www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یثرب کے لوگ دین اسلام قبول کرنے میں کیوں پیش پیش رہے اس کی کچھ وجوہ تھیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
۱۔ وہ لوگ چونکہ یہودیوں کے گرد و نواح میں آباد تھے اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور پذیر ہونے کی خبریں اور آنحضرت کی خصوصیات ان کی زبان سے اکثر سنتے رہتے تھے، چنانچہ جب کبھی ان کے اور یہودیوں کے درمیان تصادم ہو جاتا تو یہودی ان سے کہا کرتے تھے کہ جلد ہی اس علاقے میں پیغمبر کا ظہور ہوگا، ہم اس کی پیروی کریں گے اور تمہیں قوم ”عاد “ اور ”ارم“ کی طرح تباہ و برباد کرکے رکہ دیں گے۔ (حوالہ سابق﴾
۲۔ قبیلہ ”اوس اور خزرج“ کے درمیان سالہا سال سے کشت و خونریزی کا سلسلہ چلا آرہا تھا، اھل یثرب اس داخلی جنگ سے تنگ آچکے تھے، دونوں ہی قبائل کے بزرگ اس فکر میں تھے کہ کوئی ایسی راہ نکل آئے جس کے ذریعہ اس خانماں سوز جنگ سے نجات ملے، رسول خدا (ص) کی آمد ان کے لئے درحقیقت امید بخش خوشخبری تھی چنانچہ یھی وجہ تھی کہ انھوں نے رسول خدا سے پہلی ہی ملاقات میں عرض کیا:
ہم اپنے قبائل کے افراد کو جنگ و نزاع میں چھوڑ کر (آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں) امید ہے کہ خداوند تعالیٰ آپ کے ذریعہ ان میں صلح کرادے، اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹہ رہیں۔ ۔ ۔ ۔
اگر ایسا ہوجائے تو ہمارے نزدیک آپ سے بڑہ کر کوئی شخص عزیز نہ ہوگا۔ (حوالہ سابق﴾
۳۔ حقیقت کی جستجو و تلاش کرنے والوں کی خدمت رسول میں بار بار حاضری۔ ۔ ۔
اہل یثرب کی زمانہ حج میں آنحضرت سے پے در پے ملاقات، کلام اللہ کی تاثیر، پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ یثرب سے باہر تشریف لے جائیں، قریش نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ بتاریخ پہلی ربیع الاول بعثت کے چودھویں سال آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا، رسول اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ تم۔
بستر پر آرام کرو اور ان کا مخصوص شانہ پوش اپنے سر مبارک پر ڈال لیا تاکہ دشمن کو یہ اندازہ نہ ہوسکے کہ آپ گھر سے تشریف لے جارہے ہیں، اس کے بعد آپ نے مٹھی بھر خاک دست مبارک میں اٹھائی اور محاصرہ کرنے والوں پر پھینک دی، اور سورۂ یاسین کی ایک سے نو تک آیات کی تلاوت فرمائی، اور گھر سے باہر اس طرح تشریف لے گئے کہ کسی کو آپ کے وہاں سے جانے کا گمان تک نہ ہوا۔
رسول خدا نے گھر سے باھر تشریف لانے کے بعد شمال کی جانب رخ نہیں فرمایا، کیونکہ اس طرف سے ”یثرب“ کا راستہ گزرتا تھا بلکہ اس کے برعکس جنوب مکہ کی راہ اختیار فرمائی اور ابوبکر کے ساتھ ”غار ثور“ میں تشریف لے گئے۔
جب قریش کو یہ علم ہوا کہ رسول خدا گھر سے باہر تشریف لے گئے ہیں تو وہ شہر مکہ اور تمام راستوں کی نگرانی کرنے لگے جو ”یثرب“ پر جاکر ختم ہوتے تھے، یھی نہیں بلکہ انہوں نے ان لوگوں کو بھی ان راستوں پر مقرر کر دیا، جنھیں مسافرین کے نقش قدم پہچاننے کی مہارت تھی، اور یہ اعلان کیا کہ جو شخص بھی آپ کو گرفتار کرکے لائے گا اسے سو اونٹ بطور انعام دیئے جائیں گے۔
لیکن وہ اپنی جستجو اور تلاش کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے، چنانچہ تین دن کے بعد تھک ہار کر بیٹھے رہے۔
رسول اکرم (ص) جتنے عرصے ”غار ثور“ میں تشریف فرما رہے حضرت علی (ع) پیغمبر خدا اور آپ کے یار غار ابوبکر کے لئے کھانا پہونچاتے رہے، اس کے ساتھ ہی آپ (ع) مکہ کے حالات و واقعات سے بھی آنحضرت کو اطلاع فرماتے رہے۔
پیغمبر اس غار کے قیام کی چوتھی شب میں امیر المومنین حضرت علی (ع) کی معنوی کشش اور ان ملاقاتوں کے دوران آسمانی آئین کی فطرت سے ہم آھنگی آپ کی سود مند و پر مغز گفتگو اس امر کا باعث ہوئی کہ قبائل ”اوس“ و ”خزرج“ کے افراد جانب حق کشاں کشاں چلے آئیں اور دین اسلام کو انھوں نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔

Add comment


Security code
Refresh