شیعوں میں اخباریت کا رواج
یھاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری ھے جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں ،اجتھاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ھے ۔ اور وہ ” اخباریت “ کی تحریک ھے ۔ اگر کچھ جیّد و دلیر علماء نہ ھوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سر کوب نہ کرتے تو نہ معلوم آج ھماری کیا حالت ھوتی ۔ دبستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نھیں ھے ۔ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ھیں جو بذات خود بھت ذھین تھے اور بھت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ھے ۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ھے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ھے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں (جو عقل کی حجیت کی منکر ھو ، قرآن کی حجیت و سندیت کی یہ بھانہ بنا کر منکر ھو کہ قرآن صرف اھلبیت (ع)پیغمبر ھی سمجھ سکتے ھیں ۔ ھماری ذمہ داری فقط اھلبیت (ع)کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ھے اور اجماع سنیوں کی بدعت ھے لھذا ادّلۂ اربعہ یعنی قرآن ، سنت ، اجماع ،عقل میں سے صرف سنت حجت ھے ۔ اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی ”کافی من لا یحضرہ القفیہ ، تھذیب ، اور استبصار “میں بیان ھوئی ھیں صحیح ومعتبر بلکہ قطعی الصدور ھیں یعنی رسول خدا اور ائمہ طاھرین سے ان کا صادر ھونا یقینی ھے ان اصولوں کا پیرو اسکول )چارسو سال پھلے موجود نہ تھا ۔
شیخ طوسی نے اپنی کتاب ” عدة الاصول “ میں بعض قدیم علماء کو ” مقلّدہ “ کے نام سے یاد کیا ھے اور ان پر نکتہ چینی کی ھے تاھم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نھیں تھا ۔ شیخ طوسی نے انھیں مقلدہ اس لئے کھا ھے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے ۔
بھر حال جس صلاحیت ، قابلیت اور فنی مھارت کے مجتھدین قائل ھیں اخباری اس کے منکر ھیں ۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ھیں ۔ اس اسکول کا حکم ھے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ھے اور اس میں بھی کسی کو اجتھاد و اظھار نظر کا حق نھیں ھے لھذا عوام پر فرض ھے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ھی کے مطابق عمل کریں بیچ میں کسی عالم کو مجتھد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں ۔
ملا امین استر آبادی جو اس دبستان کے بانی ھیں اور بذات خود ذھین ، صاحب مطالعہ اور جھاں دیدہ شخص تھے انھوں نے ” الفوائد المدینة “ نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ھے ، موصوف نے اس کتاب میں مجتھدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ھے ۔ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف فرمایا ھے ۔ ان کا دعویٰ ھے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل ( جیسے ریاضیات ) میں حجت ھے اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نھیں ۔
بد قسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسّی فلسفہ نے جنم لیا تھا وہ لوگ علوم ( سائنس ) میں عقل کی حجیت کے منکر ھوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے اب یہ نھیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کھاں سے حاصل کی خود ان کی اپنی ایجاد ھے یا کسی سے حاصل کی ھے ؟
مجھے یاد ھے کہ ۱۹۴۳ءء کے موسم گرما میں ،ایران کے ایک شھر بروجرد گیا ھوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ ، بروجرد ھی میں مقیم تھے ، ابھی قم تشریف نھیں لائے تھے ۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی ۔آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ھوئے فرمایا : اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسّی فلسفہ کی لھر کے زیر اثر عمل میں آئی ھے ۔ یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی ۔ جب آپ قم تشر یف لائے اور آپ کے درس اصول میں ” حجیت قطع “ کا موضوع زیر بحث آیا تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وھی بات فرمائیں گے لیکن افسوس انھوں نے اس کا کوئی تذکرہ نھیں کیا ۔ اب مجھے یہ نھیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انھوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی ۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نھیں آئی ھے اور بعید نظر آتا ھے کہ اس زمانہ میں یہ حسّی فکر مغرب سے مشرق تک پھنچی ھو ۔ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نھیں کرتے تھے ۔ اب مجھے افسوس ھو رھا ھے کہ اس وقت میں نے اس سلسلہ میں ان سے سوال کیوں نھیں کیا ۔
اخباریت کا مقابلہ
بھر صورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی ۔ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرماتھا ۔ خوش قسمتی سے وحید بھبھانی ،آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلی اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔
وحید بھبھانی کربلا میں تھے اس زمانہ میں ، ایک ماھر اخباری ، صاحب ” حدائق “ بھی کربلا میں ساکن تھے ۔ دونوں کا اپنا اپنا حلقۂ درس تھا ۔ وحید بھبھانی اجتھادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو ۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی ۔ آخر کار وحید بھبھانی نے صاحب حدایق کو شکست دے دی ۔ کھتے ھیں کہ کاشف الغطا ،بحرالعلوم اور سید مھدی شھرستانی جیسے وحید بھبھانی کے جیّد شاگرد ، پھلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے ، بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ھو گئے ۔
البتہ صاحب حدائق ، نرم مزاج اخباری تھے ۔ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وھی ھے جو علامہ مجلسی ۺ کا مسلک تھا ۔ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ھے ۔ علاوہ بر ایں وہ بڑے مومن ، خدا ترس اور متقی و پرھیز گار انسان تھے ۔ باوجودیکہ وحید بھبھانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن وہ اس کے بر عکس ، کھتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ھے۔ کھتے ھیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بھبھانی پڑھائیں ۔
اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جد و جھد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم الاصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا ۔ کھتے ھیں : خود شیخ انصاری ۺ فرماتے تھے کہ اگر امین استرآبادی زندہ ھوتے تو میرا اصول مان لیتے ۔
اخباری اسکول ، اس مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ھی نظر آتے ھیں ۔ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ، لوگوں کے ذھنوں میں داخل ھوئے اور تقریباً دو سو سال چھائے رھے ،ذھنوں سے باھر نھیں نکلے ھیں ۔ آج بھی آپ دیکھتے ھیں کہ بھت سے لوگ حدیث کے بغیر ، قرآن کی تفسیر جائز نھیں سمجھتے ۔ بھت سے اخلاقی و سماجی مسائل بلکہ بعض فقھی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ھے ۔ فی الحال اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نھیں ھے ۔
ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ھوئی وہ اس کا عوام پسند پھلو ھے ۔ کیونکہ وہ کھتے تھے ھم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نھیں کھتے ھم کلام معصوم(ع)کے سامنے سر تسلیم خم کئے ھوئے ھیں ھمیں صرف ’ ’ قال الصادق (ع)“ سے سرو کار ھے ۔ اپنی طرف سے کچھ نھیں کھتے معصوم (ع)کا کلام بیان کرتے ھیں ۔
شیخ انصاری ” فرائد الاصول “ میں ”برائت “ و”احتیاط “ کی بحث میں سید نعمة اللہ جزائری سے جو اخباری مسلک کے پیرو تھے نقل کرتے ھیںکہ وہ کھتے ھیں :” کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ھے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ ( یعنی کسی اخباری ) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا ؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین(ع)کے حکم کے مطابق عمل کیا ، جھاں کھیں معصوم (ع)کا فرمان مجھے نھیں ملا میں نے احتیاط کی کیا ایسے شخص کو جھنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بھشت میں جگہ دی جائے گی جو کلام معصوم (ع)کو اھمیت نھیں دیتا تھا اور ھر حدیث کسی نہ کسی بھانہ سے ٹھکرا دیتا تھا ( یعنی اجتھادی دبستان کا پیرو شخص ) !! ھرگز نھیں “۔
مجتھدین ا سکا جواب یہ دیتے ھیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم قول معصوم (ع)کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نھیں ھے بلکہ جھالت کے آگے سر جھکانا ھے ۔ اگر واقعاً یہ معلوم ھو جائے کہ معصوم (ع)نے فلاں بات کھی ھے تو ھم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ھیں لیکن آپ حضرات یہ چاھتے ھیں کہ جو کچھ بھی ھم سنیں ( اس کی سند اور معنیٰ و مفھوم میں تحقیق کئے بغیر ) جاھلوں کی طرح اسے قبول کر لیں ۔
یھاں چند نمونے پیش کئے جارھے ھیں جن سے اخباریت کے جامد طرز فکر اور اجتھادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ھو جائے گا ۔