www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کمسنی میں امامت کے حوالے سے ھونے والے اعتراضات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پھلی مرتبہ اھل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کمسنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے وقت امام جواد علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ھی مرتبہ امامت پر فائز ھوئے.
چونکہ اس سے پھلے ائمہ طاھرین علیھم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نھیں آیا تھا لھذا اھل تشیع کے بعض گروہ بھی شک و شبھے کا شکار ھوئے اور امام جواد علیہ السلام نے خود ھی کئی مرتبہ اس شبھے کا ازالہ فرمایا.
کمسنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے عنوان سے اٹھے ھوئے سوال کا جواب
ابراھیم بن محمود کھتے ہیں: میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ھم کس سے رجوع کریں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.
اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بھت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبھے کا جواب دیتے ھوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررھا ھوں. (۷)
امام جواد علیہ السلام کا اونچا مقام و مرتبہ ـ حدیث لوح
امام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت کی نویں کڑی ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص قسم کی خصوصیات عطا ھوئی ہیں جن کے باعث آپ (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ائمۂ طاھرین(ع) اور اپنے والد بزرگوار کے نزدیک بھی اونچے مقام و منزلت کے مالک ہیں.
آپ کے بعض مقامات کی مختصر مثالیں:
امام جواد علیہ السلام حدیث کی روشنی میں
ابوبصیر کھتے ہیں: ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا: اے جابر! کون سا وقت آپ کے لئے مناسب ہے کہ میں خلوت میں آپ سے کچھ پوچھ لوں؟
جابر نے عرض کیا: جب بھی آپ مناسب سمجھیں.
ابوبصیر کھتے ہیں: اس کے بعد امام علیہ السلام جابر سے خلوت میں ملے اور فرمایا: آپ نے میری والدہ ماجدہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھاتھ میں ایک "لوح" دیکھا تھا اس کے بارے میں اور جو کچھ میری والدہ نے آپ سے فرمایا تھا، اس کے بارے میں مجھ آگاہ کریں.
اللہ کو گواہ قرار دیتا ھوں کہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات کے ایام میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر مبارکباد عرض کرنے سیدہ سلام اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر ھوا جبکہ سیدہ (س) کے دست مبارک میں سبز رنگ کا ایک لوح تھا (یا تختی تھی) میں سمجھا کہ وہ لوح زمرد کا بنا ھوا ہے اور میں نے اس لوح پر سورج کی طرح چمکتی تحریر دیکھی؛ میں نے عرض کیا: اے دختر رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ھوں یہ لوح کیا ہے؟
سیدہ (س) نے فرمایا: یہ ایسا لوح ہے جو خداوند متعال نے اپنے رسول (ص) پر تحفے کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ اس لوح میں میرے والد، میرے شوھر اور میرے دو بیٹوں کے ناموں کے ساتھ میرے فرزندوں میں سے ھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اوصیاء اور جانشینوں کے نام درج ہیں اور یہ لوح والد ماجد نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت پر تحفے کے طور پر مجھے عطا فرمایا ہے۔
جابر کھتے ہیں: اے فرزند رسول اللہ (ص)! آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ زھراء (س) نے وہ لوح مجھے دیا اور میں نے وہ پڑھ لیا اور اس پر لکھی عبارتیں بھی لکھ لیں.
میں خدا کو گواہ قرار دیتا ھوں کہ اس لوح پر مرقوم تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط ہے خداوند عزیز حکیم کی جانب سے اس کے نبی و حبیب محمد (ص) کے نام ... میں اس ـ علی بن موسی الرضا (ع) کو ـ اس کے بیٹے، جانشین اور اس کے علوم کے وارث "محمد" کے توسط سے ـ مسرور کروں گا اور اپنے خاندان میں سے ایسے ستر افراد کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کروں گا چاھے وہ سارے کے سارے اھل جھنم ھی کیوں نہ ھوں. (۸)
امام جواد علیہ السلام کی شان رفیع
علی بن ابراھیم قمی اپنے والد ابراھیم سے نقل کرتے ہیں: ھم امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام جواد علیہ السلام کے گھر میں حاضر ھوئے. مختلف شھروں سے آئے ھوئے شیعیان امام علیہ السلام کی ملاقات کے انتظار میں بیٹھے ھوئے تھے.
اسی وقت امام رضا (ع) کے چچا عبداللہ بن موسی جو معمر شخص تھے اور کریم النفس تھے ـ دروازے سے اندر آئے. انھوں نے کھُردرا لباس زیب تن کیا ھوا تھا اور ان کی پیشانی پر سجدے کے آثار ھویدا تھے. اتنے میں امام علیہ السلام بھی تشریف لائے. امام علیہ السلام نے کتان کا لباس زیب تن کیا ھوا تھا اور سفید جوتے پھنے ھوئے تھے.
عبداللہ بن موسی استقبال کے لئے اٹھے؛ اور آپ (ع) کے دو آنکھوں کے بیچ پیشانی کو بوسہ دیا.
امام علیہ السلام کرسی پر رونق افروز ھوئے. لوگ امام (ع) کی کمسنی سے حیرت زدہ ھوگئے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رھے تھے۔
ایک مرد اٹھا اور عبداللہ بن موسی سے مخاطب ھوکر کھا: اس شخص کے بارے میں آپ کا فتوی کیا ہے جس نے حیوان کے ساتھ آمیزش کی ھو؟
عبداللہ نے کھا: اس شخص کا دایاں ھاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس پر زنا کی حد جاری ھوگی.
امام جواد علیہ السلام یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا: چچاجان! تقوائے الھی اپناؤ اور محتاط رھو. روز قیامت اللہ کی بارگاہ میں کھڑے کئے جاؤگے اور خداوند متعال پوچھے گا: تم نے ایسے موضوع کے بارے میں کیوں فتوی دیا جس کا تم کو علم ھی نھیں تھا.
عبداللہ نے عرض کیا: میرے مولا و آقا! کیا آپ کے والد نے یھی حکم نھیں دیا تھا؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد سے اس شخض کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے ایک عورت کی قبر کھول کر عورت کی میت سے آمیزش کی تھی اور میرے والد نے حکم دیا تھا کہ نبش قبر کے جرم میں اس کا ھاتھ کاٹ دیا جائے اور اس پر زنا کی حد بھی جاری کردی جائے کیونکہ مردہ انسان کی حرمت زندہ انسان کی مانند ہے۔
عبداللہ نے عرض کیا: میرے اقا! آپ نے سچ فرمایا؛ اللہ مجھے اپنی غلطی کی بابت بخش دے.
حیرت زدہ لوگوں کی حیرت میں مزید اضافہ ھوا اور امام علیہ السلام سے عرض کرنے لگے:
ھمارے سید و مولا! کیا ھم بھی آپ سے کچھ پوچھ سکتے ہیں؟
اس کے بعد لوگوں نے سینکڑوں سوالات پوچھے اور امام علیہ السلام نے سب کو جواب دیا اور اس وقت امام علیہ السلام نو سال کے تھے. (۹)

Add comment


Security code
Refresh