www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عرب ملکوں کے علاوہ بھی کہیں کہیں ایسی مصلح شخصیتیں ابھری ہیں جن کو ہم اہم اور برگزیدہ کہہ سکتے ہیں‘ مثلاً اقبال لاہوری کو بلاشک اسلامی دنیا میں ایک مصلح کی حیثیت دی جا سکتی ہے‘ اس کے اصلاحی نظریات اس کے ملک کی سرحدوں کو پار کر گئے۔ اقبال میں جہاں خوبیاں ہیں‘ وہاں کچھ نقائص بھی ہیں۔
اقبال کی خوبیوں میں ایک یہ تھی کہ انہیں مغربی دنیا کی تہذیب کا وسیع علم حاصل تھا‘ مغربی فلسفہ حیات اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو سے گہری وابستگی رہی‘ جس کی وجہ سے مغرب میں اسے بلند پایہ مفکر اور فلسفی سمجھا جاتا ہے۔
اقبال کی دوسری خوبی یہ تھی کہ مغربی تہذیب کے ساتھ گہری وابستگی اور اس کے وسیع علم کے باوجود وہ مغرب کو ایک جامع انسانی نظریے سے محروم سمجھتا تھا‘ بلکہ اس کو یقین تھا کہ صرف مسلمانوں میں ہی ایسے افراد ہیں جو اجتماعی زندگی میں اصلاح پیدا کر سکتے ہیں اور تہذیب انسان کو ایک ضابطہ حیات دے سکتے ہیں‘ انہوں نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ صرف سائنسی اور معاشی میدانوں میں مغرب کی تقلید کریں‘ لیکن مغربیت کا ان کو شکار نہیں ہونا چاہئے۔
اقبال نے فرمایا:
”مغربی دنیا نے صحیح طور پر اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں ان کے اندر ”میں“ کا عنصر پیدا ہوا اور وہ انا کا شکار ہوئے جو ان کو غلط راسے پر لے گئے‘ وہ جمہوری راستے تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ایسے جمہوری راستے جن میں امیروں کو فائدہ اور غریبوں کی خستہ حالی ہو۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کل کا یورپ انسانی اخلاقیات میں ایک بہت بڑا کانٹا بنا ہوا ہے اس کے برعکس مسلمان بلند ترین اخلاق کے حامل ہیں اور ان کے اندر روحانی جذبات اٹھتے ہیں۔“(احیائے فکر دینی‘ ص ۲۰۴﴾
اقبال میں ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ بھی ذہنی طور پر ان مسائل کی تلاش میں سرگرداں رہے جس کی تلاش کے لئے عُبدہ پریشان رہے‘ یعنی مسلمان کس طرح اپنے سیاسی‘ اقتصادی اور اجتماعی مسائل حل کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنے دین‘ عقائد اور اصل اسلامی روح کو بھی قائم رکھیں‘ اس لئے انہوں نے ان مسائل کے حل کے لئے ”اجتہاد“ اور ”اجماع“ پر توجہ دی۔ اقبال نے اجتہاد کو اسلام میں حرکت پیدا کرنے والا انجن قرار دیا۔
اقبال اپنے ان ہم عصروں سے جنہوں نے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کی‘ کچھ مختلف تھے‘ اس نے تصوف‘ روحانیت اور ماورایت اپنے اندر سمو دیئے تھے۔ وہ روح اور دماغ کی تقویت کی طرف زیادہ توجہ دیتے رہے‘ ان کے نزدیک ذکر و فکر‘ مراقبہ‘ عقویت نفس‘ تجزیہ نفس پر جو بالآخر مکمل قناعت اور روحانیت پر منتج ہو‘ زیادہ زور دیتے رہے‘ یہ تمام چیزیں موجودہ دور کی اصلاح میں ”محاسبہ نفس یا محاکمہ ذات“ کے نام سے پہچانی جاتی ہیں‘ جس سے آج کل انکار کیا جاتا ہے۔
اقبال جہاں مذہبی افکار کی تخلیق نو چاہتے تھے وہاں اس کو بالکل بے کار سمجھتے تھے اگر اس کے ساتھ ساتھ اسلامی معنویت کا احیاء نہ ہو۔ اقبال صرف ایک مفکر نہیں تھا‘ بلکہ صاحب عمل بھی تھا‘ اس کا عمل جدوجہد پر یقین کامل تھا‘ وہ استعماریت کے خلاف اٹھا‘ اس کا ثبوت اس کے اس عمل سے لگتا ہے کہ وہ مملکت اسلامی پاکستان کے بانیوں میں سے تھا۔
دوسری وصف جو کہ اقبال میں موجود ہے‘ وہ یہ ہے کہ وہ ایک زبردست شاعر تھا‘ اس نے اپنی صلاحیتیں مقصد اسلام کو واضح کرنے کے لئے وقف کر دیں‘ کواکبی نے اس کو ایک شاعر کی حیثیت سے حسن بن ثبات انصاری‘ کمیت اسدی‘ دعبل بن علی خزاعی کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ اس کی اردو کی انقلابی نظموں کو عربی اور فارسی میں اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے کہ اس کی اصل روح بحال رہے۔
اگرچہ اقبال رسمی طور پر سُنی مذہب رکھتا تھا‘ لیکن وہ محمد و اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ بے پناہ عقیدت رکھتا تھا‘ اس نے ان کی شان میں ایسی انقلابی اور تعلیمی نظمیں کہی ہیں کہ جو تمام شیعہ شعراء کی فارسی زبان میں شائع شدہ کتابوں میں نہیں ملتیں‘ تاہم علامہ اقبال کا منتہائے نظر شاعری کرنا نہیں تھا‘ اس کو اس نے صرف مسلم سوسائٹی کو بیدار کرنے کے لئے استعمال کیا۔
اقبال کے فلسفہ کو ”فلسفہ خودی“ کا نام دیا گیا‘ اس کا نظریہ تھا کہ مشرق کا اسلام اپنی اصلی حیثیت کھو چکا ہے اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک شخص جب اپنی شخصیت کو بکھرا ہوا دیکھتا ہے یا اس کو کھو دیتا ہے تو وہ اپنے سے بہت دور چلا جاتا ہے اور خود اپنے لئے بھی ایک اجنبی بن جاتا ہے اور مولانا رومی کے الفاظ میں (اقبال ذہنی طور پر مولانا رومی سے کافی منسلک تھا اور اس کی زندگی پر اس کے کافی اثرات ہیں) ”اس نے دوسرے لوگوں کی زمین پر گھر بنایا اور بجائے اپنا کام کرنے کے دوسرے کے لئے کام کیا۔“ اقبال نے کہا کہ سوسائٹی ایک فرد کی طرح ہوتی ہے جو کہ روح اور شخصیت رکھتی ہے‘ فرد کی طرح سوسائٹی بھی جھٹکے اور ہچکولے کھاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ان جھٹکوں کے نتیجے میں یہ اپنی انفرادیت کھو بیٹھے اور اس کو اپنے آپ پر بھی یقین نہیں رہے۔ ایسی صورت میں اس کو اپنی ذات پر اعتماد نہیں رہتا اور ذاتی و خودی کو ختم کر کے اس وقت زمین پر لڑکھڑانے لگتی ہے جب اس کو مغربی تہذیب اور سوسائٹی کے سامنے لایا جاتا ہے۔
اقبال کے خیال میں اسلامی تہذیب ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ بدکاریاں اس کے اندر ناسور کی طرح گھس گئی ہیں اور اس کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں‘ گماں ہے کہ وہ اپنا وجود ہی گنوا دے۔
اقبال کے نزدیک خود شناسی اور خودی‘ اسلام کی روح اور اہم خاصیتیں ہیں‘ مصلحوں کے آگے سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ سوسائٹی میں یقین اور اعتقاد کو صحیح اسلامی تہذیب‘ اسلامی روح اور خودی کی شکل میں لایا جائے اور یہ اقبال کے ”فلسفہ خودی“ کا نچوڑ ہے۔
اقبال نے اپنے اشعار‘ مقالات‘ خطبات اور مجلسوں میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کو ان کی کھوئی عظمت کی یاد دلائی جائے تاکہ یہ امت اپنی مجددیت‘ عظمت‘ لیاقت‘ علمیت اور شائستگی کو دوبارہ بحال کرے اور اپنے آپ کو دوبارہ ایک ”مومن“ بنائے‘ اس کی کوشش رہی کہ اسلامی تاریخ میں چھپی ہوئی شخصیتوں کے کردار کو منظرعام پر لا کر امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے‘ اس وجہ سے اسلامی سوسائٹی اقبال کی کافی احسان مند ہے۔
اقبال کے اسلامی اصلاحی کارنامے کچھ حد تک ان کے آبائی سرزمین سے باہر کی دنیا میں متعارف ہوئے‘ لیکن اس حد تک نہیں جہاں تک سید جمال الدین افغانی نے اپنے مشن کو وسیع کیا‘ اس لئے اقبال کے مشن کا زیادہ تر اثر محدود رہا۔
لیکن دو نقائص اقبال کی شخصیت کو سوالنامہ بنا دیتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ اسلامی کلچر کی گہرائیوں سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتا‘ مغربی اصطلاح میں وہ بے شک فلسفی تھا‘ لیکن اسلامی فلسفے سے زیادہ آگاہی نہیں تھی۔
اقبال کا نقطہ نظر ان چیزوں کے بارے میں واضح نہیں‘ مثلاً فلسفہ اثبات واجب‘ علم اقبل از ایجاد اور دوسرے علوم الٰہیات کے بارے‘ اس کا فلسفہ ختم نبوت بھی ختم دین پر اختتام پذیر ہوتا ہے‘ جو کہ بذات خود اقبال کے مدعا اور نظریہ کے خلاف ہے اور یہ اقبال کے اسلامی فلسفے کے بارے میں ناواقفیت کی دلیل ہے۔ دیگر علوم اور معارف اسلامی کے بارے اس کا مطالعہ سحطی ہے‘ عرفان کی منزل میں اس کی روح ہندوستانی اور صوفیانہ ہے۔ مولانا رومی کا زبردست مرید ہے‘ اس نے اسلامی عرفان کو اس کی اعلیٰ سطح پر نہ پہچانا اور عرفان کے گہرے اثرات بازگشت سے بیگانہ رہا۔
دوسرا پہلو جس کی وجہ سے اقبال کا فلسفہ تنقید کا نشانہ بن سکتا ہے یہ ہے کہ اس نے سید جمال کی طرح اسلامی ممالک کا وسیع دورہ نہیں کیا‘ لہٰذا وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ان ممالک کی تحریکوں کا اور ان کی عادات و حالات کا ذاتی علم رکھتا ہے‘ اس لئے اس نے ان ممالک کی چند شخصیات کے بارے میں اپنی رائے قئام کرنے میں غلطی کی اور استعماری سرگرمیوں کا صحیح اندازہ نہ کر سکا۔
اقبال نے اپنی کتاب ”احیائی فکر دینی در اسلام“ میں حجاز کی وہابی تحریک‘ ایران کی بہائی تحریک‘ ترکی میں اتاترک کی تحریک کو اصلاحی اور اسلامی کہا ہے۔
اس نے اپنے اشعار میں اسلامی ممالک کے کچھ نااہل ڈکٹیٹروں کی تعریفیں بھی کیں‘ اقبال جو کہ مخلص مسلمان اور مصلح تھے‘ ان کی غلطیوں کو قابل معافی نہیں کہا جا سکتا۔
جدید ترکی میں کم و بیش ایسے لوگ نمودار ہوئے جو اپنے آپ کو مصلح کہتے تھے‘ اقبال نے احیاء فکر دینی کے سلسلے میں ضیاء نامی شاعر کے نظریات کئی دفعہ پیش کئے۔ حقیقت میں ضیاء ایک انتہا پسند شاعر تھا اور اقبال جیسے وسیع النظر شخص کو اس کے خیالات کو پیش نظر کرنا چاہئے تھا۔

Add comment


Security code
Refresh