www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ہجرت کے تیسرے سال کے دوران جو واقعات رونما ہوئے ان میں ”غزوہ احد“ قابل ذکر ہے، یہ جنگ ماہ شوال میں وقوع پذیر ہوئی جو خاص اہمیت و عظمت کی حامل ہے۔
ہم یہاں اس جنگ کا اجمالی طور پر جائزہ لیں گے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کریں گے۔
غزوہٴ احد کی اجمالی تاریخ
جنگ بدر میں ننگ آور شکست کھانے کے بعد قریش نے اندازہ لگا لیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتہ ان کی جو جنگ و پیکار چلی آرہی ہے اس نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور یہ ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے، چنانچہ دوسرے مرحلہ پر جب انھوں نے نو عمر اسلامی حکومت کے خلاف جنگ کا ارادہ کیا تو اس کے لئے انھوں نے وسیع پیمانے پر تیاری کی تاکہ اس طریقہ سے اولاً ان مقتولین کا مسلمانوں سے بدلہ لے سکیں جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے اور دوسرے یہ کہ چونکہ مسلمانوں نے مکہ اور شام کے درمیان واقع جس تجارتی شاھراہ کی ناکہ بندی کردی تھہی اسے ان کے چنگل سے آزاد کراکے اپنی اقتصادی مشکلات کا حل نکالیں، اور اس کے ساتھ ہی اپنی حاکمیت و بالادستی کو بحال کرلیں جو زمانہ کے انقلاب کے تحت ان کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی اور اس کی ساکہ کو اپنے لوگوں نیز اطراف و جوانب کے قبائل پر قائم کرسکیں۔
جن محرکات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ ”کعب الاشراف“ جیسے یہودیوں کی تگ و دو بھی اس جنگ کو ہوا دینے میں موثر و کامیاب ثابت ہوئی۔
مشرکین کے سردار ”دار الندوہ''میں جمع ہوئے اور وہاں انھوں نے لشکر کی روانگی جنگ کے مخارج اور اسلحہ کی فراہمی کے موضوع پر گفتگو کی، بالآخر بہت زیادہ کوشش کے بعد تین ہزار سپاھیوں پر مشتمل ایسا لشکر تیار ہو گیا جس میں سات سو زرہ پوش اور باقی پیدل سپاھی شامل تھے، اس مقصد کے لئے انھوں نے (۲۰۰) دو سو گھوڑے اور (۳۰۰) تین سو اونٹ جمع کرلئے، سپاہ میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لئے پندرہ عورتیں ساتہ ہوگئیں، چنانچہ اس ساز و سامان کے ساتھ یہ لشکر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ (المغازی ج۱، ص۲۱۳۔ و ص۲۱۴﴾
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس نے جو مکہ میں قیام پذیر تھے آنحضرت کو قریش کی سازش سے مطلع کردیا، دشمن کی طاقت و حیثیت کا اندازہ لگانے اور اس سے متعلق مزید اطلاعات حاصل کرنے کے بعد آنحضرت نے مھاجرین اور انصار میں سے اہل نظر کو جمع کیا اور انھیں پوری کیفیت سمجھا کر اس مسئلہ پر غور کیا کہ دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جائے، اس سے متعلق دو نظریئے زیر بحث آئے۔
الف: شہر میں محصور رہ کر عورتوں اور بچوں کی مدد حاصل کی جائے اور فصیل شہر کو دفاع کے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔
ب: شہر سے باہرنکل کر کھلے میدان میں دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔
معمر اور منافق لوگ پہلے نظریہ سے متفق تھے لیکن جوانوں کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی اسی لئے وہ دوسرے نظریہ کے حامی تھے، اور اس پر ان کا سخت اصرار تھا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جانبین کے نظریات اور طرفین سے باہر نکل کے استدلال سننے کے بعد دوسرے نظریہ کو پسند فرمایا اور یہ فیصلہ دیا کہ دشمن کا مقابلہ شہر سے باہر نکل کر کیا جائے 6 شوال کو آپ نے نماز جمعہ کی امامت فرمائی، فریضہ نماز ادا کرنے کے بعد آپ نے اصحاب کو صبر و شکیبائی اور استقامت و پائیداری کی تلقین فرمائی، لشکر (۱۰۰۰) ایک ہزار افراد کو دیا اور جہاد کی خاطر مدینہ سے باہر تشریف لے گئے۔
جب لشکر اسلام ”شواط“ کی حدود میں پہونچا تو منافقین کا سردار ”عبد اللہ بن ابی“ اپنے (۳۰۰) تین سو ساتھیوں کے ساتھ یہ بہانہ بناکر علیحدہ ہوگیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوانوں کے اس نظریہ کو اس کے مشورے پر ترجیح دی ہے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس مدینہ آگیا (۳) اس منافق کی روگردانی کے پس پشت در اصل یہ محرک کار فرما تھا کہ جنگ کے حساس و نازک موقعہ پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتہ چھوڑ کر آپ کی قیادت کو کمزور کردے تاکہ سپاہ اسلام کی صفوں میں تزلزل و اختلاف پیدا ہوجائے۔
اسی تفرقہ انگیز حرکت کے بعد قبیلہ ”خزرج“ کے دو طائفوں میں سے ”بنی سلیمہ''کے دو طائفے اور قبیلہ ”اوس“ کے طائفہ بنی حارث کے لوگ بھی اپنی ثابت قدمی میں متزلزل ہونے لگے اور واپس جانا چاہتے ہی تھے کہ خدا کی مدد اور دوسرے مسلمانوں کی ثابت قدمی نے ان کے ارادے کو مضبوط کردیا، اور اس طرح منافقین کی بزدلانہ سازش ناکام ہوگئی، چنانچہ قرآن مجید نے بھی سورہ آل عمران میں اس مسئلہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔
إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴿آل عمران ،اآیت ١۲۲﴾۔
﴿یاد کرو جب تم دو گروہ بزدلی پر آمادہ ہوگئے تھے، حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔﴾
ہفتہ کے دن سات شوال کو احد کے دامن میں دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔
اگرچہ کوہ احد لشکر اسلام کی پشت پر تھا مگر اس کے باوجود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ”عبد اللہ بن جبیر“ کے زیر فرمان پچاس کمانداروں کو درہ ”عینین“ کے دھانے پر اس مقصد کے تحت مقرر کر دیا تھا کہ دشمن کو درے کے راستے سے میدان کارزار میں نہ آنے دیں۔
جنگ کا آغاز دشمن کے سپاہی ”ابوعامر“ کی تیر اندازی سے ہوا اس کے بعد جنگ کی نوبت آئی، اس مرحلہ میں مشرکین کے نوجانباز اور پر چمدار چند افراد کے ساتہ میدان کارزار میں اترے اور سب کے سب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
دوسرے مرحلہ پر دشمن کاپورا ریلا مسلم سپاہ پر حملہ آور ہوا، جس پر قریش نے اپنی پوری طاقت صرف کردی، اس مرتبہ عورتیں اشعار نیز نغمہ و سرود کے ذریعہ مردوں کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے ترغیب دلا رہی تھیں تاکہ اس سنگین داغ کو جو جنگ بدر میں ان کے دامن پر لگا تھا مٹا سکیں، لیکن مجاہدین اسلام کی بہادرانہ استقامت و پائیداری اور دشمنوں کی صفوں پر ہر جانب سے حملہ آوری بالخصوص امیر المومنین حضرت علی (ع)، حضرت حمزہ اور حضرت ابودجاجہ کی سرشکن پے در پے ضربوں کے باعث مشرکین کی سپاہ میں مقابلہ کی تاب نہ رہی اور اس نے اپنی عافیت فراری میں ہی سمجھی۔
جب مشرکین فرار کرنے لگے تو مسلمانوں کے بہت بڑے گروہ نے یہ سمجھا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے، چنانچہ وہ مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے، اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سخت تاکید تھی کہ جن سپاھیوں کو درہ ”عینین“ کی پہرہ داری پر مقرر کیا ہے وہ اپنی ذمہ داری سے ہرگز غافل نہ ہوں، مگر آنحضرت کی تاکید اور فرمانداروں کی سخت کوشش کے باوجود دس افراد کے علاوہ وہ تمام سپاہی جو اس درہ کی نگرانی پر مامور تھے اپنی پہرہ داری کو چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے۔
خالد بن ولید دشمن کی سوار فوج کا فرماندار تھا، فن حرب کی رو سے درہ ”عینین“ کی کیا اہمیت ہے اس سے بخوبی واقف تھا، اس نے کتنی ہی مرتبہ یہ کوشش کی تھی کہ سپاہ اسلام کے گرد چکر لگائے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے اسے ہر مرتبہ پسپا کردیا، اس نے جب مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو سرعت کے ساتھ کوہ احد کا چکر لگایا اور ان باقی سپاہیوں کو قتل کردیا جو وہاں موجود تھے جب درے کی پاسبانی کے لئے کوئی سپاہی نہ رہا تو وہ وہاں سے اتر کے نیچے آیا اور ان سپاھیوں پر اچانک حملہ کردیا جو مال غنیمت سمیٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ عورتوں نے جب خالد بن ولید کے سپاہیوں کو حملہ کرتے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے مال بکھیر دیئے اور گریبان چاک کرڈالے، وہ چیخ چیخ کر مشرکین کو اشتعال دلا رہی تھیں اور کوشش کر رہی تھیں کہ جو لوگ فرار کرگئے ہیں وہ واپس آجائیں۔
دشمن کے ان دو اقدام کے باعث اس کی طاقت دوبارہ منظم ہوگئی، چنانچہ اس نے مسلمانوں پر سامنے اور پشت سے حملہ کردیا، اگرچہ مسلمانوں نے اپنا دفاع کرنا بھی چاہا مگر چونکہ وہ پراگندہ تھے لہٰذا ان کی کوشش کار گر نہ ہوئی۔
اسی اثنا میں میدان جنگ سے یہ صدا بلند ہوئی کہ ”ان محمداً قد قتل“ محمد قتل کردیئے گئے ہیں، جب یہ افواہ ہر طرف گشت کرگئی تو لشکر اسلام ان تین دستوں میں تقسیم ہوگیا:
۱۔ ایک دستہ میدان جنگ سے ایسا گیا کہ واپس نہ آیا، اور جب تین دن بعد اس کے افراد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہونچے تو آنحضرت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: تم نے گویا تنگی سے نکل کر کشادہ راہ اختیار کی تھی۔ (اس دستہ میں عثمان بن عفان بھی شامل تھے﴾
۲۔ دوسرے دستہ میں وہ لوگ شامل تھے جو فرار کرکے گرد و نواح کے پہاڑوں میں چھپ گئے تھے، اور یہ انتظار کر رہے تھے کہ دیکھئے کیا پیش آتا ہے، ان میں سے بعض حواس باختہ ہوکر یہ کہنے لگے کہ اے کاش ہم میں سے کوئی ہوتا جو ”عبد اللہ بن ابی“ کے پاس چلا جاتا اور وہ ابوسفیان سے ہماری امان کے لئے سفارش کرتا۔ (طبری ج۲۔ ص۵۲۰﴾
”انس ابن نصر“ کو راہ میں کچھ ایسے لوگ مل گئے جو فرار کرچکے تھے، انھوں نے گھبرا کر ان سے دریافت کیا کہ تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا :
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے، اس پر انس نے جواب دیا کۂ جب رسول خدا اس دنیا میں نہیں رہے تو یہ زندگی کس کام کی، اٹھو اور جہاں رسول کا خون گرا ہے تم بھی اپنا لہو وہاں بہادو۔
اس گروہ نے جو اکثریت پر مشتمل تھا نہ صرف انس کی بات کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ قول بھی یاد آگیا کہ اے لوگو فرار کرکے کہاں جا رہے ہو خدا کا وعدہ ہے کہ فتح و نصرت ہمیں حاصل ہوگی، لیکن انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک نہ سنی اور فرار کرتے ہی چلے گئے۔
سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۳ میں بھی اس امر کی جانب اشارہ ہے:
إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ۔۔۔
﴿یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا، اور تمہارے پیچھے رسول تم کو پکار رہا تھا۔﴾

Add comment


Security code
Refresh