www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حوالے
1و2۔ان مطالب کی تفصیل دوسرے حصہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
3۔الصواعق المحرقھ،ابن حجر ،فصل دوم ۔باب نھم ،حدیث 41ص/57
4۔رسالة الاسلام،طبع مصر ،شمارہ سوم،گیارھواںسال
.5شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/472۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اھل سنت نے بیان کی ھیں لیکن اختصار کے پیش نظر ھم ان سے گریز کرتے ھیں۔
.6التمھید ص/1۸6
.7شرح مقاصد ،ج/2،ص/271
.8چونکہ شیعہ علماء اھل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰھی منصب سمجھتے ھیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ھیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰھی سرپرستی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ھے۔
.9مائدہ /3 ۔ یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا․
.10اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ھمیں ضرورت نھیں ھے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ھے۔علامہ امینی ۺنے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ھے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔
11۔تاریخ طبری ،ج/2، ص/172
.12تاریخ کامل، ج/2،ص/63
13۔تاریخ طبری ج/2،ص/62۔63․ تاریخ کامل ج/2،ص/40۔41․ مسند احمد ،ج/1،ص/111 ۔اور دیگرمآخذ
.14سورہ احقاف/15
.15سورہ بقرہ /232
16۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ھیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض“
.17اصول کافی ،ج/1ص/170
.18اصول کافی ،ج/1ص/172
.19اصول کافی ،ج/1ص/17۸
20۔سورہ طور/30
.21الدرجات الرفیعہ ص/77 حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ” ما زلت علی و الاسلام و اھلہ “ تو ھمیشہ اسلام اور اھل اسلام کا دشمن رھا ھے ۔ الاستیعاب ،ج/2ص/690
.22یہ حدیث شیعہ و سنی دونوں ماخذ میں تواتر کے ساتھ آئی ھے․
.23شفاء،الالھیات، فصل یکم از مقالہ دھم ص/4۸۸،تحقیق آیة ا․․․حسن زادہ آملی
.24سیمائے شجاعان ،ص/33و34
.25سیمائے شجاعان ،ص/34
.26سورہ بقرہ /216
.27شرح مواقف ،ج/3ص/265
.28الاحکام السلطانیہ ،ص/4
.29التمھید ، ص 17۸۔
.30آل عمران /159
.31شوریٰ /3۸
.32سیرہ ابن ھشام ، ج/1ص/615 ،مغازی واقدی ص/4۸
.33سیرہ ابن ھشام ، ج/2،ص/63 ،مغازی واقدی،ج / ،1 ص/209
.34تاریخ کامل ،ج/2ص/122
.35مغازی واقدی ،ج/3ص/925
.36مغازی ،واخدی،ج/3 ص/925
.37 احزاب /36
38۔وجادلھم بالتی ھی احسن )(نحل/ 125)
39۔1۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 14، ص 36
40شرح نھج البلاغہ ، ج1 ، خطبہ شقشقیہ ۔
41۔ و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اٴردت اٴن تذم فمدحت ، و اٴن تفضح فافتضحت و علی المسلم من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینہ و لا مرتاباً بیقینہ “ ( نھج البلاغہ ، خط 28)
42۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج ھذا الاٴمر من بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن اٴھل بیتہ ولا انّھم منحوہ عنی من بعدہ فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونہ..․“ (نھج البلاغہ ، خط 62)
43۔آل عمران /154۔
44۔آل عمران : 144
45۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔
46۔الامامة و السیاسة ج 1، ص 5
47۔ الامامة و السیاسة ج 1 ، ص 5۔
48۔انصار نے دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوھن ، یہ تجویز ھماری کمزوری کی نشانی ھے
49۔ آیندہ بحث میں اس سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ھوگی۔
50۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج3،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج1، اور شرح ابن ابی الحدید ج2 ص 22 ۔60 سے نقل کیا گیا ھے ۔
51۔سیرہ ابن ھشام ، ج4، 308۔ ارشاد شیخ مفید ، ص 260
52۔( لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) ( زخرف / 31) و نیز رجوع کریں اسراء /90 ۔91)
53۔ بقرہ / 207۔
54۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ 64)
55۔الله الله یا معشر المھاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اٴھلہ عن مقامہ فی الناس و حقّہ ، فو الله یا معشر المھاجرین لنحن اٴحق الناس بہ ، لاٴنا اٴھل البیت و نحن اٴحقّ بھذا الاٴمر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع باٴمر الرعیة ، المدافع عنھم الاٴُمور السیئّة ․ القسم بینھم با لسویة، و الله انّہ لفینا ، فلا تتبعو الھوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج1 ، ص 12 ، احتجاج طبرسی ، ج1 ، ص 96)
56۔ اٴنا اٴولی برسول الله حیاً و میّتاً و اٴنا وصیّہ و وزیرہ و مستودع سرّہ و علمہ ، و اٴنا الصّدیق الاٴکبر و الفاروق الاٴعظم، اٴوّل من آمن بہ و صدّقہ ، واٴحسنکم بلاءً فی جھاد المشرکین، و اٴعرفکم بالکتاب و السنة ، اٴفقھکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الاٴمور و اٴذر بکم لساناً و اٴثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی ھذا الاٴمر ( احتجاج طبرسی ، ج 12 ، ص 95)
57۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ 168۔
58۔لامامة و السیاسة، ج 1 ص 12
59۔ تاریخ طبری ،ج3 ، ص 234 ۔
60۔ صحیح بخاری ج 2، ص 25۔
61۔ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22۔
62۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج 6، ص 52 ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔
63۔ احزاب /6
64۔ مائدہ /48
65۔ التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔
66۔ التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔
67۔ سریہ اس جنگ کو کھتے ھیں جس میں آنحضرت شامل نہ تھے۔
68۔ انبیاء / 72 ، یوسف / 22۔
69۔ یوسف / 101
70۔نحل /44
71۔جمعہ /2
72۔ بقرہ / 247
73۔ احتجاج طبرسی ، ج 1، ص 353 ، تلخیص کے ساتھ
74۔”ان الاٴئمة فینا و ان الخلافة لا تصلح الّا فینا و انّ الله جعلنا اھلہ فی کتابہ وسنة نبیہ و ان العلم فینا و نحن اھلہ و انہ لا یحدث شیٴ الی یوم القیامة حتی ارش الخدش الّا وھو عندنا“ ( احتجاج طبری ، ج 3 ص 6)
75۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک کی جنگ پر جانے کا فیضلہ کیا تو، حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرکے فرمایا” انت منی بمنزلة ھارون من موسی الّا انہ لا نبی بعدی“ تم میرے لئے ویسے ھی ھو جیسے ھارون موسی کےلئے تھے ، فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا ، پیغمبر اسلام نے اس جملہ سے ، نبوت کے علاوہ تمام منصبوں کو علی(ع)کےلئے ثابت کردیا
76۔ حدیث غدیر کی تفصیل انیسویں فصل میں آئے گی ۔
77۔ یھاں مقصود حدیث ثقلین ھے کہ اس کے بارے میں بائیسوں فصل میں گفتگو آئے گی ۔
78۔ پیغمبر نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سلّموا علی علیّ بامرة المؤمنین ۔
79۔ نساء / 54
80۔ نھج البلاغہ ، خطبہ سوم
81۔ حشر / 7۔
82۔ مسند احمد ، ج 1، 2۔14۔
83۔ تاریخ الخلفاء ، ص 59 ۔ 66۔
84۔ الغدیر ج 7 ص 108
85۔ سیرہ حلبی ، ج 3 ، ص 34، بحار ج 22، ص 157۔
86۔ مغازی واقدی ، ج2، ص 766 ، بحار ، ج21، ص 54 ۔
87۔ انعام / 164
88۔ طبقات ابن سعد، ج 3،ص 151۔
89۔ موطاٴ ابن مالک ص 335۔
90۔ سنن بیھقی ، ج8 ص 273۔
91۔ سنن ابن ماجہ ، ج 1، ص 200۔
92۔ نساء ․ 43، مائدھ/ 6۔
93۔ الدر المنثور ج1،ص 21۔
94۔ مسند احمد ، ج 1 ،ص 192۔
95۔ نساء/ 20
96۔ ”کل الناس افقہ من عمر”
97۔ الغدیر ، ج 6․ ص 87 ( اھل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)
98۔ اس کی تفصیل پانچویں فصل میں گزری ھے ۔
99۔ الاٴضواء ، ص 204
100۔ سنن بیھقی ، ج 8 ص 33۔
101۔توبہ / 100۔
102۔ فتح /18۔
103۔احزاب / 12
104۔توبہ / 47۔
105۔ سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 430۔
106۔ چرا مسیحی نیستم
107۔ حشر / 8۔
108۔ (مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَ الَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّآءُ عَلَٰی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تَرٰیھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِمْ مِنْ اٴَثَرِ السُّجُودِ)( فتح/ 29)
109۔( وَعَدَ اللهُ الّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَةً وَ اٴَجْراً عَظِیماً) (فتح/ 29)
110۔توبہ/ 96۔
111۔آل عمران /57۔
112۔زمر /65
113۔ نعام / 93۔
114۔ الاصابة ، ج 2، ص 38
115۔ ان افراد میں سے ھر ایک کی زندگی کے حالات علم رجال کی کتابوں ، جیسے : الاستیعاب ،الاصابة ، اسد الغابة وغیرہ میں درج ھیں
116۔ حجرات / 6۔
117۔ مذکورہ افرادا ن منافقوں کے گروہ کے علاوہ ھیں جن کی داستان مفصل ھے ۔
118۔ انعام / 88۔
119۔ غایة المرام ، ص 107 ۔ 152۔
120۔ المراجعات ، ص 131۔ 132
121۔ صحیح بخاری ج 3، ص 58 ، صحیح مسلم ج 2 ص 323۔
122۔ صحیح مسلم ، ج 7 ص 120۔
123۔ طٓہ / 29۔30۔
124۔ طٓہ / 31۔
125۔ طٓہ / 32
126۔ طہ/ 36اس کے علاوہ قرآن مجید ایک دوسری آیت میں حضرت ھارون (ع)کی نبوّت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے :
(وَوَھَبْنَا لَہ من رَحْمَتِنَآ اٴَخاَہ ھَٰرُونَ نَبِیًّا)(مریم / 53)
127۔ اعراف / 142۔ ایک اور آیت میں حضرت ھارون کی وزارت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے:
(128) (فرقان / 35 )
129۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملہ کو مختلف مواقع پر سات بار بیان فرمایا ھے ، لیکن ھم اختصار کی وجہ سے یھاں پر صرف دو مورد کا ذکر کرتے ھیں۔
130۔ کنز العمال ، ج 6، ص 395 ، حدیث نمبر 6032 ۔
131۔ منتخب کنزل العمال ( مسند کے حاشیہ میں ) ج 5، ص 31
132۔ المراجعات / ص 141 ، 147
133۔جیسے ، ورقةبن نوفل جس نے عیسائی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذھب قبول کرلیا تھا۔
134۔طور/ 30 ۔32
135۔سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 172
136۔ سیرہ ابن ھشام ، ج1 ص 386، 410
137۔ مائدہ /67
138۔ فخرر ازی نے اپنی تفسیر (ج3، ص 635) میں پیغمبر کی اس ماموریت کے بارے میں دس احتمالات بیان کئے ھیں جب کہ ان میں سے ایک احتمال بھی __ جبکہ ان کا کوئی صحیح ماخذ بھی نھیں ھے __ مذکورہ دو شرائط کا حامل نھیں ھے ، جنھیں ھم نے مذکورہ آیت سے اس کے موضوع کے تحت بیان کیا ھے ، ان میں سے زیادہ تر احتمالات ھرگز اس قدر اھم نھیں ھیں کہ ان کے نہ پھنچانے پر رسالت کو کوئی نقصان پھنچتا یا پیغامات کا پھنچانا خوف و وحشت کا سبب بن جاتا یہ احتمالات حسب ذیل ھیں :
1۔ یہ آیت ، گناھگار مردوں اور عورتوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں ھے ۔
2۔یہ آیت ، یھودیوں کے پیغمبر پر اعتراض کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔
3۔ جب قرآن مجید نے پیغمبر کی بیویوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ دنیا کے زر و زیور کو چاھیں گی تو پیغمبر ا ن کو طلاق دیدیں گے ، پیغمبر اس حکم الھی کو پھنچانے سے ڈرتے تھے کہ کھیں وہ دنیا کو ترجیح نہ دیں۔
4۔ یہ آیت ، پیغمبر کے منہ بولے بیٹے زید کے واقعہ سے متعلق ھے کہ پیغمبر کو خدا کی طرف سے حکم ھوا کہ وہ زید کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرلیں۔
5۔ یہ آیت لوگوں اور منافقین کو جھاد کی طرف دعوت دینے سے مربوط ھے ۔
6۔ بتوں کی برائی کرنے سے پیغمبر کی خاموشی سے مربوط ھے۔
7۔یہ آیت حجة الوداع میں اس وقت نازل ھوئی ھے جب پیغمبر شریعت اور مناسک بیان فرمارھے تھے۔
8۔ پیغمبر قریش ، یھود اور نصاری سے ڈرتے تھے اس لئے یہ آیت آپ کے ارادے کو قوت بخشنے کےلئے نازل ھوئی ھے۔
9۔ ایک جنگ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں آرام فر مارھے تھے ، ایک عرب ننگی تلوار لے کر پیغمبر پر حملہ آور ھوا اور آپ سے مخاطب ھوکر کھا: ” اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ھے“ ، پیغمبر نے جواب میں فرمایا: ” خدا “ اس وقت دشمن پر خوف طاری ھوا وہ پیچھے ھٹ گیا اور اس کا سر درخت سے ٹکرا کر پھٹ گیا ، اس وقت یہ آیت نازل ھوئی (والله یعصمک من الناس) آیہ شریفہ کے مفاد کا مذکورہ احتمالات کے مطابق ھونا ( مثلا ً آخری احتمال) بھت بعید ھے جب کہ غدیر خم کے واقعہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے ۔
1۔ مرحوم علامہ امینی نے ان تیس افراد کے نام اور خصوصیات اپنی تالیف ، الغدیر ، ج 1، ص 196 ۔ 209۔میں مفصل بیان کئے ھیں ان میں ، طبری ، ابو نعیم اصفھانی ، ابن عساکر ، ابو اسحاق حموینی اور جلال الدین سیوطی وغیرہ جیسے افراد بھی شامل ھیں کہ انھوں نے ابن عباس، ابو سعید خدری اور براء بن عازب سے یہ حدیث نقل کی ھے ۔
139۔ خاص طور پر عرب قوم میں ھمیشہ بڑے عھدوں کو قبیلہ کے عمر رسیدہ لوگوں کے سپرد کرنے کی رسم تھی اور جوانوں کو اس بھانے سے ایسے عھدے سونپنے کے قائل نہ تھے کہ جو ان زمانہ کا تجربہ نھیں رکھتے ھیں ۔ لھذا جب پیغمبر نے ” عتاب بن ولید“ کو مکہ کا گورنر اور اسامہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا تو عمر رسیدہ لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا پھر لوگ اس امر کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ حضرت علی(ع)دیگر جوانوں سے مختلف ھیں ، یہ لائق اور شائستہ شخص الھی عنایتوں کے سایہ میں ایسے مقام تک پھنچا ھوا ھے کہ ھر قسم کی خطا اور لغزشوں سے محفوظ ھے اور ھمیشہ عالم بالا سے امداد حاصل کرتاھے۔
140۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر نے اس جملہ کو چار بار فرمایا
141۔ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ 3)
142۔فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
143۔ احتجاج طبرسی ، ج 1 ص 71 تا 74 طبع ، نجف ۔
144۔ آیہ ، ( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ") (مائدہ / 67 )، اور آیہ شریفہ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی") (مائدہ /3)
145۔ وفیات الاعیان ، ج1، ص 60 ۔
146۔ وفیا ت الاعیان ، ج1، ص 223۔
147۔ التنبیہ و الاشراف ، ص 22 ۔
148۔ ثمارة القلوب ، ص 511۔
149۔حدید/ 15
150۔ ای اولی لکم ما اسلفتم من الذنوب۔
151۔ حج / 13۔
152۔ احزاب 6
153۔ مناقب خوارزمی ص 80 وغیرھ۔
154۔ حجرات / 15
155۔توبہ / 71
156۔ سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رھے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/177تاص192 میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ھے ۔
اس کتاب کے موٴلف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ" کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ھے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماٴخذ کے ساتھ بیان کئے ھیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ھوگی۔
157۔صحیح بخاری ج/1،ص/22(کتاب علم)
158۔نور /63
159۔حجرات /1
160۔الحجرات/7
161۔مناقب خوارزمی ،ص/217
162۔الغدیر، ج/1،ص/153۔171
163۔فرائد المسطین،باب58۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ھے۔
164۔ ینابیع المودة ص/482
165۔ مزید آگاھی کے لئے ”الغدیر “ ج/1ص/146تا ص/195 ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ھیں۔
166۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ھیں کوئی بھت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.
167۔فیض القدیر ،ج/3ص/14
168۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث 135
169۔ ینابیع المودة ص/32وص/40
170۔ مستدرک ،حاکم ،ج/3ص/109 وغیرھ
171۔ بحار الانوار ج/22ص/76نقل از مجالس مفید
172۔ الصواعق المحرقہ ،ص/75
173۔احتجاج ج/1،ص/210
174۔احتجاج طبرسی،ص/228
175۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/914کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔
176۔ مستدرک حاکم ،ج/3،ص/343۔کنز العمال ،ج/1،ص/250۔صواعق،ص/75۔ فیض القدیر،ج/4،ص/356۔
177۔ ”یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و ظھورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون“ سورہ توبہ /35
178۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ھوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناھوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ھوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔
179۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ھے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاھے وہ رھبری سے پھلے کی زندگی ھو یا اس کے بعد والی زندگی ھر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ھو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ھے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ھوتے ھوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ھیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ھیں ،ممکن ھے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نھیں کر سکتے ۔
ساتھ ھی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ھے کہ رھبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ھونا چاھئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ھے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نھیں ھوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ھے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نھیں ھے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ھے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ھے اور لوگ ایسے شخص سے دور ھو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ھو ۔
180۔ احزاب /32
181۔ یہ وھی صاحبان امر ھیں جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ھیں ۔یا کم از کم مصداق ”اولی الامر“ھیں۔
182۔ نساء /59
183۔ بقرہ /124
185۔ صحیح مسلم ،ج/4/3،18 نمبر 2408 چاپ عبد الباقی۔
186۔سنن دارمی ،ج/2ص/431۔432۔
187۔ سنن ترمذی ،ج/5 ص/663 نمبر 37788۔
188۔ المستدرک ،حاکم ،ج/1ص/93۔
189۔ حافظ مزی ،تھذیب الکمال ،ج/3ص/127۔
190۔ ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری ،ص/391طبع دار المعرفھ۔
191۔ حافظ سید احمد ، فتح الملک العلی ص/15۔
192۔ ابو حاتم رازی ، الجرح و التعدیل ج/5ص/92۔
193۔ وہ حدیث جسے راوی معصوم سے نسبت نہ دے۔
194۔ حاکم،مستدرک ج/1 ، ص93۔
195۔ حافظ مزی، تھذیب الکمال،ج/13،ص 96 ۔
196۔ تھذیب التھذیب،ابن حجر،ج/4،ص355۔
197۔ تقریب،ابن حجر،ترجمہ نمبر 2891 ۔
204۔ الموطّا،امام مالک ،ص889،حدیث نمبر3۔
205۔ صحیح مسلم ،ج/4 ص1883 نمبر 2424 ۔
206۔ترمذی ج/5 ص663۔
207۔ صحیح صفة صلاة النبی از حسن بن علی السقاف کے ص/289تا ص/294 سے ماخوذ۔
208۔ منشور جاوید،ج/5ص/294۔
209۔ صواعق محرقہ ، چاپ دوم مکتبہ ” القاھرہ" مصر باب /11 فصل اول ص/146۔
ایسی ھی روایت سیوطی کی کتاب ”الدر المنثور“ج/ 5 سورھٴ احزاب کی آیت نمبر 56 کے ذیل میں وارد ھوئی ھے جسے سیوطی نے ”المصنف“کے موٴلف عبد الرزاق ،ابن ابی شیبہ ،احمد بن حنبل ،امام نجارومسلم ،ابوداود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور ابن مردویہ سے نقل کیاھے۔
210۔ صواعق محرقہ،باب/11 ص 148 ،اتحاف بشراوی ص29 وغیرہ۔
211۔صحیح بخاری،کتاب تفسیر جزء 6 ص/217 سورہٴ احزاب۔
     

Add comment


Security code
Refresh