www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت عبد المطلب کے عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ ”عام الفیل“تھا اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حکمران ابرھہ نے اس ملک پر اپنا تسلط برقرار کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس کی حکومت کے گرد و نواح میں آباد عرب کی خاص توجہ کعبہ پر مرکوز ہے اور وہ ہر سال کثیر تعداد میں اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔
اس نے سوچا کہ عربوں کا یہ عمل اس کے نیز ان حبشی لوگوں کے لئے جو یمن اور جزیرہ نما عرب کے دیگر مقامات پر آباد ہیں کوئی مصیبت پیدا نہ کردے، چنانچہ اس نے یمن میں ”قلیس“ نام کا بہت بڑا گِرجا تیار کیا اور تمام لوگوں کو وہاں آنے کی دعوت دی تاکہ کعبہ جانے کے بجائے لوگ اس کے بنائے ہوئے کلیسا میں زیارت کی غرض سے آئیں۔ اس کے اس اقدام کو لوگوں نے ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ بعض نے تو اس کے کلیسا کی بے حرمتی بھی کی۔
لوگوں کے اس رویہ سے ابرھہ کو سخت طیش آگیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ اس جرم کی پاداش میں کعبہ کا وجود ہی ختم کردے گا۔ اس مقصد کے تحت اس نے عظیم لشکر تیار کیا جس میں جنگجو ہاتھی پیش پیش تھے، چنانچہ پورے جنگی ساز و سامان سے لیس ہوکر وہ مکہ کی جانب روانہ ہوا، سردار قریش حضرت عبد المطلب اور دیگر اہل شھر کو جب ابرھہ کے ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے شھر خالی کردیا اور نتیجہ کا انتطار کرنے لگے۔
جنگی ساز و سامان سے لیس اور طاقت کے نشہ میں چور جب ابرھہ کا لشکر کعبہ کی طرف بڑھا تو ابابیل جیسے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی منقاروں اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اس کے لشکر پر چھا گئے اور انھیں ان پر برسانا شروع کردیا، جس کی وجہ سے ان کے جسم ایسے چور چور ہوگئے جیسے چبایا ہوا بھوسا۔
یہ واقعہ بعثت کے چالیس سال قبل پیش آیا، چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہی اپنی تاریخ شروع کردی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے عہد تک جاری رہی اور واقعات اسی سے منسوب کئے جانے لگے۔
قابل ذکر باتیں
۱۔ ابرھہ کا حملہ اگرچہ مذہبی محرک کا ہی نتیجہ تھا مگر اس کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ سرزمین عرب پر سلطنت روم کا غلبہ ہوجائے اس لئے اس کی اہمیت مذہبی پہلو سے کسی طرح بھی کم نہ تھی، ابرھہ کا مکہ اور حجاز کے دیگر شہروں پر قابض ہوجانا سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے روم جیسی عظیم طاقت کی اہم فتح و کامرانی تھی، کیونکہ یہی ایک ایسا طریقہ تھا جسے بروئے کار لاکر شمال عرب کو جنوب عرب سے متصل کیا جاسکتا تھا، اس طرح پورے جزیرہ نما عرب پر حکومت روم کا غلبہ و تسلط ہو سکتا تھا، نیز اس کا استعمال ایران پر حملہ کرنے کے لئے فوجی چھاونی کے طور پر کیا جاسکتا تھا۔
۲۔ خداوند تعالیٰ کے حکم سے معجزہ کی شکل میں ابرھہ کے لشکر کی جس طرح تباہی و بربادی ہوئی اس کی تائید قرآن مجید اور اھل بیت علیھم السلام کی ان روایات سے ہوتی ہے جو ہم تک پہونچی ہیں۔ قرآن مجید کے سورہ فیل میں ارشاد ھے: الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل۔ الم یجعل کیدھم فی تضلیل و ارسل علیھم طیراً ابابیل۔ ترمیھم بحجارةٍ من سجّیل فجعلھم کعصفٍ ماکول۔ (تم نے دیکھا کہ تمھارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے جو ان پر پتھر پھینک رہے تھے پھر ان کا یہ حال کردیا جیسے (جانوروں) کا کھایا ھوا بھوسا﴾
جو لوگ اس واقعہ کی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اس سال مکہ میں چیچک کی بیماری ابرھہ کے سپاہیوں میں مکھیوں اور مچھروں کے ذریعہ پھیلی اور ان کی ھلاکت کا باعث ہوئی، بعض وہ مسلمان جو خود کو روشن فکر خیال کرتے ہیں وہ بھی مغرب کے مادہ پرستوں کے ہم خیال ہوگئے ہیں، قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ بعض مسلم مورخین اور مفسرین بھی اس مغرب پرستی کا شکار ہوگئے ہیں۔
۳۔ ابرھہ کے لشکر کی شکست اور خانہ کعبہ کو گزند نہ پہونچنے کے باعث قریش پہلے سے بھی زیادہ مغرور و متکبر ہوگئے چنانچہ حرام کاموں کے کرنے، اخلاقی پستیوں کی جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے میں جو حرم کے باہر آباد تھے ان کی گستاخیاں اور دراز دستیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئیں، وہ برملا کہنے لگے کہ ہم ہی آل ابراہیم ہیں، ہم ہی پاسبان حرم ہیں، ہم ہی کعبہ کے اصل وارث ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جاہ و مرتبت میں عربوں کے درمیان کوئی ہمارا ہم پلہ نہیں ہے۔
ان نظریات کی بناپر انھوں نے حج کے بعض احکام، جو حرم کے باہر انجام دیئے جاتے ہیں جیسے عرفہ میں قیام، قطعی ترک کردیئے، ان کا حکم تھا کہ ان زائرین بیت اللہ کو جو حج یا عمرہ کی نیت سے آتے ہیں یہ حق نہیں ہے کہ اس کھانے کو کھائیں جسے وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں، یا اپنے کپڑے پہن کر کعبہ کا طواف کریں۔

Add comment


Security code
Refresh