www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

470886
بد گمانی ایک بھت ھی خطرناک قسم کی روحانی بیماری ھے اور بھت سی ناکامیابیوں اور ما یوسیوں کا سر چشمہ ھے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ھے جو انسان کی روح کو عذاب و الم میں مبتلا کر دیتی ھے اور اسکے برے اثرات انسانی شخصیت سے نا قابل محو ھوا کرتے ھیں ۔رنج و غم ھی وہ مرکز احساس ھے جھاں سے ممکن ھے بد گمانی کا آغاز ھوتا ھو اور احساسات و جذبات میں ایک شدید انقلاب و طوفان کا سبب بنتا ھو ، بد گمانی کا بیج جو اس راہ گزر سے مزرعھٴ قلب میں بویا جاتا ھے وہ انسانی افکار و اندیشوں پر ناگوار و تلخ اثرات مرتب کرتا ھے ۔جس کا آئینہ روح بد گمانی کے غبار سے کثیف و تاریک ھو چکا ھو اس میں محض یھی نھیں کہ آفرینش کی خوبیاں و زیبا ئیاں اجاگر نھیں ھو سکتیں بلکہ سعادت و خوش بختی اپنی صورت بدل کر ملال و نکبت بن کر ظاھر ھوتی ھے اور ایسا شخص کسی بھی شخص کے کردار و افکار کو بے غرض تصور نھیں کر سکتا ۔ اس قسم کے اشخاص کی روحانیت چونکہ منفی ھے اس لئے ان میں مثبت قوت مقصود ھوتی ھے ۔ اور ایسے لوگ اپنے افکار بد سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیتے ھیں ۔ اور اپنی طاقت کو ایسے حادثات میں غور و فکر کر کے بتاہ و بر باد کر لیتے ھیں جن سے شاید ان کا زندگی میں کبھی سابقہ بھی نہ پڑے ۔
جس طرح حسن ِظن رکھنے والے شخص کی طاقت اس کے اطرافیوں میں اثر انداز ھوتی ھے اور وہ شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کی روح امید کو طاقت بخشتا ھے اسی طرح بد گمان شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کے دلوں میں رنج و غم کی کاشت کرتا ھے اور لوگوں کے اس چراغ امید کو خاموش کر دیتا ھے جو زندگی کے پیچ و خم میں ضو فشاں رھتا ھے ۔
بد گمانی کے برے اثرات صرف روح تک ھی محدود نھیں رھتے بلکہ جسم پر بھی اس کے اثرات مرتب ھوتے ھیں ۔ اس کی بیماریوں کا علاج مشکل ھو جاتا ھے ۔ ایک عظیم طبیب کھتا ھے : جو شخص ھر ایک سے بد گمانی رکھتا ھو اورھر چیز کے بارے میں غلط نظر یہ رکھتا ھو اس کا علاج کرنا اس سے کھیں زیادہ مشکل ھے جتنا دریا میں خود کشی کی نیت سے چھلانگ لگانے والے کو بچانا مشکل ھے ۔ جو شخص ناراضگیوں اور ھیجان کے درمیان زندگی بسر کرتا ھو اس کو دوا دینا ایسا ھی ھے جیسے کھولتے ھوئے روغن زیتون میں پانی ڈالنا اس لئے کہ دوا کا اثر مرتب ھونے کے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ روح اعتمادکی مالک ھو اور وہ اپنے سکون فکر کی حفاظت کر سکتا ھو ۔
بد گمان شخص کے اندر کنارہ کشی دوسروں کے داتھ مل جل کر رھنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ مشاھدہ کئے جا سکتے ھیں اور اسی نا پسندیدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر استعداد ترقی کو کھو بیٹھتا ھے اور اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ وہ ناپسندیدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ھو جاتا ھے ۔ خود کشی کی ایک علت فکر و روح پر بد گمانی کا مسلط ھو جانا بھی ھے اور اس قسم کے نا قابل بخشائش گناہ کا ارتکاب اسی وجہ سے کیا جاتا ھے ۔
اگر آپ اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ھو گا کہ لوگ جو ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کیا کرتے ھیں وہ سب بغیر مطالعہ بغیر غور و فکر اور بد گمانی کی وجہ سے ھوتی ھے ۔ اور اسی کے داتھ داتھ ان کی قوت فیصلہ بھی کمزور ھوتی ھے لیکن پھر بھی صحیح و اطمینان بخش تشخیص سے پھلے اپنا حتمی فیصلہ دے دیتے ھیں ۔ ایسے لوگ بلا تصور کی تصدیق کے قائل ھوتے ھیں ۔ کبھی ان کی گفتگو میں شخصی غرض بھی نمایاں ھوتی ھے اور یھی سب سے بڑا وہ عیب ھے جس کی وجہ سے رشتہ الفت و محبت ٹوٹ جاتا ھے ۔ اتحاد قلبی ختم ھو جاتا ایک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ نابود ھو جاتا ھے اوران کے اخلاقیات تباہ و بر باد ھو جاتے ھیں ۔
بھت سی ایسی عداوتیں اور دشمنیاں جن کا نقصان افراد و اجتماع کے لئے نا قابل جبران ھوتا ھے وہ ان خلاف واقع بد گمانیوں کی پیدا وار ھوتی ھیں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں بد گمانی رخنہ اندازی کرتی ھے ۔ انتھا یہ ھے کہ یہ بد گمانی دانشمندوں اور فلسفیوں کو بھی متاثر کر دیتی ھے ھر قوم و ملت کے مختلف ادوار میں ایسے دانشمند پیدا ھوئے ھیں کہ اسی بد گمانی کی وجہ سے ان کے طرز تفکر میں گھری تاریکی پائی جاتی ھے اور یہ حضرات علم و دانش کے سھارے ھمیشہ جامعہ ٴ بشریت کی خدمت کرنے کے بجائے نظام آفرینش میں نقد و تبصرہ کر کے اسی کی عیب جوئی کرتے رھے ھیں اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے مسموم افکار غلط منطق کے ذریعہ معاشرے کی روح کو مسموم بنا دیا ۔ مبادی اخلاق بلکہ مبادیٴ عقائد کو بھی مورد ِ استھزا قرار دیا ۔ بعض فلسفیوں میں بد گمانی اتنی شدید ھو گئی تھی کہ انھوں نے انسانی آبادی کی بڑھتی ھوئی تعداد اور فقر و فاقہ کے خوف سے وحشت زدہ ھو کر انسانی نسل کو محدود کرنے کے لئے ھر چیز کو جائز قرار دے دیا یھاں تک کہ انسانی آبادی کو کم کرنے کے لئے وحشیانہ قتل و غارتگری خونریزی کو بھی جائز قرار دے دیا تھا ۔ ظاھر سی بات ھے کہ اگر دنیاکے لوگ ان کے زھریلے خیالات پر عمل کرتے تو آج اس روئے زمین پر علم و تمدن کا کوئی وجود بھی نہ ھوتا ۔
انھیں بد گمان فلسفیوں میں ایک شخص بنام ابو العلاء معری تھا کہ جس کے تمام تر افکار اسی بد گمانی کے محور پر گھوما کرتے تھے اور وہ زندگی کو عذاب سمجھتا تھا ۔ نسل بشر کو ختم کرنے کے لئے اس نے شادی بیاہ پیدائش اولاد کو حرام قرار دے دیا تھا ۔ کھا جاتا ھے کہ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے وصیت کی کہ میرے لوح مزار پریہ جملہ کندہ کر دیا جائے :
”یہ قبر میرے باپ کے ان جرائم میں سے جو اس نے مجھ پر کئے ھیں ایک نشانی ھے لیکن میں نے کسی پر کوئی جرم نھیں کیا ھے “۔

Add comment


Security code
Refresh