www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2021
جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بيٹے كو موجوں كے درميان ديكھا تو شفقت پدرى نے جوش مارا انہيں اپنے بيٹے كى نجات كے بارے ميں وعدہ الہى ياد آيا انہوں نے درگاہ الہى كا رخ كيا اور كہا :''پروردگارا ميرا بيٹا ميرے اہل اور ميرے خاندان ميں سے ہے اور تو نے وعدہ فرماياتھا كہ ميرے خاندان كو طوفان اور ہلاكت سے نجات دے گا اور تو تمام حكم كرنے والوں سے برترہے اور تو ايفائے عہد كرنے ميں محكم ترہے ''۔( سورہ ھود،آيت45﴾
يہ وعدہ اسى چيز كى طرف اشارہ ہے جو سورہ ہود ميں موجود ہے جہاں فرمايا گيا ہے :
''ہم نے نوح علیہ السلام كو حكم ديا كہ جانوروں كى ہر نوع ميں سے ايك جوڑا كشتى ميں سوار كرلو اور اسى طرح اپنے خاندان كو سوائے اس شخص كے جس كى نابودى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ''۔( سورہ ھود،آيت40﴾
حضرت نوح علیہ السلام نے خيال كيا كہ ''سوائے اس كے كہ جس كى نابود ى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ،اس سے مرادصرف ان كى بے ايمان اور مشرك بيوى ہے اور ان كا بيٹا كنعان اس ميں شامل نہيں ہے لہذاانہوں نے بارگاہ خداوندى ميں ايسا تقاضاكيا ليكن فورا جواب ملا (ہلادينے والا جواب اور ايك عظيم حقيقت واضح كرنے والا جواب )''اے نوح وہ تيرے اہل اور خاندان ميں سے نہيں ہے ،بلكہ وہ غيرصالح عمل ہے''۔( سورہ ھود،آيت46﴾
وہ نالائق شخص ہے اور تجھ سے مكتبى اور مذہبى رشتہ ٹوٹنے كى وجہ سے خاندانى رشتے كى كوئي حيثيت نہيں رہي۔
''اب جبكہ ايسا ہے تو مجھ سے ايسى چيزكا تقاضانہ كر جس كے بارے ميں تجھے علم نہيں ،ميں تجھے نصيحت كرتا ہوں كہ جاہلوں ميں سے نہ ہوجا ''۔( سورہ ھود،آيت46﴾
حضرت نوح علیہ السلام سمجھ گئے كہ يہ تقاضا بارگاہ الہى ميں صحيح نہ تھا اور ايسے بيٹے كى نجات كو خاندان كى نجات كے بارے ميں خدا كے وعدے ميں شامل نہيں سمجھنا چاہئے تھا لہذا آپ نے پروردگار كا رخ كيا اور كہا :
''پروردگار ا : ميں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس امر سے تجھ سے كسى ايسى چيز كى خواہش كروں جس كا علم مجھے نہيں ،اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور اپنى رحمت ميرے شامل حال نہ كى تو ميں زياں كاروں ميں سے ہوجاوںگا ''۔( سورہ ھود،آيت47﴾

Add comment


Security code
Refresh