www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

قرآن شریف میں امامت کے سلسلے میں کسی خاص فرد کے نام اور حسب و نسب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ شاید اس کا مقصد قرآن کو تحریف سے محفوظ رکھنا ہو یا پھر کوئی اور وجہ ہوجو ابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہے لیکن امامت حضرت علی علیہ السلام سے متعلق مختلف کلیات، متعدد آیتوں میں بیان گئے ہیں جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صریحی اورواضح طور پر اس طرح بیان اور تفسیر فرمادیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی بھی حق کا متلاشی سرگرداں نہیں ہوسکتا۔
حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مقام امامت پردلالت کرنے والی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں۔ علامہ حلی نے ”نھج الحق وکشف الصدق“ میں ۸۸ آیتیں بیان کی ہیں جن کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مشہور کتب اہل سنت میں منقولہ احادیث کے مطابق یہ قرآنی آیتیں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے مختلف ابعاد اور پہلوؤں نیز آپ کی امامت پر روشنی ڈالنے والی ہیں۔ اس کے علاوہ شھید ثالث علامہ قاضی سعید مرعشی طاب ثراہ نے ”احقاق الحق“ میں ۹۴دوسری آیتیں، ۳۷ معتبر کتب اہل سنت کے حوالوں کے ساتہ پیش کی ہیں۔
امامت در قرآن
یہاں قرآن مجید سے صرف ایک آیت پیش کی جارہی ہے جو امامت حضرت علی علیہ السلام پر دلالت کرتی ہے۔
آیہٴ ولایت، سورہٴ مائدہ کی ۵۵ویں آیہٴ مبارکہ کو کہا جاتا ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
تمہارا ولی بس الله ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔
راویان شیعہ واہل سنت کے ذریعہ متعدد نقل شدہ احادیث کے مطابق یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تمام شیعہ مفسرین ومحد ثین اور بہت سے اہل سنت علماء کے اعتراف کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ہی تھے کہ جنھوں نے حالت رکوع میں ایک فقیر کو اپنی انگوٹھی بخشی تھی۔
شھید ثالث نے احقاق الحق میں اہل سنت کی ۸۵کتب حدیثی وتفسیری کاتذکرہ کیا ہے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

ان روایات کی بنا پر کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ <الذین آمنوا…..> سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ فقط قابل غور یہ ہے کہ اس آیت میں ”ولی“ سے مراد کیا ہے۔
معنائے ولی
ولی، ولایت، ولا، مولا، اولیٰ وغیرہ سب کے سب مادہ ”ولی“ ۔ و،ل،ی سے مشتق ہیں۔ یہ مادہ قرآن کریم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے، ۱۲۴ مرتبہ اسم کی صورت میں اور ۱۱۲ مرتبہ فعل کی صورت میں۔
جیسا کہ راغب نے مفردات القرآن میں اور ابن فارس نے مقاییس اللغة میں ذکر کیاہے، اس لفظ کے حقیقی معنی یہ ہیں: دو اشیاء کے درمیان ایسی نزدیکی وقربت کہ کوئی فاصلہ باقی نہ رہے۔ (۱) یعنی اگر دو اشیاء اس طرح ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں کہ ان کے درمیان کوئی شیٴ باقی نہ رہے تو مادہٴ ولی استعمال ہوتا ہے: ”ولیَ زید عمراً“ یعنی زید،عمر کے قریب ہے۔
اس لفظ کا استعمال دوستی، یاری، ذمہ داری، تسلط وغلبہ کے معنی میں اسی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان تمام موارد میں ایک طرح کی نزدیکی ، اتصال وقربت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا کسی مخصوص معنی کے تعین کے لئے کلام میں موجود قرینے کا لحاظ ضروری ہے۔
مذکورہ نکات کے بعد آیہٴ ولایت کا حاصل یہ ہے: ”مسلمانوں سے بے انتہا نزدیکی وقربت رکھنے والے خدا، رسول اور علی ہیں۔“
واضح ہے کہ یہ نزدیکی وقربت، معنوی ہے نہ کہ مادی وظاہری اور اس قربت معنوی کالازمہ ایسے تمام امور میں ولی کی نیابت ہے جن امور میں نیابت کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا ،شخص ولی ان تمام امور پر حاکمیت رکہ سکتا ہے جن کو مسلمان اپنی ذات سے مربوط ہونے کی وجہ سے انجام دیتا ہے البتہ اس شرط کے ساتہ کہ وہ امور قابل نیابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت کو تسلط، حاکمیت اور اختیار کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ (۲﴾
دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم دنیا وآخرت میں اپنے بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ولایت مومنین، تدبیر امور دین اور ان کی ہدایت کے ذریعے مومنین کو کمال وسعادت کی طرف گامزن کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، خدا کے اذن اور اس کی طرف سے مومنین اورخدا کے بندوں کے ولی ہیں۔ نتیجةً اس آیت میں بیان شدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت بھی اس لفظ کے اسی مذکورہ معنی میں ہے جس کا لازمہ لوگوں کے امور میں تصرف اور ان کی جان ،مال، عزت اور دین پر اولویت ہے۔
تاٴویل اہل سنت
اکثر علمائے اہل سنت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس آیت کے شان نزول پرمتفق ہیں حتی تفسیر الکشاف میں زمخشری اس سوال کے جواب میں کہ جب مراد ایک فرد ہے تو کیوں لفظ ”الذین“ جو کہ جمع کا صیغہ ہے، استعمال ہوا ہے،کہتے ہیں:
”اس لئے تاکہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ دئے جانے والے اس عمل کی طرف راغب ہوں نیز اس لئے تاکہ یہ بتایا جائے کہ مومنین کو ایسا ہونا چاہئے۔ “ (۳﴾
فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں:
”یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور علماء بھی اس پرمتفق ہیں کہ حالت رکوع میں (حضرت علی) کے علاوہ کسی اور نے زکوة نہیں دی ہے۔“ (۴﴾
در المنثور میں سیوطی نے متعدد روایات کا تذکر کیاہے جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام سے ہی مربوط ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہل سنت اس آیت کی توجیہ وتاویل میں یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ”ولی“ سے مراد دوست ہے نہ کہ سرپرست یا حاکم ومختار لیکن۔بیان شدہ نکات کے پیش نظر۔ مذکورہ معنی ادات حصر کے دائرے میں نہیں آتے کیونکہ اس صورت میں خدا، رسول اور علی کی دوستی کے علاوہ کسی اور سے دوستی کی نفی ہوتی ہے۔
امامت علی علیہ السلام : روایات کے پس منظر میں
اہل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات کی کتب احادیث میں رسول اکرم سے مروی بے شمار روایات موجود ہیں جو آپ کے بعد امامت و خلافت حضرت علی علیہ السلام پر تاکید کرتی ہیں۔
یہ روایات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رسالت کے ابتدائی زمانے ہی سے خداوند عالم کی طرف سے اس عظیم امر کی ترسیل وابلاغ کے لئے مامور تھے کہ اس کو مسلمانوں تک پہونچائیں اور آپ نے ہمیشہ اور ہر موقع پراپنے اس فریضے کوبحسن و خوبی انجام بھی دیا۔
یہاں چونکہ ان تمام روایات کا تفصیلی جائزہ ممکن نہیں ہے لہٰذا فقط واقعہٴ غدیر سے متعلق ایک روایت کا بالتفصیل تذکرہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی اس کے ذیل میں چند دوسری روایات کا بھی۔
حدیث غدیر:
حدیث غدیر اس واقعہ سے مربوط ہے جورسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر کے آخری حصے میں آپ کے حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر نامی مقام پر پیش آیاتھا۔ غدیر خم اس جگہ کا نام ہے جہاں سے مصری اور عراقی حجاج اور مدینے کی سمت جانے والے افراد ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔

واقعہٴ غدیر کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۰ ھجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتہ حجة الوداع کے لئے روانہ ہوتے ہیں اور مراسم حج کے خاتمے کے بعد مدینہ واپس جانے کے لئے مکہ سے رخصت ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے فرمان حرکت جاری ہوتا ہے۔ جیسے ہی قافلہ ”حجفہ“ سے تین میل کے فاصلے پر واقع مقام ”رابغ“ پہونچتاہے، جبرئیل امین غدیرخم نامی مقام پررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے خداوندعالم کا پیغام لےکر نازل ہوتے ہیں:
<يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ >
اے رسول! جو کچہ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے پہونچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویااپنی رسالت کو نہیں پہونچایا اور خدا آپ کولوگوں (کے شر )سے محفوظ رکھے گا۔ (۵﴾
اس آیت کے نازل ہوتے ہی پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قافلے کو ٹھہرنے کا حکم دیدیا۔ جو افراد قافلے سے آگے بڑہ گئے تھے انہیں واپس آنے کا حکم دیا ارو جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا۔ ظہر کا وقت تھا اور شدید گرمی ۔ ایک درخت پر ایک چادر پھیلا کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ایک سائبان تیار کیا گیا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز ظہر باجماعت ادا کی۔پھر اس حالت میں کہ مجمع آپ کے اردگرد پھیلا ہوا تھا، آپ نے اونٹوں کے کجاووں سے تیار شدہ منبرپرآکربلنداور رسا آواز میں مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
”حمد وثناخدا ذات کبریا سے مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں نیز اسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اور برے اعمال سے خداکی پناہ مانگتے ہیں وہ خدا جس کے علاوہ نہ کوئی ہادی ہے اور نہ کوئی راہنما۔ اس نے جس کو ہدایت عطا فرمادی ، پھر کوئی اسے گمراہ نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دتیا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ایھا الناس! اب وہ وقت آچکا ہے کہ میں دعوت حق پرلبیک کہوں اور تمہارے درمیان سے چلا جاؤں۔ میں بھی مسئول ہوں اور تم بھی مسئول ہو۔ میرے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق بخوبی انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے ہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔“
کیا تم لوگ گواہی دیتے ہو کہ معبود کائنات فقط ایک ہے اور محمداس کا بندہ اور اس کا رسول ہے نیز جنت ودوزخ اور ابدی زندگی قطعی ہیں؟
”ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔“
ایھا الناس! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ تم ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کروگے؟
اسی درمیان کوئی شخص بلند ہوا اور سوال کیا: ”وہ دو چیزیں کیا ہیں؟“
”ایک خدا کی کتاب کہ جس کا ایک حصہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت۔ میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے۔“
ایھا الناس! خود کو قرآن واہل بیت پر مقدم نہ کرنا اور اپنے عمل میں ان دونوں کے ساتہ حق تلفی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔“
اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے ہاتھ کوتھاما اور اس قدر بلند کیاکہ آپ دونوں حضرات کے زیر بغل کی سفیدی تمام افراد کے لئے نمایاں ہوگئی۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا تعارف کرایا اور پھر فرمایا:
”ایھا الناس! من اولیٰ الناس بالمومنین من انفسھم؟“
ایھا الناس!مومنین میں خود ان کے نفوس پر کون اولی ہے؟۔
”خدا اور اس کا رسول۔“
”ان الله مولای وانا مولیٰ المومنین وانا اولیٰ بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“
خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان پر خود ان سے زیادہ اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔
بقول احمد بن حنبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملے کو چار بار دہرایا اور پہر فرمایا:
”اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار “
خداوندا! تو بھی انھیں دوست رکہ جو علی کو دوست رکھتے ہیں اور انھیں دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتے ہیں۔ ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرتے ہیں اور جن کے دل میں علی کے بارے میں کینہ ہے ان پر اپنا غیض وغضب نازل کر۔ اس کے دوستوں کی مدد فرما اورجو اس کو نقصان پہونچائے اس کو ذلیل ورسوا کر دے اور علی کو محور حق قراردے۔“
سند حدیث
حدیث غدیر ایک مشھور ومعروف حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی دونوں گروہوں نے متعدد طرق سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے نیز دونوں فرقے اس حدیث پراعتقاد و یقین رکھتے ہیں یہاں تک کہ شیعی علماء کے علاوہ بعض اہل سنت علماء نے بھی اس حدیث پر باقاعدہ ایک باب کے تحت مفصل بحث کی ہے مانند ابوجعفر محمد بن جریر طبری (م ۳۱۰ ھ)، ابوالعباس احمد بن سعید ہمدانی (م ۳۳۳ ھ )اور ابوبکر محمد بن عمر بن محمد بن سالم تمیمی بغدادی (م․ ۳۵۵ ھ) وغیرہ ۔ علامہ امینی طاب ثراہ نے اپنی معرکة الآرا کتاب الغدیر میں ان تمام افراد کے اسماء کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے اس حدیث سے متعلق کتابیں لکھی ہیں نیزآپ نے اپنی کتاب میں ان افراد کی کتابوں کی خصوصیا ت بھی درج فرمائی ہیں۔
اس حدیث کونقل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تابعین، تبع تابعین، علماء اور فقہاء نے کس قدر اہتمام کیا تھا اس کا اندازہ اگرہوجائے تو حقیقت مزید واضح ہوجائے گی۔ یہاں اس سلسلے میں ہر صدی کے بعض اہل سنت علماء کی تعداد نقل کی جارہی ہے بقیہ تفصیل ان مفصل کتابوں کے حوالے کی جا رہی ہے جواس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں۔ اس حدیث کے ناقل اس طرح ہیں:
۱۔ ۱۱۰صحابہ
۲۔ ۸۴ تابعین
۳۔ ۵۶ علمائے قرن دوم
۴۔ ۹۲ علمائے قرن سوم
۵۔ ۴۳علمائے قرن چہارم
۶۔ ۲۴علمائے قرن پنچم
۷۔ ۲۰علمائے قرن ششم
۸۔ ۲۰علمائے قرن ہفتم
۹۔ ۱۹علمائے قرن ہشتم
۱۰۔ ۱۶علمائے قرن نہم
۱۱۔ ۱۴علمائے قرن دہم
۱۲۔ ۱۲علمائے قرن یازدہم
۱۳۔ ۱۳ علمائے قرن دوازدہم
۱۴۔ ۱۲ علمائے قرن سیزدہم
۱۵۔ ۱۹ علمائے قرن چہاردہم
اہل سنت والجماعت کے بزرگ ومعتبر محدثین میں سے احمد بن حنبل شیبانی نے ۴۰سندوں، ابن حجر عسقلانی نے ۲۵سندوں، جزری شافعی نے ۸۰سندوں، ابوسعید سجستانی نے ۱۲۰سندوں، امیر محمد یمنی نے ۴۰سندوں، نسائی نے ۲۵۰ سندوں، ابوالعلاء ہمدانی نے ۱۰۰سندوں اور ابولعرفانی حبان نے۳۰سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
مذکورہ اعداد وشمار علامہ امینیۺ کی شہرہٴ آفاق کتاب ”الغدیر“ سے ماخوذ ہیں البتہ حدیث غدیر خم، اس کی سندوں اور مصادر سے مربوط، ”الغدیر“ کے علاوہ دوسری بہت سی کتابیں از جملہ ”غایة المرام“ مولفہ علامہ سید ہاشم بحرانی (م․ ۱۱۰۷ ھ) اور ”عبقات الانوار“مولفہ سید میرحامد حسین اعلیٰ الله مقامہ، لکھی گئی ہیں۔
مذکورہ نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ واقعہٴ غدیر خم اور اس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ، تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے ۔ اگر کوئی شخص اس حقیقت کا انکار کرنا چاہے تو پھر وہ دوسرے کسی بھی تاریخی واقعے کو قبول نہیں کرسکتا۔
دلالت حدیث
حدیث غدیر کا مرکزی نقطہ یہ جملہ ہے ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ متعدد پائے جانے والے قرائن وشواہد کے مدنظر اس حدیث شریف میں مولیٰ، ”اولیٰ“ یعنی سزوار تر کے معنی میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے ولی اور سرپرست ہیں اور ان کے نفوس پران کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہیں۔ اس سلسلے میں بعض قرائن وشواہد مندرجہ ذیل ہیں:
۱﴾حدیث کے آغاز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: ”الست اولیٰ بکم من انفسکم“ آیا میں تم سے تمہارے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟ اسی وقت اس سوال پراس جملے کااضافہ فرماتے ہیں: فمن کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ۔ ان دونوں جملوں کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے نزدیکی یہی ثابت کرتی ہے کہ مولیٰ، ”اولیٰ بہ تصرف“ ہی کے معنی میں ہے۔
۲﴾ حدیث کے ضمن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: ”اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ“ یہ دعا اس عظیم مقام کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس پر حضرت علی علیہ السلام فائز ہوئے ہیں اور وہ مقام خلافت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
۳﴾ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، وہاں موجود افراد سے گواہی لیتے ہیں اور جملہٴ من کنت مولاہ ․․․ کو وحدانیت خدا، اور رسالت پیغمبر کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ بھی فقط اسی صورت میں قابل قبول ہے کہ جو کچھ اس جملے میں بیان ہوا ہے وہ اسی اہمیت اور منزلت کا حامل ہو جسکاجملہٴ ماقبل حامل ہے۔
۴﴾ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گفتگو کے ختم ہونے اورمسلمانوں کے پراکندہ اور منتشر ہونے سے قبل جبرئیل نازل ہوتے ہیں اوراس آیت کی تلاوت فرماتے ہیں: <الیوم اکملت لکم دینکم․․․> اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: الله اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة رضی الرب برسالتی والولایة لعلی من بعدی“ آخر ایسی کونسی چیز ہوسکتی ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی امامت وولایت کے علاوہ دین کوکامل کرنے والی اور نعمتوں کو تمام کرنے والی شمار کی جاسکے نیز جس کو رسالت کے کنارے کھڑا کیاجاسکے؟
دوسرے بہت سے ایسے قرائن بھی رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس ماموریت و ذمہ داری کی اہمیت وعظمت کی گواہی دیتے ہیں جو مسلمانوں کو ابلاغ اور ترسیل سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں مزید جستجو اور مطالعے کے لئے علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر“ کی دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
دیگر روایات پر ایک سرسری نظر
۱﴾ جس وقت آیہٴ <وانذر عشیرتک الاقربین> (۶) نازل ہوئی ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب علیہ السلام سے فرمایا کہ فرزندان عبد المطلب کو دعوت دی جائے اور ان کے لئے طعام کا انتظام کیا جائے۔ تمام افراد کے حاضر ہونے پر آپ نے فرمایا:
” ایکم یوازرنی ویعیننی فیکون اخی وخلیفتی ووصیی من بعدی“
تم میں سے کون ہے جو میرا وزیربنے اور میری مدد کرے تاکہ میرا بھائی ، جانشین اور خلیفہ قرار پائے۔
اس مجمع میں رسول کی اس پیشکش کوقبول کرنے والوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام تھے، آپ نے فرمایا: میں آپ کی بیعت کرتا ہوں ۔میں آپ کی مدد کروںگا۔ سپس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”ہذا اخی ووصیی وخلیفتی من بعدی ووارثی فاسمعوا لہ واطیعوا “
یہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرے بعدمیرا جانشین اور وارث ہے۔ لہٰذا اس کے کلام کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔(۷﴾
۲﴾ جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی اس وقت حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ تمام صحابہ کے درمیان عقد اخوت باندھا تھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا رسول خدا! آپ نے میرے علاوہ تمام اصحاب کے درمیان عقد اخوت باندھا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”الم ترضیٰ ان تکون اخی وخلیفتی من بعدی“
کیاتم میرے بھائی اور میرے جانشین ہونے سے راضی نہیں ہو؟(۸)
۳﴾متعدد روایات میںنقل ہوا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہا اصحاب سے فرمایا تھا کہ علی کو ”امیر المومنین“ کے لقب سے مخاطب کیا کرو نیز آپ خود حضرت علی علیہ السلام سے فرماتے تھے:
”انت سید المسلمین وامام المتقین وقائد الغر المحجلین“
تم مسلمانوں کے پیشوا، متقین کے امام اورروز قیامت روشن چہرہ افراد کے قائد ہو۔(۹﴾
نیز آپ نے فرمایا ہے: ”ھذا ولی کل مومن ومومنة“ اس حدیث کو شیعہ اور سنی دونوں فرقوں نے تواتر کے ساتہ نقل کیا ہے۔ (۱۰﴾
(4رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شیعہ وسنی محدثین کی متواتر روایات کے بقول حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“
تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جوہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱۱﴾
یعنی ہر وہ شان و منزلت جو ہارون موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھتے تھے وہی حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہے جن میں سے اہم ترین ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے لئے خلیفہ اور وصی ہونا تھا۔
دیگر ائمہ کی امامت
رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت کا اعلان بھی بارہا مختلف انداز وطریقے سے کیا ہے۔ اس سلسلے میں رسول گرامی سے منقول روایات کو چہ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱﴾بعض روایات ایسی ہیں جن میں اہل بیت، عترت، ذریت اور ذوی القربیٰ جیسے عناوین کا ذکر ملتا ہے۔ ساتہ ہی امامان معصومین کی صفات کلیہ اور حضرت زھرا کی نسل میں امامت کے دوام کوبھی بطور کلی پیش کیا گیا ہے۔ ان روایات کی تعداد بے شمار ہیں جو کتب صحاح اور جوامع اہل سنت میں بھی درج ہیں نیز عبقات الانوار، الغدیر، المراجعات اور احقاق الحق میں ان روایات کا بالتفصیل تذکرہ ملتا ہے۔
۲﴾ روایات کی دوسری قسم میں وہ روایات آتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ امامت، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ ان روایات کا ایک حصہ احقاق الحق کی انیسویں جلد میں موجود ہے۔
۳﴾ تیسری قسم کی روایات میں نام اور تعداد کے بغیر امامت کو ۱۲کے عدد میں محصور کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سو تیس سے زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیز ۴۰احادیث اس مضمون کے ساتھ منقول ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلفاء اور ائمہ جناب موسیٰ کے نقباء کے مساوی ہیں۔
۴﴾ ۹۱سے زیادہ ایسی احادیث ہیں جن میں ائمہ کی تعداد کے ضمن میں پہلے اور آخری امام کے نام کا بھی ذکر ہے اوران احادیث کے علاوہ ۹۶ احادیث ایسی ہیں جن میں فقط آخری امام کا ذکر ہے۔
۵﴾ ۱۲۹ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ تعداد ائمہ،بارہ ہے نیز وضاحت کی گئی ہے کہ ان میں سے نو امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہوں گے ۔
۶﴾ ۵۰احادیث میں فرداً فرداً ہر امام کے نام کا جداگانہ طور پر تذکرہ ملتا ہے۔
نمونہ کے لئے ان میں سے ایک حدیث مندرجہ ذیل ہے:
جابر بن عبد الله انصاری کہتے ہیں: جس وقت آیہٴ <اطیعوا الله واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم> (۱۲) نازل ہوئی ،میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا: ہم خدا اور اس کے رسول کو جانتے ہیں لیکن اولی الامر جن کی اطاعت ہم پر واجب کی گئی ہے ، کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور میرے بعد امام ہیں جن میںسے پہلے علی اور ان کے بعد بالترتیب: حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، محمد بن علی کہ جن کو توریت میں باقر کہا گیا ہے اور تم ان کے زمانے کو درک کروگے۔ جب بھی تم ان سے ملاقات کرنا‘ ان تک میرا سلام پہونچانا۔ اس کے بعد فرمایا: ان کے بعد بالترتیب جعفر بن محمد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، محمد بن علی، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کا فرزند جس کا نام اور کنیت، میرا نام اور میری کنیت ہے۔ خدا اس کو ساری دنیا کی حاکمیت عطا کرے گا۔ وہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوجائے گا اور اس کی غیبت بہت طولانی ہوگی۔ یہاں تک کہ اس کی اما مت کے معتقد صرف وہی افرادرہ جائیں گے جن کا ایمان مستحکم اور عمیق ہوگا۔(۱۳﴾
امامت ائمہ اثنا عشری سے متعلق روایات اہل سنت
مندرجہ ذیل وہ احادیث ہیں جو ائمہٴ اثنا عشری کی امامت سے متعلق کتب اہل سنت میں نقل ہوئی ہیں:
۱﴾ بخاری، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ (میرے بعد) بارہ امیر ہوں گے۔پھر ایک ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ جس کو میں سن نہیں سکا۔ میرے باپ نے کہا کہ رسول نے فرمایا ہے: وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (۱۴﴾
۲﴾ مسلم، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا: اسلام بارہ خلفاء تک باقی رہے گا۔ سپس ایک جملہ ارشاد فرمایا جس کو میں سن نہیں سکا۔ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ رسول نے کیا فرمایا ہے؟ میرے والد نے کہا: رسول نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہیں۔ (۱۵﴾
۳﴾جابر بن سمرہ کے حوالے سے مسلم سے منقول ہے کہ جابر نے کہا: اپنے والد کے ساتھ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ آپ نے فرمایا:اسلام بارہ عزیز اور گرانقدر خلفاء تک باقی رہے گا اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔(۱۶﴾
۴﴾ جابر بن سمرہ سے مسلم نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ یہ دین قیامت تک باقی رہے گا یہاں تک بارہ خلفاء تمہارے حاکم ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوںگے۔ (۱۷﴾
حوالہ جات:
۱۔ مقایس اللغة ج،۶ ص ۱۴۱۔
۲۔ مفردات القرآن راغب اصفہانی ص/۵۷۰۔
۳۔ الکشاف،ج/۱،ص/۵۰۵ مصری پرنٹ، ۱۹۹۶ء۔
۴۔التفسیر الکبیر: ج/۱۲،ص/۳۰، مصر، ۱۹۷۸ء۔
۵۔ مائدہ: ۶۷۔
۶۔ شعرا: ۲۱۴۔
۷۔ العمدة، ابن بطریق، ص/۱۳۴، اور ۱۲۳، ۱۲۱، غایة المرام، ص/۳۲۰، شواہد التنزیل، ج/۱،ص/۴۰۲‘ الغدیر، ج/۲،ص/۲۷۹،۲۷۸۔
۸۔العمدة، ص/۲۲۳، ۲۱۵، الغدیر، ج/۳،ص/۱۲۵،۱۱۲۔
۹۔العمدة، ص/۴۱۸، الغدیر، ج/۱،ص/۵۲،۵۰‘ ج/۷،ص/۱۷۶۔
۱۰۔مناقب ابن مغارلی، ص/۶۶‘ص/۶۵۔
۱۱۔العمدة:ص/۱۸۵، ۱۸۳،مسنداحمد، ج/۳، ص/۳۲، الغدیر، ج/۱ ، ص/۵۱ ، ج/۳،ص/۲۰۱،۱۹۷۔
۱۲۔نساء:۵۹۔
۱۳۔منتخب الاثر:ص/۱۰۱۔
۱۴۔صحیح بخاری، ج/۹، باب الاستخلاف ،ص/۱۰۱۔
۱۵۔صحیح مسلم، ج/۶، کتاب الامارة، باب الناس تبع لقریش، ص/۳۔
۱۶۔صحیح مسلم، ج/۶، کتاب الامارة، باب تبع لقریش ،ص/۳۔
۱۷۔ صحیح مسلم، ج/۶کتاب الامارة، باب الناس تبع لقریش، ص/۳، مزید تحقیق ومطالعے کے لئے مسند احمد، ج/۵،ص/۱۰۷،۹۷،۹۸،۸۶، منتخب الاثر، ص/۱۶، ینابیع الحکمة،ص/۴۴۶ کی طرف بہی رجوع کیا جاسکتا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh