www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2023
گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھا ہے كہ كس طرح حضرت نوح عليہ السلام اور سچے مومنين نے كشتى نجات بنانا شروع كى اور انہيں كيسى كيسى مشكلات آئيں اور بے ايمان مغرور اكثريت نے كس طرح ان كا تمسخراڑايا اس طرح تمسخر اڑانے والوں نے كس طرح اپنے آپ كو اس طوفان كے لئے تياركيا جو سطح زمين كو بے ايمان مستكبرين كے منحوس وجود سے پاك كرنے والا تھا ۔
يہاں پر اس سرگزشت كے تيسرے مرحلے كے بارے ميں قرآن گويا اس ظالم قوم پر نزول عذاب كى بولتى ہوئي تصوير كو لوگوں كے سامنے پيش كررہا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے :''يہ صورت حال يونہى تھى يہاں تك كہ ہماراحكم صا در ہوا اور عذاب كے آثارظاہر ہونا شروع ہوگئے پانى تنور كے اندر سے جو ش ما رنے لگا''۔( سورہ ھود،آيت30﴾
اس بار ے ميں كہ طوفان كے نزديك ہونے سے تنور سے پانى كا جوش مارنا كيامناسبت ركھتا ہے مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے_( بعض نے كہا ہے كہ تنور سے پانى كا جوش مارنا خدا كى طرف سے حضرت نوح كے لئے ايك نشانى تھى تاكہ وہ اصل واقعہ كى طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پروہ اور ان كے اصحاب ضرورى اسباب ووسائل لے كر كشتى ميں سوار ہوجائيں _ بعض نے كہا ہے كہ يہاں ''تنور'' مجازى اور كنائي معنى ميں ہے جو اس طرف اشارہ ہے كہ غضب الہى كے تنورميں جوش پيدا ہوا اوروہ شعلہ ورہوا اوريہ تباہ كن خدائي عذاب كے نزيك ہونے كے معنى ميں ہے ايسى تعبير فارسى اور عربى زبان ميں استعمال ہوتى ہيں كہ شدت غضب كو آگ كے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبيہ دى جاتى ہے﴾ ۔
موجودہ احتمالات ميں سے يہ احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے كہ يہاں '' تنور'' اپنے حقيقى اور مشہور معنى ميں آيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد كوئي خاص تنور بھى نہ ہو بلكہ ممكن ہے كہ اس سے يہ نكتہ بيان كرنا مقصود ہوكہ تنور جو عام طوپر آگ كا مركزہے جب اس ميں سے پانى جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان كے اصحاب متوجہ ہوئے كہ حالات تيزى سے بدل رہے ہيں اور انقلاب قريب تر ہے يعنى كہاں آگ اور كہاں پانى بالفاظ ديگر جب انہوں نے يہ ديكھا كہ زيرزمين پانى كى سطح اس قدراوپر آگئي ہے كہ وہ تنور كے اندر سے جو عام طور پر خشك ،محفوظ اور اونچى جگہ بنايا جاتا ہے ، جوش ماررہا ہے تو وہ سمجھ گئے كہ كوئي اہم امر درپيش ہے اور قدرت كى طرف سے كسى نئے حادثے كاظہور ہے _ اور يہى امر حضرت نوح اور ان كے اصحاب كے لئے خطرے كا الارم تھا كہ وہ اٹھ كر كھڑے ہوں اور تيار رہيں ۔
شايد غافل اور جاہل قوم نے بھى اپنے گھر وں كے تنور ميں پانى كو جوش مارتے ديكھا ہو بہرحال وہ ہميشہ كى طرح خطرے كے ان پر معنى خدائي نشانات سے آنكھ كان بند كيے گزرگئے يہاں تك كہ انہوں نے اپنے آپ كو ايك لمحہ كے لئے بھى غور وفكر كى زحمت نہ دى كہ شايد شرف تكوين ميں كوئي حادثہ پوشيدہ ہواور شايد حضرت نوح(ع) جن واقعات كى خبر ديتے تھے ان ميں سچائي ہو ۔
اس وقت نوح(ع) كو ''ہم نے حكم ديا كہ جانوروں كى ہرنوع ميں سے ايك جفت (نراور مادہ كا جوڑا) كشتى ميں سوار كرلو '' _تاكہ غرقاب ہو كر ان كى نسل منقطع نہ ہوجائے ۔
اور اسى طرح اپنے خاندان ميں سے جن كى ہلاكت كا پہلے سے وعدہ كيا جاچكا ہے ان كے سواباقى افرادكو سوار كرلو نيز مومنين كو كشتى ميں سوار كرلو ''۔( سورہ ھود،آيت40﴾

Add comment


Security code
Refresh