www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سنہ ۲ ھجری میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک جنگ بدر کا تقدیر ساز معرکہ تھا۔ اس جنگ کا تعلق ارادۂ ایزدی سے تھا۔
قرآن مجید کی آیات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب اور نتیجہ میں جنگ کے لئے نکلنا وحی اور آسمانی حکم کے مطابق تھا جیسا کہ ارشاد ہے:
” كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ “﴿سورہ انفال، آیت۵﴾
”جس طرح تمہارے رب نے تمھیں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا۔“
لیکن وہ بعض سست عقیدہ لوگ کہ جو اسلامی حکومت کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے انھیں اس جنگ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہونا گوارا نہ تھا۔
” وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ “
”اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ گوارا نہ تھا۔“
یہ ظاہر بین گروہ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اقدام حکم خدا کے عین مطابق ہے آنحضرت (ص)کے ساتہ جنگ پر جانے کے لئے جھگڑا کرنے پر لگا ہوا تھا۔
”یجادلونک فی الحق بعد ما تبین“
”یہ لوگ حق کے واضح ہوجانے کے بعد بہی آپ سے بحث کرتے ہیں۔“
قرآن مجید نے اس گروہ کی ذہنی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے۔
”کانما یساقون الیٰ الموت و ھم ینظرون“
”جیسے یہ موت کی طرف ہنکائے جارہے ہیں اور یہ حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔“
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جو لوگ اس مقصد و منشاء کے مخالف تھے ان کی مخالفت بدبینی اور ایمان کی کمزوری کی بناپر نہ تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں چونکہ یہ یقین نہیں تھا کہ یہ جنگ وقوع پذیر ہوگی اسی لئے وہ ساتھ چلنے سے انکار کر رہے تھے، مگر اس بارے میں قرآن مجید کا صریح ارشاد ہے کہ۔۔۔ (المغازی واقدی ج۱، ص۲۱﴾
اگرچہ حق ان پر واضح و روشن ہوچکا تھا مگر اس کے باوجود انہیں اسے قبول کرنا گوارانہ تھا، ان کی دلیل یہ تھی کہ ہماری تعداد بہت کم ہے اور دشمن بہت زیادہ ہیں ایسی صورت میں ہم اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مدینہ سے باہر کیسے جاسکتے ہیں، شاید ہمارے اس اقدام کو ہماری نادانی پر محمول کیا جائے، کیونکہ یہ بھی تو نہیں معلوم کہ یہ کاروان جنگ ہے یا قافلۂ تجارت؟ (مجمع البیان ج۳، ص۵۲﴾
دوسری دلیل جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمین و کفار کے درمیان یہ جنگ حکم الٰہی کا قطعی و حتمی نتیجہ تھی اور انہیں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دلا رہی تھی، یہ تھی کہ جنگ سے پہلے دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی تعداد کم نظر آرہی تھی۔”و اذ یریکموھم اذا لتقیتم فی اعینھم قلیلا و یقلکم فی اعینھم۔“
”اس وقت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے انھیں تمہاری نگاہوں میں کم دکھایا اور تمہیں اس کی نگاہوں میں کم دکھایا۔“
دشمن کی تعداد کو قلیل کرکے دکھانے کی وجہ یہ تھی کہ اگر کچہ مسلمانوں کو دشمن کی تعداد، طاقت اور جنگی تیاری کا اندازہ ہوجاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ جنگ میں سستی سے کام لیتے اور ان کے درمیان باہمی اختلاف پیدا ہوجاتا۔
”و لا ارئکھم کثیرا لفشلتم و لتنازعتم فی الامر“
”اگر کہیں وہ تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور جنگ کے معاملے میں جھگڑا شروع کردیتے۔“
اس وقت سیاسی اور فوجی صورت حال ایسی تھی کہ اگر وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کا وعدہ بھی کرتے تو وہ اس سے روگرداں ہوجاتے۔
”و لو تواعدتم لاختلفتم فی المیعاد“
اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرار داد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کرجاتے۔ (سورۂ انفال آیت ۴۴﴾
دوسری طرف اگر دشمن کو مسلمان طاقت و تعداد میں زیادہ نظر آتے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ کفار مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے گریز کرجاتے اور اس تقدیر ساز جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوتے۔
چنانچہ یہی وجہ تھی کہ خداوند تعالیٰ نے حالات ایسے پیدا کردیئے کہ اب دونوں گروہوں کے لئے اس کے علاوہ چارہ نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل آجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں تاکہ ارادۂ خداوندی حقیقت کی صورت میں جلوہ گر ہو۔
”لیقضی اللہ امرا کان مفعولا“
”تاکہ جو بات ہوئی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے۔“
اس زمانے میں اسلامی معاشرے کی جو سیاسی و اجتماعی حالت تھی اگر ہم اس کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہونچیں گے کہ اس وقت ایسی فاتحانہ جنگ کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو تیرہ سال تک با آواز بلند اپنی امت کی اصلاح و نجات کے لئے دعوت اسلام دیتے رہے آپ کی اس صدائے حق و عدل کو معدودے چند افراد کے علاوہ نے نہ صرف سننا گوارا نہ کیا بلکہ ہر قسم کی ایذا و تکلیف پہونچا کر جلاوطنی کے لئے مجبور کردیا اور جو لوگ وہاں رہ گئے تھے وہ بھی سخت ایذا و آزار سے دوچار تھے اور ان پر ایسی سخت پابندیاں لگا رکھی تہیں کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ بھی نہیں جاسکتے تھے۔(حوالہٴ سابق﴾
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہجرت کے بعد بھی دشمنوں نے چین کی سانس لینے نہ دیا۔ ابوجہل نے خط لکھ کر آنحضرت(ص) کو یہ دھمکی دی کہ یہ مت سمجہ لینا کہ تم نے ہجرت کرکے قریش کے چنگل سے نجات پالی ہے، دیکھنا جلد ہی تم پر چاروں طرف سے قریش اور دوسرے دشمنوں کی طرف سے یلغار ہوگی اور یہ ایسا سخت حملہ ہوگا کہ تمہارا اور تمہارے دین اسلام کا نام صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہوجائے گا۔“ رسول خدا(ص) کو یہ خط جنگ شروع ہونے سے ”۲۹“ دن پہلے ملا تھا۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۱۴۴﴾
دوسری طرف انصار مسلمین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا، انہیں جب بھی موقع ملتا اور جس وقت بھی وہ مناسب سمجھتے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تحفظ اور آپ کے دین کی پاسداری کا اعلان کردیتے۔
مہاجرین نے ان مہمات و غزوات میں شرکت کرکے جو جنگ بدر سے پہلے وقوع پذیر ہوچکے تھے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ اب بھی حسب سابق اپنے ارادے پر قائم اور ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔
دوسری طرف منافقین اور یہودیوں کی تحریک اپنا کام کر رہی تھی، ابتدا میں جب آنحضرت(ص) مدینہ تشریف لائے تو انھوں نے آپ کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا لیکن جب وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے تو مخالفت و سرکشی پر اتر آئے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اٹھارہ ماہ سے زیادہ قیام کے دوران جہاں تک ہوسکتا تھا دشمن سے مقابلہ کے لئے فوج تیار کی۔
تمام پہلووٴں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ وقت آن پہونچا تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسیع پیمانے پر فتح مندانہ عسکری تحریک شروع فرمائیں اور دین اسلام کو گوشہ نشینی اور خفت و شرمساری کی حالت سے نکال کر اسے اجتماعی طاقتور و یلغاری تحریک میں بدل دیں تاکہ شرک کے دعویدار اچھی طرح سمجھ لیں کہ مکہ میں جو مسلمانوں کی حالت تھی اب وہ بدل چکی ہے اور اگر اس کے بعد مخالفت و خلل اندازی کی گئی تو وہ ہوں گے اور اسلام کی ایسی شمشیر براں ہوگی جس سے ان کی بیخ و بنیاد تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گی کیونکہ یہ اقدام و ارادہ حق کی جانب سے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔
”یرید اللّٰہ ان یحق بکلماتہ و یقطع دابر الکافرین“
”خدا اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کردینا چاہتا ہے اور کافروں کے سلسلے کو قطع کردینا چاہتا ہے۔“
جنگ بدر کی مختصر تاریخ
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتوار کے روز ۱۲رمضان سنہ ۲ ھجری کو ۳۱۳ مسلمان افراد کے ہمراہ (جن میں ۸۱مھاجرین اور ۲۳۱انصار شامل تھے) مدینہ سے ”بدر“ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے، اور قریش کے اس تجارتی قافلہ کا تعاقب کرنا تھا جو ابوسفیان کی سرکردگی میں جارہا تھا۔
”دفیران“ کے مقام پر آپ کو اطلاع ملی کہ ابوسفیان اپنے قافلہ کی حفاظت کی خاطر راستہ بدل کر مکہ چلا گیا ہے لیکن مسلح سپاھی مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے ”بدر“ کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کے درمیان اس خبر کا اعلان کرنے کے بعد ان سے مشورہ کیا، متعلقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ اس مختصر سپاہ کے ساتہ ہی دشمن کا مقابلہ کیا جائے، چنانچہ اب یہ قافلہ ”بدر“ کی جانب روانہ ہوا۔
آخر ۱۷رمضان کو دونوں لشکروں کے سپاھیوں میں بدر کے کنووٴں کے پاس مقابلہ ہوا۔
جنگ کا آغاز دشمن کی طرف سے ہوا، پہلے مشرکین کے تین دلاور ”عتبۂ شیبہ اور ولید“ نکلے جو کہ ”حضرت علی علیہ السلام، حضرت حمزہ او رحضرت عبیدہ''کے ہاتھوں جھنم رسید ہوئے۔
عام یورش میں سپاہ اسلام نے پروردگار کی غیبی امداد، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندانہ فرمانداری اور اپنے بارے میں جہاد سے متعلق آیات سن کر پہلے تو دشمن کے ابتدائی حملوں کا دفاع کیا، اس کے بعد اس کی صفوں میں گھس کر ایسی سخت یلغار کی کہ اس کی صفیں درہم برہم ہوکر رہ گئیں، اور بہت سی سپاہ بالخصوص فرعون قریش یعنی ابوجہل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔دشمن کا لشکر جو نوسوپچاس (۹۵۰) سپاھیوں پر مشتمل اور پورے ساز و سامان جنگ سے مسلح و آراستہ تھا، سپاہ اسلام کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکا، چنانچہ کثیر جانی و مالی (ستر (۷۰) مقتول اور ستر قیدی کا) نقصان برداشت کرنے کے بعد اس نے راہ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھی ۔اس جنگ میں سپاہ اسلام میں سے صرف ۱۴ نے جام شہادت نوش کیا۔ (تاریخ پیامبر ص۲۵۳۔ مولف امینی﴾
یہاں ہم مختصر طور پر سہی لیکن چند مسائل کا ذکر و تجزیہ کریں گے:
۱۔ مال غنیمت اور قیدیوں کا انجام
۲۔ فتح و کامیابی کے عوامل
۳۔ جنگ کا نتیجہ
الف: مال غنیمت اور قیدیوں کا انجام
جنگ بدر میں ایک سو پچاس (۱۵۰) اونٹ، دس اور بعض روایات کے مطابق تیس گھوڑے، بہت سے ہتھیار اور وہ کھالیں جنھیں قریش تجارت کے لئے لے جارہے تھے مسلمانوں کو غنیمت میں ملیں، مگر اس مال کی تقسیم پر ان کے درمیان اختلاف ہوگیا جس کا سبب یہ تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ مال غنیمت میں ان مجاہدین کا بھی حصہ ہے جنھوں نے جنگ میں شرکت کی تھی؟ یا یہ ان سپاھیوں کا بھی حصہ ہے جو دشمن سے نبرد آزما ہوئے تھے؟ اس مال غنیمت میں آیا سب کا حصہ برابر تھا یا پیدل اور سوار سپاہ کے درمیان کوئی فرق و امتیاز رکھا گیا تھا؟ (المیزان ج۹ ص۹﴾
یہ معاملہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا اور سورۂ ”انفال“ کی پہلی آیت نازل ہوئی جس نے مسئلۂ مال غنیمت کو روشن کردیا۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿سورہ انفال ،آیت ١﴾
﴿تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے یہ انفال تو اللہ اور اس کے رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات میں فرق نہ آنے دو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو﴾
اس آیہٴ شریفہ کی بنیاد پر مال غنیمت خدا اور رسول کا حق ہے، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے تین سو تیرہ حصے کرکے اسے سب کے درمیان تقسیم کردیا تقسیم کے اعتبار سے ہر دو سوار سپاہیوں کے لئے دو اضافی حصے مقرر کئے گئے تھے،شہداء کا حصہ ان کے پس ماندگان کو دے دیا گیا۔ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ وہ لوگ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مدینہ میں اپنی خدمات انجام دینے کے لئے مقرر کئے گئے تھے اور وہ وہیں مقیم تھے ان کا بھی حصہ مقرر کیا گیا تھا۔ (مغازی ج۱۷، ص۱۰۰ و ۱۰۱﴾
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قیدیوں کو مدینہ لے جایا گیا، راستے میں پڑنے والی منزلوں میں سے ایک پر دو آدمیوں ”نصر بن حارث“ اور ”عقبہ بن ابی معیط“ کو رسول خدا کے حکم سے قتل کردیا گیا۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۲۹۸﴾
مذکورہ اشخاص کے قتل کئے جانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ دونوں ہی کفر کے سرغنہ اور اسلام کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کو جس بری طرح تکالیف پہونچائی تھیں اس کی ایک طویل داستان ہے، اگر یہ لوگ آزاد ہوکر واپس مکہ پہونچ جاتے تو یہ امکان تھا کہ وہ از سر نو اسلام کی بیخ کنی کے لئے سازشوں میں مشغول ہوجاتے۔
چنانچہ ان کا قتل کیا جانا اسلام کی مصلحت کے تحت تھا تاکہ انتقام لینے کی غرض سے ان تمام قیدیوں کو فدیہ وصول کرکے جو کہ (ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا) بتدریج آزاد کردیا گیا۔ ان میں جو لوگ نادار تھے مگر لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے انھیں آزاد کرنے کی یہ شرط رکھی کہ اگر وہ دس مسلمانوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دیں گے تو انھیں آزاد کر دیا جائے گا۔
ان قیدیوں میں چند اشخاص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے رشتہ دار بھی تھے چنانچہ رسول خدا(ص) کے چچا جناب عباس اپنا اور ”عقیل“ و ”نوفل“ نامی اپنے دو بھتیجوں کا فدیہ ادا کرکے آزاد ہوئے، اگرچہ ان لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے نبی ہونے کی شہادت بھی دے دی تھی، تمام قیدیوں میں یہی افراد تھے جو دین اسلام سے مشرف ہوکر واپس مکہ پہونچے۔ (الصحیح من سیرة النبی ج۲، ص۲۴۳ ،۲۵۷﴾
ب: فتح و کامیابی کے اسباب
اس میں شک نہیں کہ جنگ بدر میں کفار کو طاقت اور اسلحہ کے اعتبار سے مسلمانوں پر فوقیت حاصل تھی مگر مسلمانوں کو مختلف عوامل کی بناپر فتح حاصل ہوئی اور وہ عوامل، دین و اسلام پر ایمان و اعتقاد جیسی نعمت اور مدد خداوندی تھی۔
ہم دو اہم عنوانات کے تحت ان عوامل کی وضاحت کریں گے۔
۱۔ معنوی عوامل
۲۔ مادی اور عسکری عوامل
معنوی عوامل
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کے اس وعدہ کے مطابق کہ میں تمھیں قریش کے تجارتی قافلہ پر فتح یاب کروں گا لشکر اسلام کو ”ذفران“ میں پہونچا دیا اور یہی وعدہ ان کے لئے جنگ میں جراٴت و حوصلہ مندی کا سبب ہوا۔”و اذ یعدکم اللّٰہ احدی الطائفتین انھا لکم“”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کررہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمھیں مل جائے گا۔“
جس روز جنگی کاروائی ہونے والی تھی اسی دن کی شب میں بارش ہوئی جس کے دو فائدے ہوئے :
الف: مسلمانوں کی چونکہ بدر کے کنووٴں تک رسائی نہیں تھی کہ جس سے غسل کرتے اور خود کو ہر طرح کی نجاست سے پاک کرتے۔
ب: چونکہ بارش کثرت سے ہوئی تھی اس لئے دشمن کی سپاہ کیچڑ اور دلدل میں پھنس گئی اور اسے جنگ کی مشق کرنے کا موقع نہ مل سکا لیکن جس طرف مسلم سپاہ تھی وہاں کی زمین کنکریلی تھی جو بارش کے پانی سے مزید پختہ ہوگئی۔
وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿سورہ انفال،آیت ١١﴾
اور آسمان سے تمھارے اوپر پانی برس رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمھاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعہ تمھارے قدم جم جائیں۔
۳۔ جس روز جنگ ہوئی تھی اس سے پہلی رات میں مسلمانوں کو عالم خواب میں بشارت ملی تھی اور ان کے دلوں کو اطمینان ہو گیا تھا۔
۴۔ مسلمانوں کی مدد کے لئے تین ہزار فرشتوں کا زمین پر اترنا۔
۵۔ دونوں لشکر ایک دوسرے کی تعداد کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ اس سے قبل کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جنگ شروع ہو وہ ایک دوسرے کی تعداد کو کم سمجھ رہے تھے، لیکن جیسے ہی جنگ شروع ہوئی دشمن کو مسلمانوں کی تعداد دوگنا نظر آنے لگی۔
قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ﴿سورہ آل عمران ،آیت ١۳﴾
﴿تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو ”بدر“ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے، ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا، دیکھنے والے بچشم خود دیکہ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دوگنا ہے۔﴾
۶۔ کفار کے دلوں پر مسلمانوں کے اس رعب کا چھا جانا جسے ”رعب نصریہ''سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب
میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں۔
۷۔ سپاہ کی کثرت اور سامان جنگ کی فراوانی کے باعث لشکر کفار کا غرور و تکبر۔
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ﴿سورہ انفال،آیت ۴۸﴾
﴿اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوش نما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور پھر میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔﴾
جب ہم اس کامیابی اور غیبی مدد کے بارے میں غور کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ یہ فتح و نصرت خداوند تعالیٰ کی جانب سے تھی۔
”حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبی تم نے ان پر ایک مٹھی خاک نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے۔“
مادی اور عسکری عوامل
۱۔ پیغمبر اکرم (ص) کی دانشمندانہ کمانڈری اور لشکر کی سپہ سالاری نیز آنحضرت کا بذات خود جنگ کی صف میں اور دشمن کے روبرو موجود رہنا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ…… جب جنگ و کارزار کے شعلے پوری طرح مشتعل ہوجاتے تو ہم رسول خدا(ص) کی پناہ تلاش کرتے اور ہم میں سے کوئی شخص دشمن کے اس قدر نزدیک نہ ہوتا جتنے آنحضرت(ص) ہوتے۔
۲۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے شجاعت مندانہ اور دلیرانہ کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے مورخین نے لکھا ہے کہ۔ ۔ ۔ اس جنگ میں بیشتر مشرکین کا خون حضرت علی (ع) کی تیغ سے ہوا۔
جناب علامہ مفید مرحوم نے لکھا ہے کہ حضرت علی (ع) کے ہاتھوں چھتیس (۳۶) مشرک تہ تیغ ہوئے۔ اگرچہ باقی مقتولین کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے کیونکہ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے قتل میں حضرت علی (ع) شریک تھے۔ (ارشاد مفید ص۴۰﴾
چنانچہ حضرت علی (ع) کے عظیم حوصلے اور تقدیر ساز کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کفار قریش نے آپ (ع) کو ”سرخ موت“ کا لقب دیا تھا۔ (مناقب ابن شہر آشوب ج۲، ص۶۸﴾
۳۔سپاہ اسلام کا جذبۂ نظم و ضبط، اپنے فرماندار کے حکم کی اطاعت، اور میدان کارزار میں صبر و پائیداری کے ساتھ ڈٹے رہنا۔
۴۔ دشمن کی صورت حال کے بارے میں صحیح و دقیق معلومات اور اس کے ساتھ ہی رسول خدا(ص) کی جانب سے جن جنگی حربوں کو بروئے کار لانے کی ہدایت دی جاتی تھی اس کی مکمل اطاعت۔
جنگ بدر کے نتائج
زمانہ کے اعتبار سے ”غزوہ ٴبدر“ کی مدت اگرچہ ایک روز سے زیادہ نہ تھی لیکن سیاسی و اجتماعی اعتبار سے نیز جو نتائج برآمد ہوئے ان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے یہ جنگ نہ صرف مسلمانوں کی تاریخی معرکہ آرائی بلکہ حیات اسلام کو ایک نئے رخ کی جانب لے جانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ دونوں ہی گروہوں کے لئے تقدیر ساز تھی۔ مسلمانوں کے واسطہ یہ جنگ اس اعتبار سے اہمیت کی حامل تھی کہ وہ جانتے تھے کہ اگر اس جنگ میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں (اور ہوئے بھی) تو عسکری طاقت کا توازن بدل کر مسلمانوں کے حق میں ہوجائے گا اور اس علاقہ میں ان کے بارے میں غور و فکر کیا جانے لگے گا اور رائے عامہ ان کی جانب ہوگی۔ اس کے علاوہ اور بھی مفید نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔( ان کا ذکر ہم ذیل میں کریں گے)اس کے برعکس اگر اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوجاتی تو اس کے بعد اسلام کا نام و نشان باقی نہ رہتا، چنانچہ رسول خدا(ص) کا جنگ سے پہلے کا وہ ارشاد جو بصورت دعا فرمایا اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔
اللّٰھم ان تھلک ھذہ العصابة الیوم لاتعبد
پروردگار اگر آج یہ جماعت تباہ ہوگئی تو تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ (السیرة النبویہ﴾
اب ہم اس مسئلہ کو کفار کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، اگر وہ اس جنگ میں کامیاب ہوجاتے تو رسول اکرم (ص) اور ان مسلمانوں کا قصہ بھی پاک ہوجاتا جو آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ لوگ قریش کے چنگل سے نکل کر مدینہ میں پناہ گزین ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل مدینہ کے لئے درس عبرت ہوتا کہ وہ آئندہ ایسی جراٴت نہ کریں کہ دشمنان قریش کو اپنے گھروں میں پناہ دیں اور اہل مکہ کا ان سے کوئی مقابلہ ہو۔
جنگ بدر میں خداوند تعالیٰ کی مرضی سے جو پیشرفت ہوئی اس کے باعث اسلامی معاشرہ نیز مشرکین سیاسی، اجتماعی، عسکری اور اقتصادی لحاظ سے بہت متاٴثر ہوئے بطور مثال:
۱۔ مسلمانوں بالخصوص انصار کے دلوں میں نفسیاتی طور پر مکتب اسلام کی حقانیت کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ اطمینان و اعتقاد پیدا ہوگیا اور اسلام کے درخشاں مستقبل کے متعلق ان کی امیدیں اب بہت زیادہ ہوگئیں کیونکہ میدان جنگ میں طاقت ایمان کے مظاہرے کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکہ لیا تھا۔
دوسری طرف ”جزیرة العرب“ کے لوگوں میں اسلام کو برتر طاقت کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا چنانچہ اب سب ہی لوگ رسول خدا (ص) کے آئین اسلام کی جانب راغب ہونے لگے۔
۲۔ جنگ بدر ایسی طوفان خیز ثابت ہوئی کہ اس نے مخالفین اسلام (مشرکین، یہود اور منافقین) کی بنیادوں کو لرزا دیا، چنانچہ ان کے دلوں میں ایسا خوف و ہراس پیدا ہوا کہ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اپنی حفظ و بقا کی خاطر اپنے تمام اختلافات کے باوجود یک جا ہوجائیں اور مسلمانون کو تہ تیغ کرنے کے لئے کوئی راہ تلاش کریں۔
جنگ بدر کے بعد پورے شہر مکہ میں صف ماتم بچہ گئی، قریش کا کوئی گھرانہ ایسا نہ بچا جہاں کسی عزیز کے مرنے کی وجہ سے رسم سوگواری نہ منائی گئی ہو اورجو چند قریش باقی بچ رہے انھوں نے اضطراری حالت کے تحت جلسہ طلب کیا اور وہ اس بات پر غور و فکر کرنے لگے کہ اس ننگ آور شکست کے منفی اثرات کو کیسے دور کریں اور اس کی تلافی کس طرح کی جائے۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۳۰۲﴾
”ابولہب“ کو تو ایسا صدمہ ہوا کہ وہ جنگ بدر کے بعد دس دن کے اندر اندر ہی غم و اندوہ سے گھل گھل کر راہی ملک عدم ہوگیا۔
مدینہ میں بھی جس منافق و یہودی نے مسلمانوں کی فتح و کامرانی کے بارے میں سنا اس کا شرم و خجالت سے سر جھک گیا۔
ان میں بعض نے تو یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ․․․ جنگ ”بدر“ میں اتنے شرفاء، سرداران قوم، حکمرانان عرب اور اہل حرم مارے گئے ہیں کہ اب اس کے بعد ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ زمین کے سینہ پر رہنے کے بجائے اس کی کوکہ میں چلے جائیں۔ اور بعض کی زبان پر یہ بات بار بار آرہی تھی کہ ”اب جہاں کہیں پرچم محمدی لہرائے گا فتح و نصرت اس کے دوش بدوش ہوگی۔“
۳۔ جنگ بدر سے مسلمانوں کو جو مال غنیمت ملا اس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوگئی اور اس کی وجہ سے ان کی ذاتی اور لشکری ضروریات بھی پوری ہوگئیں ، ان کے واسطہ جنگ کے راستہ زیادہ ہموار اور وسیع ہوگئے ۔ اس کے مقابل قریش کی اقتصادی زندگی کو سخت نقصان پہونچا کیونکہ ایک طرف تو وہ تمام تجارتی راستے جو شمال کی طرف جاتے تھے ان کے لئے مخدوش ہوگئے، دوسری طرف جنگ میں وہ تمام لوگ مارے گئے جو فن تجارت کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور مکہ کی اقتصادی زندگی کا انحصار انہی کے ہاتھوں میں تھا۔

Add comment


Security code
Refresh