جب بالغ ھوجاتے ہیں تو انھیں چاھئے کہ ملک کی مانند اس خانوادہ کی بعض ذمہ داریاں سنبھالیں،اور نوبت بہ نوبت اظھار نظر کریں اور ان کی افکار والدین کے لئے مورد توجہ قرار پائے۔

اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نوجوانوں کے لئے لفظ وزیر کا استعمال کیا ہے اور ان کی شخصیت کو مورد احترام قراردیا ہے، اگر والدین پیغمبر اسلام صلی اللہ وآلہ وسلم کے دستور پہ عمل پیرا ھوجائیں اور نوجوانوں کو گھریلو زندگی میں مشورت اور فکری ھمکاری کی دعوت دیں تو گویا انھوں نے ان کی معنوی اقدار کو مورد توجہ قرار دیا ہے اور اس طریقہ سے انھوں نے اپنے بچوں کا احترام کیاہے۔

قال الصادق علیہ السلام: ابنک یلعب سبع سنین ویودّب سبع سنین والزمہ نفسک سبع سنین۔(۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا" اپنے بچے کو سات سال آزاد رکھو تاکہ وہ س امانے میں کھیل کود میں رھے اس کے بعد سات اسے لازم ومفید آداب کے ذریعہ تربیت کرو،اور اس کے بعد سات سال ایک گھرے دوست کی طرح اس کے ساتھی بن کے رھو۔

اس حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے نوجوانوں کی اھمیت اور ان کی عزت وحترام کو بیان کرتے ھوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب نوجوان پندرہ سال کا ھوجائے تو ماں باپ کے لئے اس کا احترام لازمی ہے، مذھب کے اعتبار سے نوجوانوں کا احترام ماں باپ کے اھم وظائف میں سے شمار کیاگیا ہے، اگر نوجوانوں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آئندہ کی زندگی میں اس کے بھتر اثرات ظاھر ھوسکتے ہیں۔

رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام شرح نراقی
     

Add comment


Security code
Refresh