www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بد نیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انھی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعہ آپ پر نازل ہوئی ہیں لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و برہان سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:
۱۔ عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان، کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انھیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔
۲۔ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آکر انھیں بیان کرتے اس کے علاوہ اس واقعہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ہوں۔
۳۔ اگر تورات و انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔
۴۔ اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟
ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔
حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں انھیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں جس وقت انھوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لئے ملک شام تشریف لے جائیں تو جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دونگی۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ''نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔
کاروان تجارت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لئے نہایت ہی سودمند و منفعت بخش ہوا اور انھیں توقع سے زیادہ منافع ملا، نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا سفر کے خاتمہ پر ”میسرہ''نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔

Add comment


Security code
Refresh