www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

موضوع امامت اپنی اہمیت اور خصوصیت کی بنا پر ہمیشہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان بحث و گفتگو کا موضوع رہا ہے۔ شیعہ علماء اور دانشمندوں نے اپنے مخصوص عقائد کے اثبات کے لئے بے شمار کتابیں تالیف ہیں جن میں ہزارہا دلائل و براہین کا ذکرکیا گیا ہے کہ اگر یہاں اجمالی اور سرسری طور پر بھی ان کا ذکر کیا جائے تویہ مباحث نہایت طویل ہو جائیں گے ۔
امامت سے مربوط مباحث دو حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں: پہلا حصہ، اصل ضرورت وجود امام کے اثبات سے متعلق ہے اور دوسرا قرآن اور روایات پرمبنی متعدد دلائل پر مشتمل ہے کہ جن کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام اور آپ کے گیارہ فرزند، خداوند عالم کی طرف سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعلان کے مطابق اس مقام ومنصب کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔
اثبات ضرورت وجود امام
شیعی نقطہٴ نظر سے، جس طرح نبوت ایک امر لازم وضروری ہے اور حکمت خدا مقتضی ہے کہ انبیاء ہدایت بشر کے لئے بھیجے جائیں اسی طرح امامت بھی ایک امر لازم وضروری ہے جس کے بغیر راہ سعادت وکمال کی طرف بشرکی ہدایت نامکمل ہے۔
شیعوں کی کتب کلامی میں اصل ضرورت وجود امام معصوم پر بے شمار عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک ہی دلیل عقلی پر اکتفا کررہے ہیں۔ یہ دلیل پانچ مقدموں پر مشتمل ہے۔
﴿۱﴾ نبی شناسی میں گزر چکا ہے کہ حکمت خداوند عالم کے مطابق ضروری ہے کہ ہدایت بشر کے لئے انبیاء بھیجے جائیں۔
﴿۲﴾ دین اسلام ایسے قوانین واحکام کا مجموعہ ہے جوابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اب کوئی دوسرا پیغمبر نہیں آئے گا۔
﴿۳﴾ خاتمہٴ نبوت فقط اسی صورت میں حکمت نبوت سے مطابقت رکھتا ہے جب آخری آسمانی شریعت ، بشر کی تمام مادی ومعنوی اور روحانی ضرورتوں کوپورا کرسکتی ہو نیز جس کی بقا کی ضمانت دنیا کے اختتام تک دی جاسکے۔
﴿۴﴾اگرچہ خدا وند عالم نے قرآن کریم کو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہے <انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون>(۱) لیکن تمام احکام و قوانین اسلام، قرآن کی ظاہری آیات سے واضح نہیں ہوپاتے ہیں کیونکہ عموماً قرآن مجید میں احکام وقوانین کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کردی گئی ہے تاکہ خدا کے ذریعے عطا کردہ علم کی مدد سے ان کو لوگوں کے لئے بیان کرسکیں۔ <وانزلنا الیک الذکرلتبین للناس مانزل الیھم> (۲﴾
﴿۵﴾ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سختیوں ومشکلات سے بھری ہوئی زندگی اور دشوار حالات وشرائط کے پیش نظر آپ کو اتنی فرصت و وقت نہیں مل سکا تھاکہ تمام احکام وقوانین کوبالتفصیل بیان فرماسکتے حتی جس قدر بھی آپ کے اصحاب آپ کی تعلیمات حاصل کرسکے تھے اس کی بقا کی بھی ضمانت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ آپ ہی کی امت میں وضو کی کیفیت کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا جب کہ سالہا سال آپ کے اصحاب نے آپ کووضوفرماتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا۔ جب اس طرح کے عملی احکام (وہ عملی احکام جو روزمرہ زندگی میں مسلمانوں کی ضرورت رہے ہیں اور ہیں نیز جن میں تبدیلی و تحریف کی بھی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی) میں اختلاف پیدا ہوسکتے ہیں تولامحالہ دقیق اور پیچیدہ احکام میں تحریف و تبدیلی کے امکانات کہیں زیادہ ہیں مخصوصاً ایسے احکام و قوانین میں جولوگوں کی نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات میں حائل ہوتے ہیں یا رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
مذکورہ پانچوں نکات کے مدنظر دین اسلام اسی وقت، دین کامل کے عنوان سے تاابد بشریت کی تمام ضروریات کو پورا کرسکتا ہے جب اس میں معاشرے کی ان مصلحتوں اور مسائل کا کوئی راہ حل پیش کیا گیا ہو جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی پیدا ہو گئے تھے۔
اسلام نے اس کاراہ حل خدا کی طرف سے معین شدہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کے طور پر پیش کیا ہے ایسا جانشین جو علم لدنی کا حامل ہوتا کہ تمام حقائق واحکام دینی کو ان کے تمام پہلوؤں کے ساتھ بیان کرسکے ساتھ ہی معصوم بھی ہوتا کہ نفسانی خواہشات وجذبات اس پر حاوی نہ ہوسکیں اور وہ دین میںعمداً یا سہواً تحریف نہ کرسکے نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روش پرمعاشرے کی تربیت بھی کرسکے اور کمال طلب افراد کو کمال وسعادت کے اعلیٰ مراتب تک لے جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ شرائط اجتماعی کے سازگار ہونے کی صورت میں حکومت وتدبیر امور جامعہ بھی کرسکے تاکہ اسلام کے قوانین اجتماعی کی ترویج کے ذریعہ دنیا میں عدل و انصاف کوپھیلا سکے۔
علم اور عصمت امام
اس طرح ختم نبوت اس صورت میں حکمت الٰہی کے مطابق ہوگی جب کوئی ایسا امام معصوم نصب ومعین کردیا جائے جونبوت کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام صفات وخصوصیات کا حامل ہو۔ یہی ضرورت امام پر عقلی دلیل ہے جس کے ذریعہ امام کا علم لدنی اور عصمت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
خدا کی طرف سے امام کا انتخاب وتعین
جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس کے ذریعہ امامت سے متعلق شیعوں کے تیسرے عقیدے کو بھی سمجھا جا سکتا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کے امام کا خدا کی طرف سے نصب ومعین ہونا ضروری ہے کیونکہ فقط خداوند عالم ہی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ اس مخصوص علم و عصمت کا حامل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علم اور ملکات نفسانی غیر محسوس، امورمیں سے ہیں کہ براہ راست بشری تجربہ کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔یہ بھی خیال رکہنا چاہئے کہ عصمت سے مراد فقط یہ نہیں ہے کہ انسان روز مرہ زندگی میں گناہوں کو انجام نہ دے بلکہ عصمت کی تعریف یہ ہے کہ انسان تمام شرائط وحالات میں گناہوں سے مبرّا وپاک رہ سکے اور یہ وہ حالت ہے جو وحی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔
علم ودانش سے متعلق بھی یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر چند کسی شخص کی گفتگو یا تحریر سے اس کے علم کی وسعت وگہرائی کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس روش سے قطعاً اطمینان حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جوکچھ کہہ رہا ہے صحیح کہہ رہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک دوسری دلیل بھی خدا کی طرف سے امام معصوم کے نصب وتعین پردلالت کیلئے پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ:
امامت کے وظائف و ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور لوگوں پر ولایت ہے اور یہ وہ امور ہیں جو حقیقةً فقط خدا کا حق ہیں۔ ولی مطلق اور حقیقی حاکم صرف خدا ہے۔ انسان فقط اس کا تابع اورفرمانبردار ہے۔ لہٰذا دوسروں کی اطاعت اور پیروی فقط اور فقط اس صورت میں جائز اوردرست ہوگی جب خداوند عالم ان لوگوں کو اپنی طرف سے یہ منصب اور مقام عطا کردے۔
حوالہ جات:
1۔ سورہ حجر: آیت ۹۔
۲۔ سورہ نحل: آیت ۴۴۔

 

Add comment


Security code
Refresh