www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی خبر جیسے ہی مکہ کی فضا میں گونجی ویسے ہی قریش کے اعتراضات شروع ہوگئے، چنانچہ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے اور ان کے خس و خاشاک جیسے دینی عقائد اور مادی مفاد کے لئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ کے پیش کردہ آسمانی دین و آئین کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی ہم یہاں ان کی بعض وحشیانہ حرکات کا ذکر کر رہے ہیں:
الف: مذاکرہ
مشرکین قریش کی شروع میں تو یہی کوشش رہی کہ وہ حضرت ابوطالب علیہ السلام اور بنی ہاشم کے مقابلہ میں نہ آئیں بلکہ انہیں مجبور کریں کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت و پشت پناہی سے دست بردار ہوجائیں تاکہ وہ آسانی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو ناکام بناسکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے پہلے تو یہ کوشش کی کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کو یہ کہنے پر مجبور کردیں کہ ان کے بھتیجے کی تحریک نہ صرف ان (مشرکین قریش) کے لئے ضرر رساں ہے بلکہ قوم و برادری میں انہیں جو عزت و حیثیت حاصل ہے اس کے لئے بھی خطرہ پیدا ھوگیا ہے۔
مشرکین قریش نے عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل جوان شاعر کو حضرت ابوطالب علیہ السلام کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں ور آپ کو ان کے حوالے کردیں۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام نے ان کی ہر بات کا نفی میں جواب دیا ور اس کام کے لئے کسی بھی شرط پر آمادہ نہ ہوئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں۔
ب: لالچ
سرداران قریش کو جب پہلے ہی مرحلے میں شکست و ناکامی ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ چراغ نبوت کو خاموش کرنے کے لئے داعی حق کو مال و دولت کی لالچ دی جائے، چنانچہ اس مقصد کے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے پاس پہونچے اور یہ شکوہ و شکایت کرتے ہوئے کہ ان کے بھتیجے (حضرت محمد) نے ان کے دیوتاوٴں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی نازیبا ہے، لہٰذا اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دیوتاوٴں سے دستکش ہوجائیں تو ہم انہیں دولت سے مالا مال کردیں گے، ان کی اس پیشکش کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا:
خداوند متعال نے مجھے دنیا اور زراندوزی کے لئے انتخاب نہیں فرمایا ہے بلکہ مجھے اس لئے منتخب کیا ہے کہ لوگوں کو اس کی جانب آنے کی دعوت دوں اور اس مقصد کی طرف ان کی رہبری کروں۔
یہ بات آپ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمائی ہے:
چچا جان! خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتہ اور چاند کو بائیں ہاتہ میں رکھ دیں تو بھی میں نبوت سے دست بردار ہونے والا نہیں، اس خدائی تحریک کو فروغ دینے کے لئے میں جان کی بازی تو لگا سکتا ہوں مگر اس سے دستکش ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں۔
سرداران قریش نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کریں گے، چنانچہ اس مقصد کے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا، اور آپ کو اپنے مجمع میں آنے کی دعوت دی، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں میں پہونچ گئے تو کفار قریش نے آپ کے رویّہ کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو مال و دولت کی تمنا ہے تو ہم اتنا مال و متاع دینے کے لئے تیار ہیں کہ آپ دولتمندوں میں سب سے زیادہ مالدار ہوجائیں، اگر آپ کو جاہ و امارت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لئے تیار ہیں، اور ایسے مطیع و فرمانبردار بن کر رہیں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر آپ کے دل میں حکومت اور سلطنت کی آرزو ہے تو ہم آپ کو اپنا حکمراں و فرمانروا تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔
یہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں مال و دولت جمع کرنے، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہونچنے کےلئے منتخب نہیں کیا گیا ہوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے پیغمبر کی حیثیت سے تمہارے پاس بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، مجھے تمہارے پاس جنت کی خوشخبری دینے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے کے لئے مقرر کیا ہے جس پیغام کو پہونچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے اسے میں نے تم تک پہونچا دیا ہے، اگر تم میری بات مانوگے تو تمہیں دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی، اور اگر تم میری بات کو قبول کرنے سے انکار کروگے تو میں اس راہ میں اس وقت تک استقامت و پائیداری سے کام لوں گا کہ خداوند تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے۔
ج: تہمت و افترا پردازی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرشتوں جیسے چہرہ مبارک کو داغدار کرنے کے لئے قریش نے جو پست طریقے اختیار کئے ان میں سے ایک احمقانہ حربہ آپ پر تہمتیں لگانا بھی تھا چنانچہ آپ کو دروغگو یا جنونی ہونے سے زیادہ ساحر و جادوگر سمجھنے لگے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اس شخص کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جس کے ذریعے یہ شخص باپ بیٹوں، بیوی و شوہر، دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان جدائی پیدا کردیتا ہے۔
قرآن مجید نے ایسی تہمتوں کے بارے میں کئی جگہ اشارہ کیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متبرک و مقدس ذات کو اس قسم کے اتہامات و الزامات سے منزہ و مبرہ قرار دیا ہے۔
ایک آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کہہ کر دلجوئی کی ہے کہ یہ پست شیوہ ان ہی کفار کی خصوصیت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دشمنان انبیاء اسی قسم کے حربے استعمال کرچکے ہیں۔
كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ۔ أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ (سورہ ذاریات،آیت ۵۲۔۵۳﴾
یوں ہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون، کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔
د: شکنجہ و ایذاء رسانی
آپ کی طرف اتہامات و ناشائستہ حرکات کی نسبت دینے کے ساتھ ہی انہوں نے آپ کو ایذاء و آزار رسانی بھی شروع کردی، اور انھوں نے ایذاء رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، قریش کا یہ غیر انسانی طرز عمل نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابولھب اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور ان کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بھت زیادہ ایذاء و تکلیف پہونچائی۔
ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے بازار (عکاظ) کی جانب تشریف لے جارہے تھے کہ ابولھب بھی آپ کے پیچھے پیچھے بلا بلا کر کہنے لگا: لوگو! میرا یہ بھتیجا جھوٹا ہے اس سے بچ کر رہنا۔
قریش آوارہ لڑکوں کو اور اپنے اوباش غلاموں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر بٹھا دیتے اور جب آنحضرت اس راستے سے گزرتے تو سب آپ کے پیچھے لگ جاتے آپ کا مذاق اڑاتے، جس وقت آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ پر اونٹ کی اوجھڑی میں سے فضلہ انڈیل دیتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے ہاتھوں ایسی سختیاں برداشت کیں کہ ایک مرتبہ زبان مبارک پر آہی گیا:
مااوذی احد مثل ما اوذیت فی اللہ۔
راہ خدا میں کسی بھی پیغمبر کو اتنی اذیتیں نھیں دی گئی جتنی مجھے دی گئی ہیں۔
صحابہ رسول کے بارے میں بھی انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر نو قبیلہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لئے انہیں ہر طرح کی ایذاء و تکلیف پہونچائیں تاکہ وہ مجبور ہوکر اپنے نئے دین و آئین سے دستکش ہوجائیں۔
یاسر، ان کی اھلیہ ”سمیہ''اور فرزند ”عمار“ جناب ابن ارت، عامر ابن فھیدہ اور ”بلال حبشی“ نے دیگر مسلمین کے مقابل زیادہ مصائب و تکالیف برداشت کیں۔
”سُمیہ''پہلی مسلم خاتون تھیں جو فرعون قریش ابو جھل کی طاقت فرسا ایذاء رسانی و شکنجہ کے باعث اس کے نیزے کی نوک سے زخمی ہوکر شہید ہوگئیں، ان کے شوہر یاسر دوسرے شہید تھے جو راہ اسلام میں شھید ہوئے (عمار) نے گر تقیہ نہ کیا ہوتا تو وہ بھی قتل کردیئے جاتے۔
امیہ ابن خلف اپنے غلام حضرت بلال کو بھوکا پیاسا مکہ کی دوپھر میں تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر کہتا کہ یا تو لات و عزیٰ کی پوجا کر، ورنہ تو اسی حالت میں مرجائے گا، مگر بلال سخت تکالیف میں بھی یہی جواب دیتے احد احد۔
اس کے علاوہ بھی دیگر مسلمانوں کو قید و بند میں رکھ کر سخت زد و کوب کرکے، بھوک پیاس سے تڑپا کر اور گلے میں رسی باندھ کر جانوروں کی طرح کوچہ و بازار میں گھسیٹتے اور ہر قسم کی ایذاء و تکلیف پہونچاتے تھے۔

Add comment


Security code
Refresh