www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

600582
9 نومبر 1877ء سیالکوٹ میں کشمیری برھمنوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ نور محمد کے گھر علم و فکر کے ایسے خزینے نے جنم لیا، جو لسانیت و جغرافیہ کی حدوں سے بالاتر اقوام عالم کے نوجوانوں کیلئے باعث استفادہ رھا۔ محمد اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ھی حاصل کی اور مشن ھائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ زمانہ طالب علمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے، جنھوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رھنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یھیں پیدا ھوا، اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلٰی تعلیم کے لئے لاھور گئے اور گورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کئے۔ یھاں آپ کو پرفیسر آرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد ملے، جنھوں نے اپنے شاگرد کی رھنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
اعلٰی تعلیم کے لئے آپ انگلستان گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا، یھاں آپ کی رھنمائی پروفیسر بران جیسے جھاندیدہ اور تجربہ کار استاد نے کی۔ بعد میں آپ جرمنی گئے، جھاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاھور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے، لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رھے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔
1922ء میں حکومت کی طرف سے آپ کو سر کا خطاب ملا۔ جس کے بعد آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے، اس دوران مسلم لیگ میں شامل ھوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ھوئے۔ آپ کا الہ آباد کا مشھور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔
1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ جس وطن کا خواب آپ نے دیکھا، گرچہ آپ کی فکر، قائد اعظم و دیگر رھنماؤں کی ان تھک کاشوں سے پاکستان کی صورت میں شرمندہ تعبیر ھوا، تاھم پاکستان کی آزادی سے پھلے ھی 21 اپریل 1938ء میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال انتقال کر گئے۔ گرچہ ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم و ملک کو ھمیشہ آپ کا ممنون رھنا چاھیے تھا، تاھم عملی طور پر حقیقت انتھائی تلخ اور تکلیف دہ ہے۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود وطن عزیز پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی کسی حکومت نے آپ کی فکر یا تعلیمات کو اجاگر کرنے کی کوشش نھیں کی۔ یھاں تک کہ آپ کی ولادت کے دن یعنی اقبال ڈے پر حکومتی سطح پر کسی بھی ایسی عوامی تقریب کا انعقاد نھیں کیا گیا، جس میں اس ملک پر مسلط حکمران اور بے بس عوام ملکر فکر اقبال سے استفادے کا اھتمام کرتے۔ اقبال ڈے پر وفاق سمیت کسی صوبے نے تعلیمی یا سرکاری اداروں میں فکر اقبال سے متعلق کوئی تقریب منعقد نھیں کی۔ البتہ افواج پاکستان کی جانب سے سلامی کی رسم ضرور ادا کی گئی۔
جس مصور کے تصور سے پاکستان معرض وجود میں آیا، اسی مصور کے مزار اور تعلیمات سے عوام کو دور رکھنے کیلئے حکومت نے مزار اقبال کے گرد خاردار تار بھی بچھائی ہے کہ شائد کہ وہ نھیں چاھتے کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی عوام اقبال کے پاکستان کی کھوج شروع کریں۔ باالفاظ دیگر جو فکر اقبال وطن عزیز کے قیام کا بنیاد بنی، اسی فکر اقبال سے حکمران بے فکری برت رھے ہیں۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے، آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے، جو ھمیشہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی رھے گی۔ یھی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ھر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ھوچکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے معترف ہیں۔ آپ کی معروف تصانیف بانگ درا، بال جبرائیل، ضرب کلیم، زبور عجم، پیام مشرق، جاوید نامہ و دیگر ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں جھاں نوجوانوں کو خودی، شاھین کے تصور سے جھنجھوڑا، وھیں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کو اجاگر کرکے ان سے نمٹنے کا نسخہ کیمیا بھی فراھم کیا۔
آپ کا کلام فارسی و اردو پر مشتمل ہے، جس میں سے ساٹھ فیصد فارسی اور چالیس فیصد اردو زبان میں ہے۔ اس لحاظ سے اردو بولنے والوں سے زیادہ اقبال فارسی بولنے والوں کے قریب ہیں۔ پاکستان میں جھاں آپ کو مصور پاکستان، شاعر مشرق کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، وھی ایران میں اقبال لاھوری سے زبان زد عام ہیں۔ بلاشبہ کلام اقبال میں سب سے زیادہ زور اتحاد امت پر دیا گیا ہے اور اقبال بار بار تفریق کی نفی کرکے وحدت پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے کلام میں جھاں وحدت کی بات کرتے ہیں، وہیں ملت میں موجود اس احساس مایوسی کو بھی رد کرتے ہیں، کہ جو فرنگ کے مقابلے میں خود کو عاجز تصور کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے، ترکیب میں قوم رسول ھاشمی (بانگ درا)
علامہ اقبال امت کو متوجہ کرتے ھوئے کھتے ہیں کہ امت کا ھر شخص اھم ہے۔ ھر شخص اپنی قوم کی ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ افراد کے مابین مضبوط رابطہ و تعلق ھی قوموں کی قوت کا راز ہے۔
افراد کے ھاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ھر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ (ارمغان حجاز)
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنھا کچھ نھیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نھیں (بانگ درا)
آپ نے مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ امت کا ٹکڑیوں میں بٹ جانا، گروہ در گروہ ھوجانا، اس میں سب کا نقصان ہے اور اس کا متحد ھونا سب کے فائدے میں ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ھی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ھوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کھیں اور کھیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یھی باتیں ہیں (بانگ درا)
بانگ درا میں آپ یوں بھی گویا ھوتے ہیں کہ زبان و مکان کی حدود سے بالاتر ھوکر عالم اسلام کے اجتماعی مفادات پر توجہ کریں۔ اللہ رب العزت کی خوشنودی بھی اسی میں ہے اور مسلمانوں کا دائمی فائدہ بھی اسی میں ہے۔
یھی مقصود فطرت ہے، یھی رمز مسلمانی
اخوت کی جھانگیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ھوجا
نہ تورانی رھے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی (بانگ درا)

اقبال مسلمانوں کو اپنی اجتماعی قوت کے بل بوتے پر بتاتے ہیں کہ
چین و عرب ھمارا، ھندوستان ھمارا
مسلم ہیں ھم وطن ہے سارا جھاں ھمارا
پھر اپنی خواھش کا اظھار یوں کرتے ہیں کہ
ایک ھوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر (بانگ درا)
تھران ھوگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے (ضرب کلیم )
اقبال نصیحت بھی کرتے ہیں تو
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بھار رکھ (بانگ درا)
علامہ اقبال کے کلام میں وحدت امت کا جو پیغام ہے، عصر حاضر میں درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ھوئے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے، اس سے استفادہ کرنے اور آنے والی نسلوں کو اس پیغام سے فکر اقبال سے روشناس کرانے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ تاھم یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی ضرورت فکر اقبال سے استفادہ کی ہے، اتنی ھی فکر اقبال سے بے فکری کا مظاھرہ حکومت، اداروں اور قوم کی جانب سے جاری ہے۔

تحریر: عمران خان

Add comment


Security code
Refresh