www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جس وقت بنی ہاشم اور بنی مطلب شعب ابو طالب میں محصور تھے اس وقت یثرب سے ”اسعد ابن زرارہ اور ذکوان ابن عبد القیس“ قبیلہ خزرج کا نمائندہ بن کر مکہ میں اپنے حلیف ”عقبہ ابن ربیعہ“ کے پاس آئے اور قبیلہ اوس سے جنگ کے سلسلے میں مدد چاہی۔
عقبہ نے مدد کرنے سے عذر ظاہر کیا اور کہا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان طویل فاصلہ ہونے کے علاوہ ہم یہاں ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں کہ جس سے نجات پانے کے لئے ہمارا کوئی بس نہیں چل رہا ہے، اس نے ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ اور آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے واقعات ”خزرج“ کے نمائندگان کو بتائے اور تاکید سے کہا کہ وہ آنحضرت سے ہرگز ملاقات نہ کریں، کیونکہ وہ شخص ساحر و جادوگر ہے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو رام کر لیتا ہے، اس کے ساتھ ہی اس نے ”اسعد“ کو حکم دیا کہ جس وقت کعبہ کا طواف کرے تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لے تاکہ پیغمبر کی آواز اس کے کانوں میں نہ پہونچے۔
”اسعد“ طواف کعبہ کے ارادے سے ”مسجد الحرام“ میں داخل ہوا، وہاں اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم”حجر اسماعیل“ پر تشریف فرما ہیں، اس نے خود سے کہا کہ میں بھی کیسا نادان ہوں بھلا ایسی خبر مکہ میں گرم ہو اور میں اس سے بے خبر رہوں، میں بھی تو سنوں کہ یہ شخص کیا کہتا ہے تاکہ واپس اپنے وطن جاکر لوگوں کو اس کے بارے میں بتاوٴں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتیں سننے کی خاطر اس نے روئی اپنے کانوں سے نکال دی، اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرت نے اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور ایمان لے آئے، اس کے بعد ”ذکوان“ نے بھی دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔ (الصحیح من السیرة النبی۔ ج۲، ص۱۹۰۔ ۱۹۱)
دوسرے مرحلے پر اہل یثرب میں وہ چہ اشخاص جن کا تعلق ”خزرج“ سے تھا بعثت کے گیارہویں سال دوران حج پیغمبر اکرم (ص) کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دین اسلام کی دعوت دی، اور قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی، وہ رسول خدا کی ملاقات کا شرف حاصل کرکے اور آپ کی زبان مبارک سے بیان حق سن کر ایک دوسرے سے کہنے لگے۔۔۔ خدا کی قسم یہ وہی پیغمبر ہے جس کے ظہور کی خبر دے کر یہودی ہمیں خوف دلایا کرتے تھے، آوٴ پہلے ہم ہی دین اسلام قبول کرلیں، ایسا نہ ہو کہ اس کارخیر میں وہ ہم پر سبقت لے جائیں، یہ کہہ کر ان سب نے دین اسلام اختیار کرلیا، جب وہ واپس یثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو بتایا کہ انہوں نے کیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور انہیں بھی دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
تیسرے مرحلے پر اہل یثرب میں سے بارہ اشخاص میں سے دس کا تعلق قبیلہ ”خزرج“ سے تھا اور دوسرے قبیلہ ”اوس“ سے بعثت کے بارہویں سال ”عقبہ منا“ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے ان بارہ اشخاص میں سے جابر ابن عبد اللہ کے علاوہ پانچ افراد وہ تھے جو کہ ایک سال قبل بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کر چکے تھے۔
ان اشخاص نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک پر ”بیعت نساء“ کے طریقے پر بیعت کی، اور عہد کیا کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، چوری سے باز رہیں گے، زنا کے مرتکب نہ ہوں گے، اپنی لڑکیوں کے قتل کو ممنوع قرار دیں گے، ایک دوسرے پر الزام و بہتان نہ لگائیں گے نیز کار خیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر حکم بجالائیں گے۔
رسول خدا نے مصعب ابن عمیر کو ان کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں پہونچ کر وہ دین اسلام کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں، اس کے ساتھ ہی وہ آنحضرت کو شہر کی حالت کے بارے میں اطلاع دیں نیز یہ بتائیں کہ وہاں کے لوگ دین اسلام کو کس سطح پر قبول کر رہے ہیں، مصعب پہلے مسلمان مہاجر تھے جس نے یثرب پہونچنے اور روزانہ نمازجماعت کا وہاں انتظام کیا۔

Add comment


Security code
Refresh