www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

غزوۂ بنی قینقاع
جو یہودی مدینہ میں آباد تھے ان کی خیانت و نیرنگی کم و بیش جنگ بدر سے قبل مسلمانوں پر عیاں ہوچکی تھی۔ جب مسلمانوں کو جنگ بدر میں غیر متوقع طورپر مشرکین پر فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو وہ سخت مضطرب و پریشان ہوئے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگ گئے۔ قبیلۂ بنی قینقاع اندرون مدینہ آباد تھا اور اس شہر کی معیشت اسی کے ہاتھوں میں تھی، یہی وہ قبیلہ تھا جس کی سازش و شرارت مسلمانوں پر سب سے پہلے آشکار ہوئی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدا میں انہیں نصیحت کی اور اس بات پر زور دیا کہ آنحضرت(ص) کے ساتھ انھوں نے جو عہد و پیمان کیا ہے اس پر قائم رہیں، اس کے ساتھ ہی مشرکین قریش پر جو گزر گئی تھی اس سے بھی آپ نے انہیں آگاہ کیا، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ لوگ خود سری و بے حیائی پر اتر آئے ہیں اور قانون کی پاسداری نیز مذہبی جذبات کی پاکیزگی کا احترام کرنے کے بجائے الٹا اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اور مسلمانوں کی عزت و ناموس پر مسلسل اہانت آمیز حملہ کررہے ہیں تو آپ (ص) نے نصف ماہ شوال (سنہ ۲ ہجری) میں ان کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا تاکہ اس قضیہ کا فیصلہ ہوجائے۔
یھودی تعداد میں تقریباً سات سو سپاہی تھے جن میں سے تین سو زرہ پوش تھے، پندرہ دن تک مقابلہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہی کی تجویز پر ان کا مال و اسلحہ ضبط کرلیا اور انہیں مدینہ سے باہر نکال دیا۔ (مغازی ج۱، ص۱۷۶،۱۷۸﴾
”بنی قینقاع“ کے شرپسندوں کو جب اسلحہ سے محروم اور شہر بدر کردیاگیا تو مدینہ میں دوبارہ امن و اتحاد اور سیاسی پائیداری کا ماحول بحال ہوگیا، اس کے ساتہ ہی اسلامی حکومت کے مرکز یعنی مدینہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی حیثیت و رہبرانہ طاقت پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہوگئی، اس کے علاوہ قریش کے مقابل جو وہ انتقام جوئی کی غرض سے کیا کرتے تھے مسلمانوں کا دفاعی میدان کافی محکم و مضبوط ہوگیا، اور یہی بات قریش کے اس خط سے جو انھوں نے جنگ بدر کے بعد مدینہ کے یھودیوں کو لکھا تھا عیاں ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں سے آئندہ انتقام جوئی کی غرض سے جنگ کی جائے تو ان اسلام دشمن عناصر سے جو خود مسلمانوں میں موجود ہیں جاسوسی اور تباہ کاری کا کام لیا جائے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف مدینہ میں خیانت کار اور عہد شکن کا ہی قلع قمع نہیں کیا تھا بلکہ ان قبائل پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے تھے جو مدینہ کے اطراف میں آباد اور اسلام دشمن تحریکوں نیز سازشوں میں شریک تھے، چنانچہ جب بھی حملے کی ضرورت پیش آئی تو آپ کی تلوار بجلی کی مانند کوندتی ہوئی ان جتھوں پر گرتی، اور ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیتی ”بنی غطفان“ اور ”بنی سلیم“ دو ایسے طاقتور قبیلے تھے جو قریش کے تجارتی راستے پر آباد تھے اور ان کا قریش کے ساتھ سازشی عہد و پیمان بھی تھا، ان کے ساتہ جو جنگ ہوئی وہ ”غزوہ بنی سلیم“ کے نام سے مشہور ہے، قبائل ”ثعلبہ''اور ”محارب“ کے ساتہ جو جنگ لڑی گئی وہ غزوہ ”ذی امر“ کہلائی، قریش نے جنگ بدر کے بعد اپنا تجارتی راستہ بدل دیا تھا اور بحر احمر کے ساحل کے بجائے وہ عراق کے راستے سے تجارت کے لئے جانے لگے تھے ان پر جو لشکر کشی کی گئی وہ ”سریہ۔“ قروہ۔“ کے عنوان سے مشھور ہوئی۔
مسلم سپاہ کی ہوشمندی اور ہر وقت پیش قدمی کے باعث نو عمر اسلامی حکومت اپنی جاسوسی، ہوشیاری اور لشکر کشی کی تعداد اور اہلبیت کی وجہ سے مدینہ کے گرد و نواح میں غالب آگئی، اور اب وہ سیاسی، عسکری طاقت کے عنوان سے منظر عام پر آنے لگی۔
تجارتی راستوں پر مسلمانوں کی مستقل موجودگی کے باعث قریش کی اقتصادی و سیاسی طاقت سلب ہوگئی اور ان کے جتنے بھی تجارتی راستے تھے وہ مسلمانوں کے تحت تصرف آگئے۔
اس عسکری مخابراتی کیفیت کی حفاظت و توسیع اس کے ساتہ ہی اسلام کا فطری و جبلی جذبۂ شجاعت و دلیری اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دانشورانہ دستور العمل ایسے عناصر تھے جن پر اس وقت بھی عمل کیا جاتا تھا جبکہ دین اسلام طاقت کے اعتبار سے اپنے عروج کو پہونچ چکا تھا، تحفظ و توسیع کا اس قدر پاس رکھا جاتا کہ ان مہینوں میں بھی جنھیں ماہ حرام قرار دیا گیا تھا اس مقصد سے غفلت نہیں برتی جاتی تھی۔

Add comment


Security code
Refresh